Chapter:16

336 28 4
                                    

بیڈ پر تکیوں کے سہارے وہ نیم دراز کوئی کتاب ہاتھ میں لیے  بیٹھا تھا۔ موبائل پاس ہی پڑا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد موصول ہوتے مسجز کے نوٹیفکیشن کو مسلسل نظر انداز کیے وہ بظاہر پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسکی تمام تر توجہ اس اٹھا پٹخ کی طرف تھی جو جنت کمال کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ درازیں کھینچیں جا رہی تھیں۔ چیزوں کو ادھر ادھر کیا جا رہا تھا۔جس چیز کی تلاش تھی وہ اسے پورا کمرہ الٹ پلٹ کرنے کے باوجود نہیں ملی تھی۔
تھک ہار کر وہ وارڈ روب کی طرف مڑی جو  تمام کے تمام کھلی ہوئی تھی۔  سفری بیگ قالین پر دھرا  تھا۔ ہینگر سے کپڑے نکال کر تہہ کرتی اب وہ شدید غصے میں لگ رہی تھی۔
چار دن بعد ان کی لندن کی فلائٹ تھی۔ سامان ابھی سے  پیک کیا جا رہا  تھا۔ اور کچھ غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں کیا جا رہا تھا۔
"تم ایسے ریئکٹ کر رہی ہو جیسے میں تمہیں زبردستی لندن لے جا رہا ہوں۔ "بلآخر فارس نے خاموشی کا قفل توڑا۔
"ہاں تو کیا ایسا نہیں ہے؟" وہ پلٹ کر غرائی۔ "تمھاری ہر چال اب مجھے بہت اچھے سے سمجھ آ رہی ہے!"
"کیسی چال!!؟؟" لبوں پر ابھرتی مسکراہٹ دبائے وہ سیدھا ہو بیٹھا۔"میرے ساتھ لندن جانے کی خواہش تو ہمیشہ سے تمھاری ہی تھی۔"
ہینگر سے گلابی  سویٹر نکالتی جنت کمال مشتعل ہو کر اسکی طرف مڑی۔"یہ تم نے خود کہہ دیا۔۔ تھی!! یعنی فعل ماضی۔۔۔پاسٹ ٹنس !!! اب میری ایسی کوئی خواہش نہیں رہی!"
"اچھا مذاق ہے یہ!" وہ ہنسا۔
"مذاق  نہیں حقیقت ہے یہ!!" جنت جل بھن گئی۔
"تمھاری حقیقتیں بھی تمھاری طرح کچھ عجیب سی نہیں ہیں!؟" اسکا لہجہ مذاق اڑانے والا تھا۔
جنت نے پلٹ کر اسے سرد نظروں سے گھورا۔
"کوئی خوش فہمی ہے تو دور کر لو۔ میں  صرف ممی کی وجہ سے تمہیں "مجبورا" ساتھ لے جا رہا ہوں!"
"میں بھی صرف ان کی وجہ سے جا رہی ہوں۔۔ورنہ تمھارے ساتھ تو میں گلی کے نکڑ تک بھی نہ جاوں!!"
"ا..بہت خوب!" وہ محظوظ ہوا۔  جنت کو تپ چڑھی۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی جوابی حملہ کرتی فارس کا موبائل بج اٹھا۔سکرین پر ابھرتے نام پر نظر پڑتے ہی وہ کال ریسیو کرتا اسی وقت اٹھ کر کمرے سے چلا گیا تھا۔
وہ جو اپنے کپڑے ہاتھ میں لیے کھڑی تھی،اسکی اس حرکت پر ٹھٹھک سی گئی۔فارس کی  بیشتر کالز کاروباری نوعیت کی ہوتی تھیں جنہیں وہ ہمیشہ اسکے سامنے ہی اٹینڈ کرتا تھا۔دوست احباب سے بات چیت بھی اسکے سامنے ہو جایا کرتی تھی۔ مگر پچھلے کئی دنوں سے ایک مخصوص نمبر سے آنے والی کال   اٹینڈ کرنے کے لیے وہ اٹھ کر باہر چلا جاتا تھا۔ ہر بار اس کے تاثرات بدلتے تھے اور آنکھوں کی چمک کچھ بڑھ سی جاتی تھی۔
پہلے تو اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا مگر اب اسے شک ہونے لگا تھا۔
کچھ سوچ کر وہ بے آواز قدموں کے ساتھ باہر آ گئی تھی۔ اس نے پھر  وہیں سے  سیٹنگ ایریا کی طرف دیکھا۔
"میں بھلا تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں؟"سامنے وکٹورین طرز کے آئینے میں فارس کا سائڈ پوز واضح نظر آ رہا تھا۔
"ممی سے میں نے فی الحال بات نہیں کی ہے، میں انہیں سرپرائز دینا چاہتا ہوں، " اس نے رک کر کچھ سنا،پھر مسکرایا۔ "تم کہہ سکتی ہو!!"
خاموشی ایک بار پھر چھائی تھی۔ وہ بہت توجہ اور یکسوئی سے مخاطب کی بات سن رہا تھا۔ اور اس دوران کئی بار اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔ "کون؟؟ میری بیوی؟؟؟اسکی تم فکر مت کرو میں سب سنبھال لوں گا۔۔۔"
کیا سنبھالے گا وہ؟؟ جنت کا ماتھا ٹھنکا۔مخاطب یقیناً ایک لڑکی تھی۔ اسکا شک یقین میں بدل چکا تھا۔
مگر یہ لڑکی تھی کون؟!  یہ سوال اب وہ ڈائرکٹ فارس وجدان سے نہیں پوچھ سکتی تھی۔پوچھنے کا کوئی حق بھی نہیں رکھتی تھی۔حق رکھتی بھی ہوتی تو پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے  یہی ظاہر کرنا تھا کہ ایسی کسی بات سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
سر جھٹک کر وہ کچھ ہی دیر میں کمرے کے اندر تھی۔
ہاں اسے ہرگز ہرگز فرق نہیں پڑنا چاہیے!! اس نے اپنے گال تھپتھپا کر خود کو سمجھایا۔پھر اپنے کام میں جت گئی۔
کون ہو سکتی ہے؟؟؟؟کچھ ہی دیر بعد اپنا بکھیرا سمیٹتے ہوئے   وہ ایک بار پھر سوچنے بیٹھ گئی تھی۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now