chapter:31

408 41 9
                                    

★★★★ ★★★★★

مطلع ابر آلود تھا۔ فضاء میں حبس کے ساتھ خاموشی چھائی ہوئی  تھی۔ شدید گرمی سے اکتائے ہوئے علی کا خیال تھا آج بارش ضرور ہو گی۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی لیکن گھر پہنچنے سے پہلے تک نہیں۔
صندل آپا نھنی مروہ کو لیے اپنے میکے گئی ہوئی تھیں۔ صابرہ بوا نے  اپنی ہمسائی کے یہاں  دعوت پر اسے اور بچیوں کو بھیج دیا تھا۔ خود وہ گھر میں سلیم کی بیوی انعم کی کسی رشتہ دار  کی وجہ سے  رک گئی تھیں جو آج صبح ہی ان سے ملنے آ گئی تھی۔
صابرہ بوا کی ہمسائی کا گھر ہرے بھرے کھیتوں اور  وسیع سںبزہ زار کے اس پار تھا۔ دعوت سے چار  بجے تک فارغ ہو کر اس نے واپسی کا رخ کیا تو اس وقت  آسمان سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔
فاطمہ ، عیشا اور علی پگڈنڈی پر شور مچاتے  بھاگے چلے جا رہے تھے اور وہ سر پر دوپٹہ لیے احتیاط سے قدم اٹھاتی ان کے پیچھے چل رہی تھی۔شہد بالوں کی کچھ لٹیں  پیشانی سے چپکی ہوئی تھیں۔ گرمی کی شدت سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
" آج تو طوفان آئے گا!" علی نے ہاتھ اٹھا کر آسمان کو دیکھتے کہہ دیا۔
"اللہ نہ کرے علی!!"وہ دہل کر بولی۔اسے بارش ضرور چاہیے تھی مگر طوفان کے ساتھ ہرگز نہیں۔
  علی نے مڑ کر اسے دیکھا۔ پھر رک گیا۔ "آپ یہاں نئی آئی ہو نا۔اسلیے آپ کو نہیں پتا۔ہمیں پتا ہے۔  یہاں ساری ہوائیں رک جاتی ہیں۔ پھر بادل آتے ہیں۔ وہ بلکل کالے ہو جاتے ہیں۔ پھر  ہوائیں چلتی ہیں۔ اور بہت زور سے چلتی ہیں۔اتنی زور سے کہ   اگر آپ کمرے میں نہیں چھپیں گی تو اڑ جائیں گی۔"
جنت نے رک کر پسینہ صاف کیا۔گہرا سانس لے کر پھر سے قدم اٹھائے۔ پتا نہیں علی کو یہ کیوں لگتا تھا کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق تھی جسے بارش ، آندھی اور طوفان کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔
"اس کے بعد  بارش آتی ہے۔۔بہت تیز۔۔" علی نے دونوں ہاتھ چہرے کے قریب لے آکر ،آنکھیں میچیں "اتنی تیز ۔۔۔اتنی تیز کہ۔۔۔۔"
"کہ اگر میں کمرے میں نہیں چھپوں گی تو بہہ جاؤں گی!" بقیہ جملہ اس نے بےزار ہو کر مکمل کیا۔
"بلکل!" علی اترایا۔ پھر تیزی سے بھاگا۔ فاطمہ نے اسکے دیکھا دیکھی رفتار پکڑی۔ البتہ عیشا  پگڈنڈی سے گزرتی کہیں سے پھول،کہیں سے پتے، کہیں سے کوئی لڑی توڑتی جا رہی تھی۔اور اس عمل کی وجہ سے وہ جنت سے بھی پیچھے رہ گئی تھی۔۔
"عیشا!!" ہر تھوڑی دیر بعد وہ رک کر اسے پکارنے لگتی۔ اور عیشا سرعت پکڑ کر پھر سے سست ہو جاتی۔
کھیتوں کے اس پار مضبوط راستے پر قدم جماتے ہی اسے فضاء میں یکایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ ہوائیں چل گئی تھیں۔مگر اتنی تیز نہیں تھیں کہ اسے اڑا لے جائیں۔
عیشا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے وہ دائیں طرف  گلی میں داخل ہو گئی۔ بلکل سامنے سڑک واضح نظر آتی تھی۔ جس پر اکا دکا گاڑیاں گزرتی ہوئی دکھائی دے جاتی تھیں ورنہ موٹر سائکل یا پھر رکشے نظر آتے رہتے۔
ایک سیاہ رینج روور اسے سڑک کنارے ہی کھڑی دکھائی دے گئی تھی۔ شاید کوئی جاگیردار اپنی زمینوں کے دورے پر تھا۔
گردن موڑ کر اسی طرف دیکھتے وہ دوسری گلی میں داخل ہوئی اور اگلے ہی لمحے اپنی جگہ پتھر کی طرح ساکت ہو گئی۔
