★★★★★★★★
دیوار گیر کھڑکیوں سے پوری تاریخ کا چاند نظر آ رہا تھا۔ پردے بندھے ہوئے تھے۔کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔
کمرے میں ہر طرف اور ہر جگہ بےترتیبی سی تھی۔ خود وہ صوفے پر بیٹھا تھا۔ پیچھے کی طرف سر گرائے۔۔بازو پھیلائے۔۔۔ سیلنگ پر کچھ دیکھتے۔۔۔یاداشت کے کسی کونے میں کچھ کھوجتے۔۔۔ سکون اندر باہر اور آس پاس کہیں نہ تھا۔راتوں کی نیند تو ویسے بھی اڑی ہوئی تھی۔۔بھوک ختم۔۔۔طلب تمام۔۔۔
سماعتیں فون پر ٹھہری تھیں۔منتظر نگاہیں سکرین کو تکتی تھیں۔دوسری طرف خاموشی تھی۔کوشش تھی اور نامیدی تھی۔
پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھا تھا۔ کافی کا خالی کپ اور نیند کی گولیاں بھی۔۔۔
اس نے اپنی آنکھوں کو مسل ڈالا۔
دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔ ملازمہ ایک بار پھر اسے مسز شیرازی کا پیغام دینے آئی تھی۔ اس نے جواب دیا ،نہ اٹھ کر نیچے گیا۔ قدموں کی چاپ ابھری۔راہداری میں خاموشی چھا گئی۔
کچھ ہی دیر میں جنت کا موبائل بج اٹھا۔مسز آفاق کے نمبر سے سات سالہ زید کے مسجز آنے لگے ۔وہ اپنی ممی کے ساتھ شاپنگ کر رہا تھا۔ اور اس نے جنت کے لیے ایک انگیجمنٹ رنگ بھی پسند کر لی تھی۔
ہر تھوڑی دیر بعد وہ اپنی ماں کے موبائل سے اپنی سیلفی بھیج دیتا۔۔ کہیں پر ہنستے۔۔کہیں پر مسکراتے۔۔۔ کہیں پر سوزی کو گلے لگاتے ہوئے۔۔۔۔
اب کی بار نوٹیفیکیشن میں دو تصویریں نظر آئیں۔ وہ جنت سے پوچھ رہا تھا ان دونوں میں سے کس رنگ کی انگوٹھی زیادہ پیاری ہے۔ فارس نے موبائل اٹھا کر تصویر دیکھی۔اسے دونوں پسند نہیں آئیں۔
"وچ ون؟؟!" جنت کا فیانسی پوچھ رہا تھا۔ اور شوہر لب بھینچ کر مسجز دیکھ رہا تھا۔ کچھ توقف کے بعد دو اور تصویریں بھیجی گئیں۔ بچوں کی کھلونا دکانوں میں نقلی میک اپ کٹس کے ہمراہ پلاسٹک جیلوری سی منتخب کی جانے والی ایک ٹافی جتنی انگوٹھی۔۔
اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی گلابی رنگ کی انگوٹھی کو ڈن کر دیا۔ خیال تھا اب مسجز نہیں آئیں گے۔ مسج نہیں آئے ۔ریکارڈنگ آ گئی۔
"زویا!!! سئے السلام و علیکم ٹو یور فیوچر بھابھی!" وہ اپنی تین سالہ بہن کو سکھا رہا تھا۔ بہن کے حلق سے ہلکی سی اور کیوٹ سی آواز ابھری۔۔ "اشامیکم بابی!"
یہ دنوں بچے بچھلے کئی دنوں سے اسکا درد سر بنے ہوئے تھے۔اس نے موبائل سائلنٹ کر کے خود سے پرے رکھ دیا۔ پانی کے ساتھ نیند گولی لینے کے بعد ایک بار پھر سونے کی کوشش کی۔
اندر کا اضطراب بڑھ گیا۔ شور بڑھ گیا۔درد بڑھ گیا۔
دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔ وہ سنی ان سنی کیے پڑا رہا۔★★★★★★★★
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے کارپٹ پر دو زانوں بیٹھی تھی۔چہرہ زرد تھا،آنکھیں سرخ اور بےتحاشہ نم ہو رہی تھیں۔
زرکار روشنی میں کرب نمایاں تھا۔تنہائی میں وہ سراپا مجسم ہوئی خالی ویران آنکھوں سے اندھیرے میں دیکھ رہی تھی۔
پانی کا گلاس پاس رکھا تھا۔صرف دو گھونٹ لیے گئے تھے۔ زندگی اور نصیب کی دہشت ویسی ہی تھی۔خوف وہیں ٹھہرا تھا۔سانسیں وہیں اٹکی تھیں۔۔
رات کے آخری پہر بہت اچانک اسکی آنکھ کھل گئی تھی اور اب تب سے وہ اسی حالت اور اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ بہت سی باتیں تھیں جو یاد آ رہی تھیں۔بہت سی حکایتیں تھیں جو واضح ہو رہی تھی۔ بہت سے خیال،وسوسے،اندیشے۔۔رہ رہ کر سر اٹھا رہے تھے۔دل تڑپ رہا تھا۔ آنسو بہتے جا رہے تھے۔ اسے مسز شیرازی بہت شدت سے یاد آ رہی تھیں۔ انہیں کھو دینے کا غم تڑپائے جا رہا تھا۔
