Chapter:17(چوتھی قسط)

314 28 2
                                    

★★★★★★★

وہ بیڈ سائڈ کے ساتھ پشت ٹکائے فرش پر دو زانوں بیٹھی تھی۔ کمرے میں ملگجی سی روشنی کا مدھم سا تاثر تھا جو اسکی آنکھوں کی ویرانی کو عیاں کر رہا تھا۔
رنگت زرد۔۔۔۔ لب باہم پیوست ۔۔۔۔اور ایک ہی نقطے پر جمے براؤن عدسے۔۔۔جن کے اطراف میں سرخ ڈوریاں تھیں۔ان ڈوریوں میں ایک کرب تھا۔۔۔اس کرب میں ایک آگ تھی۔جس میں سب جل رہا تھا۔خواب بھی۔۔خواہشات بھی۔۔امید بھی یقین بھی۔۔
پاس ہی موبائل پڑا تھا۔ سکرین روشن تھی۔ انجان نمبر سے ارسال کی گئیں فارس اور عدینہ زبیر کی شادی کی تصاویر کھلی پڑی تھیں۔
زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ،سنجیدہ مگر کچھ نرمی لیے تاثرات،ہشاش بشاش چہرہ۔۔۔مگر جنت کمال کی تمام تر توجہ ان ہیزل آنکھوں پر مرکوز رہی تھی جن سے جھلکتے محبت کے حسین رنگ اسے ان پانچ ماہ میں ایک بار بھی نظر نہیں آئے تھے۔ جنت کی سنگت میں تو جیسے وہ ادھورا تھا۔۔مکمل تو وہ عدینہ زبیر کے ساتھ لگ رہا تھا۔ جوڑی بھی کمال کی تھی۔پہلی نظر میں خیال آئے تو بس یہی کہ بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔۔۔
"اگر میں اسے ہاں کہہ دوں۔۔۔ذرا سوچو!! تمھاری حیثیت کیا رہ جائے گی؟!"
دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ آنکھیں مکمل طور پر نم ہو گئیں۔
حیثیت!!! زہن کے پردے پر لمحے بھر کے لیے ایک منظر ابھرا۔۔۔پھر دوسرا۔۔پھر تیسرا۔۔۔آنکھوں میں ٹھہرے آنسو گالوں پر لڑھک گئے۔
ماضی مستقبل میں ڈھلنے لگا۔اذیت روپ بدلنے لگی۔چہرے گڈمڈ ہونے لگے۔۔ "ماہین" کی جگہ "عدینہ" آ گئی تھی۔ "برھان" کی جگہ "فارس" لے چکا تھا۔
وقت ایک بار پھر وہی حکایت لکھ رہا تھا۔جس کا آغاز بےشک مختلف۔۔۔۔ مگر انجام اب بھی ایک سا تھا۔ حیثیت جتلا کر، عیب بتلا کر، راستے جدا کر دینا۔۔۔۔۔۔اسکے ساتھ ایک بار پھر وہی ہو رہا تھا۔وہ ایک بار پھر اسی تکلیف سے گزرنے والی تھی۔ اسی خار راستے پر چلنے والی تھی۔ کھیل اب بھی نصیب کا تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ اب کی بار اسے کوئی خواب نہیں دکھایا گیا تھا، امید نہیں دلائی گئی تھی۔نہ اعتبار جتایا گیا تھا، نہ محبت دکھائی گئی تھی۔ اب کی بار جزبات میں بناوٹ نہیں تھی،نہ انداز میں حلاوت تھی۔ اب کی بار وہ سچا کھرا انسان۔۔۔۔اپنی نفرتوں میں بہت خالص تھا۔ اپنے ارادوں کا پختہ،اپنے فیصلوں پر آج بھی قائم تھا۔بھٹک تو وہ گئی تھی جو یہبسوچ بیٹھی تھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ٹھیک نہ بھی ہوا تو وہ سنبھل جائے گی۔قسمت جس راستے کا انتخاب کرے گی وہ چل پڑے گی۔۔جس منزل کا تعین کرے گی وہ اس تک پہنچ جائے گی۔۔۔مگر وہ ساری ہمت،وہ پورا کا پورا حوصلہ۔۔۔وہ امید سے بھرا یقین۔۔اسکا عزم۔۔۔ اسکا فیصلہ۔۔۔۔سب لمحے میں فنا ہوا تھا۔وہ بکھر کر سمٹنے کے بجائے مزید ریزہ ریزہ ہونے لگی تھی۔ آخر وہ کیوں ہر بار خالی ہاتھ تہہ دامن رہ جاتی تھی؟کیوں عدم ہو جایا کرتی تھی؟کیوں نفی کر دی جاتی تھی؟؟؟