علی نے بھاگ کر آہنی دروازہ اندر کی جانب دھکیل دیا تھا۔ فاطمہ اسکے پیچھے بھاگی تھی۔ عیشا کو گلی میں ہی کوئی چیز نیچے گری ہوئی ملی تھی جسے اٹھانے کے لیے وہ جھک گئی تھی۔
وقت لمحے بھر کے لیے رکا تھا۔ اور پھر جیسے رکا رہ گیا تھا۔بارش کے قطرے فضاء میں معلق ہوئے، ہوائیں رک گئیں،شور تھم گیا۔
سیاہی مائل جینز پر خاکی کاٹن آف وائٹ شرٹ میں ملبوس  فارس وجدان اس کے سامنے کھڑا تھا۔ کشادہ پیشانی پر بال بکھرے تھے۔ہیزل آنکھوں کی سرخی میں نمی ٹھہری تھی۔
بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ  یقین اور بے یقینی میں مدغم ہوتے تاثرات میں ایک پوشیدہ کرب لیے وہ وہم سے خیال ،اور پھر خیال سے ایک حقیقت ہو گیا تھا۔
بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ بارش شروع ہوئی۔
اسے گھر چھوڑے ہوئے پچیس دن ہو چکے تھے، چھبیسویں دن وہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔اس نے وہ مدت پوری  ہونے نہیں دی تھی۔اسے  وقت کی حد سے نکلنے نہیں دیا تھا
جنت کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔فارس وجدان یہاں نہیں ہو  سکتا تھا۔وہ اس کے پیچھے یہاں نہیں آ سکتا تھا۔
ایک  نکاح ہی تو تھا۔ اور اس نکاح کی تو فارس وجدان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ وہ کسی  بزنس ڈیل کی طرح اس رشتے کو ایک عام سا کانٹریکٹ سمجھتا تھا۔ اور اس عام سے  کانٹریکٹ کے لیے وہ  اتنا سفر طے کر کے  یہاں تک نہیں آ سکتا تھا۔اسکا راستہ نہیں روک سکتا تھا۔ لیکن جو فارس اسکے سامنے کھڑا تھا اس نے ایسا کر دیا تھا۔
وہ اب  قدم اٹھا رہا تھا  تو  اسکی چال غیر متوازن تھی۔ایسے لگتا تھا جیسے وہ کسی لمبے سفر سے شکست خوردہ سا لوٹا ہو۔منزل اب بھی اس کے لیے  بےنام، اور راستہ ابھی بھی اس کے لیے مشکل رہا ہو۔جانے وہ بارش تھی جس نے اسکا چہرہ تر کر دیا تھا یا وہ آنسو تھے جو اسکی آنکھوں سے گر رہے تھے!؟؟وہ سمجھ نہ سکی۔
فارس کے ساتھ اسکے معاملات  اس نوعیت کے ہرگز  نہیں تھے کہ وہ اس لمحے کمزور پڑتی یا حساس ہو جاتی۔وہ اسکا سہارا نہیں تھا کہ اس کے بنا وہ ٹوٹ کر ریزہ ہوتی۔ لیکن اسے رونا آیا تھا۔ اور جانے کیوں شدت سے رونا آیا تھا مگر وہ ساری چیخیں آنکھوں میں لیے ضبط کیے کھڑی تھی۔وہ زندگی کی طرف بہت مشکلوں سے پلٹی تھی۔ دوبارہ فنا نہیں ہونا چاہتی تھی۔
وہ وہیں کھڑی تھی،جہاں وہ تھی،مگر فارس وہاں نہیں تھا،جہاں وہ ہوا کرتا تھا۔ وہ پہلے کسی اور مقام پر تھا۔ اب کسی اور مقام پر نظر آ رہا تھا۔
فاصلہ ختم ہوا۔اور وقت  رک گیا۔قریب پہنچ کر اس نے آہستگی سے ہاتھ اٹھایا۔ کپکپاتی انگلیوں سے اسکا ک گال چھوا۔وہ  یقین کرنا چاہتا تھا جنت خیال نہیں رہی تھی، ایک حقیقت ہو چکی تھی۔
اس کے چہرے کے تاثرات یکایک یوں ہوئے جیسے اس میں ابھی ابھی زندگی کی اک نئی لہر دوڑی ہو۔ یا جیسے اسکی تھمی ہوئی سانسیں نئے سرے  سے بحال ہو گئی ہوں۔وہ پھر سے جی اٹھا ہو۔وہ اسکی ہر کیفیت اور احساس سے بےخبر اسے بہت صدمے سے دیکھ رہی تھی۔
علی کہہ رہا تھا آج طوفان آئے گا۔علی ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔
جنت کمال کی زندگی میں طوفان آ چکا تھا۔
یکایک وہ اپنے سکتے سے باہر آئی۔اس نے فارس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اسی سرعت سے رخ بدل کر گھر میں داخل ہوئی ،اور اسی تیز بوچھاڑ میں بھیگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now