اس نے وعدہ کیا تھا وہ انہیں ان کے پوتے سے ضرور ملوائے گی اور یہ وعدہ اس گھر کی دہلیز پار کرتے ہی فنا ہو گیا تھا۔ سارے رشتے سارے تعلق وہیں رہ گئے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ اسے چھوڑتیں،وہ خود انہیں چھوڑ آئی تھی۔مگر دل وہیں رہ گیا تھا۔ روح یہاں بھٹک رہی تھی۔
محبت کو نفرت میں بدلتے وہ دیکھ چکی تھی۔دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔اس اذیت سے دوبارہ گزرنے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں۔۔۔اور اسے غم تھا۔ اور بہت بڑا غم تھا کہ وہ ان کی محبت سے محروم کر دی گئی تھی۔
مسز شیرازی اب ہاتھ اٹھاتی ہوں گی تو اس کا نام نہیں لیتی ہوں گی۔اسے سوچ کر انہیں کراہت آتی ہو گی۔وہ اسکے وجود سے نفرت کھاتی ہوں گی۔ کم الزام نہیں تھے جو فائزہ چچی نے اسکی ذات پر لگائے تھے۔۔۔کسی گناہ،کسی غلطی،کسی جرم کا پردہ نہیں رکھا تھا انہوں نے۔ سب اگل دیا تھا۔ سب کہہ دیا تھا۔
کمرے کی تمام کھڑکیاں اور دروازے کھلے ہوئے تھے ۔پنکھا بھی چل رہا تھا۔موسم ٹھنڈا تھا اور اسے پھر بھی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔
"ایک سرپرائز ہے تمھارے لیے۔۔۔کراچی سے آؤں گا تب!"
حکایت لکھی جا چکی تھی۔ انجام سوچا جا چکا تھا۔اور اسے پھر بھی رونا آ رہا تھا۔ یہ جدائی۔۔یہ فاصلے۔۔۔یہ سزا تو روز اول سے طے تھی۔وہ ہر حقیقت کو تسلیم کر چکی تھی۔ساتھ رہنے کی خواہشات بدل چکی تھی۔ اس نے خواب نوچ کر پھینک دیئے تھے۔انتظار سمیٹ کر رکھ دیا تھا۔احساسات کو منجمد۔۔اور جزبات کو فنا کر کے اس نے خود کو عدم کی وادیوں میں دفنا دیا تھا۔ اسکا خیال تھا ایسے درد کم ہو گا،دکھ کم ہو گا، رونا کم آئے گا،
مگر اسکا خودساختہ ڈیفنس میکینزم خسارے میں گیا تھا۔اسے تکلیف زیادہ ہوئی تھی۔ اسے رونا زیادہ آ رہا تھا۔ وہ تڑپ رہی تھی۔وہ جل رہی تھی۔ ۔
" مجھے طلاق فوری چاہیئے ہو گی۔۔ تمہیں ابھی سے ڈاکومنٹس کا انتظام کر لینا چاہیئے تاکہ مناسب وقت پر بنا کسی تاخیر کے سائن کر کے ایک دوسرے سے جان خلاصی کی جا سکی! لیکن اگر کچھ وجوہات کی بنا پر۔۔۔ مجھے قبل از وقت یہ گھر چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔۔۔ اور اس دوران میرا تم سے فل فور رابطہ بھی ممکن نہیں ہو پاتا تو میں ایک ماہ تک کی مدت کو زہن میں رکھوں گی اور اس کے بعد سمجھ جاوں گی کہ مجھے طلاق ہو چکی ہے۔۔۔ سو تمہیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ مجھے اس ایک ماہ کے اندر اندر طلاق ہو جانی چاہیئے!"
دو ہفتے گزر چکے تھے۔تیسرا ہفتہ گزرنے والا تھا۔۔اس نے اپنی آنکھوں کو ایک بار پھر بےدردی سے رگڑ ڈالا۔اب تک وہ یقینا اسے طلاق دے چکا ہو گا۔عدینہ زبیر اسکی زندگی میں واپس آ چکی ہو گی۔نفرتوں کے بادل چھٹ گئے ہوں گے۔محبتوں کا نور پھیل گیا ہو گا۔ جو اسکے ساتھ ہوتے ہوئے ادھورا تھا ،وہ من چاہے ساتھی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہو گا۔ اس کی زندگی میں جنت کمال کی جگہ پہلے بھی نہیں تھی' اب بھی نہیں رہی ہو گی۔ گال صاف کر کے وہ اٹھ گئی۔ وضو کر کے مصلہ بچھائے قبلہ رخ کھڑی ہو گئی۔
کچھ سجدوں میں وہ روتی رہی تھی۔۔۔اور کچھ سجدوں میں ہمت اور آسانیاں مانگتی رہی تھی۔اسے یہاں۔۔۔اس نئی جگہ پر۔۔۔اک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا۔ وہ اپنا ماضی بھلا دینا چاہتی تھی۔
اور باہر دروازے کے پاس کھڑی صابرہ بوا آنکھوں میں رحم اور ہمدردی لیے اسے دیکھ کر رہ گئی تھیں۔
★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...