" ممی کو بہو چاہیئے تھی.... وہ اپنی مرضی اور پسند سے تمہیں یہاں لے بھی آئیں...مجھے لائف پارٹنر چاہیئے ہوتا تو میں کم از کم تمہارا انتخاب نہ کرتا!" اندر کہیں آواز گونجی تھی۔سرد۔۔خشک۔۔۔جلا کر بھسم کر دینے والی آواز۔۔۔
"ایک سرپرائز ہے تمھارے لیے!"
چہرہ ہاتھوں میں چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اپنی تکلیف کا مصدر سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔ یہ تڑپ کس وجہ سے تھی؟یہ درد کس لیے تھا آخر؟ اس نے تو خود کو ہر طرح کی سچویشن کے لیے تیار کر لیا تھا۔ فارس کے ساتھ مستقبل کے خواب دیکھنے بھی چھوڑ دیئے تھے۔ وہ اس گھر میں مسز شیرازی کی وجہ سے تھی ،اس نے اس حقیقت کو بھی قبول کر لیا تھا۔۔ اس کے باوجود یہ درد۔۔۔۔ جو دل میں اٹھ رہا تھا۔یہ کیوں اٹھ رہا تھا!؟
گھٹنوں پر سر رکھے، روتے سسکتے اس نے اپنے گرد بازو باندھ لیے۔۔ وہ اپنے آپ کو ،اپنی گرفت میں لے کر جیسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ سنبھل نہیں رہی تھی۔ اسکا دل رو رہا تھا۔اسکی روح تڑپ رہی تھی۔
"پازیٹیو سوچو بچے!" نانا ٹہلتے ہوئے اکثر کہے جاتے تھے۔ آج بھی ان کی آواز بازگشت بن کر اس کے اندر گونجی تھی۔
"اس حالت۔۔میں بھی؟؟" وہ ہچکیوں کے بیچ بمشکل بول پائی۔"اس حالت میں بھی بابا؟؟؟ اس حالت میں بھی؟؟؟!"
"درد اور تکلیف کی انتہاء پر اگر تم پازیٹیو نہیں سوچو گی تو پھر کب سوچو گی؟؟" وہ مسکرائے۔
اس نے آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا۔کمرے میں اس کے علاؤہ اور کوئی نہیں تھا۔
" روشنی میں یہ گمان رکھنا کہ راستہ مل جائے گا ،قدرے آسان ہے۔" وہ کھڑکی کے پاس کھڑے باہر دیکھ رہے تھے۔ " اصل کمال تو اسکا ہوا جو آزمائش کی تاریکی میں اس سوچ پر قائم رہا ۔۔۔اس وقت جب کوئی راستہ تھا،نہ روشنی باقی رہی تھی۔۔۔۔"
اب وہ اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھے تھے۔ اسکا ہاتھ تھامے،اسکے آنسو پونچھ رہے تھے۔ اور وہ بےبسی سے روئے جا رہی تھی۔
وہ ہمت کر کے آج نانا سے کہہ دینا چاہتی تھی۔۔ جینے کی ہر خواہش ختم۔۔۔اب بس موت مل جائے ۔۔۔۔ ایک نئے امتحان میں پڑنے سے پہلے ، ایک نئی آزمائش کو جھیلنے سے پہلے۔۔۔ وہ بس کسی طرح مٹ جائے۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ خاک ہو اور پھر خاک ہی رہے۔۔۔ اب کی بار جب اسکی موت ہو تو جگہ "قبر" ہی بنے۔۔۔بس اب اور نہیں۔۔۔ اب مزید اور نہیں۔۔۔
باہر آسمان پر بادل پھیلے رہے تھے۔ ہوائیں تیز ہو رہی تھیں۔ اپنے گرد بازو باندھے وہ قالین پر سمٹ کر لیٹ گئی تھی۔ وہ سونا چاہتی تھی۔اپنے درد سے لاتعلق ہونا چاہتی تھی۔ چند لمحوں کا سکون۔۔اور خاموشی۔۔۔ بس یہی چاہیے تھا اسے۔۔۔ مگر اندر کاشور ہمیشہ کی طرح اس خواہش پر بڑھ گیا تھا،آوازیں بےانتہاء تیز ہو چکی تھیں۔ اور وہ اندر ہی اندر گھٹتے ہوئے ایک بار پھر زخمی لہولہان ہونے لگی تھی۔
★★★★★★★

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Donde viven las historias. Descúbrelo ahora