Chapter:45

222 10 1
                                    

      ★★★★★★★

قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر مسز شیرازی جنت کے کمرے میں آ گئیں۔نیچے شفٹ ہو جانے کا ایک یہ فائدہ ہوا تھا کہ وہ اس کے کمرے میں بآسانی آ جا سکتی  تھیں۔
کھڑکیوں سے سوئمنگ پول نظر آتا تھا۔دیواروں پر دھوپ اتری ہوئی تھی۔ سبزہ روشنی میں چمک کر اور ہرا لگ رہا تھا۔ وہ اسی طرف دیکھ رہی تھیں۔
جنت مسلسل بولتے ہوئے وارڈ روب کھولے کھڑی تھی۔ وہ اسکی سن رہی تھیں۔ اسے جواب بھی دے رہی تھیں۔
وارڈ روب میں صرف اسکی چیزیں، اسکا سامان تھا۔۔ بچے کے لیے کی جانی والی اشیاء وہ ترتیب سے نیچے رکھ رہی تھی۔
کمرہ چونکہ بڑا تھا تو دائیں طرف کا حصہ بچے کے لیے بہت خوبصورتی سے سیٹ کیا جا سکتا تھا۔
"بےبی کاٹ یہاں اچھا لگے گا!"
انہوں نے کہا۔
"ہے نا! میں نے بھی کل رات یہی سوچا۔ اور اس دیوار کے ساتھ میں الگ سے وارڈ روب لے لوں گی۔۔ کپڑے ،کھلونے سب ترتیب سے رکھ دوں گی۔۔ " انہیں ادراک ہوا آنے والے وقت کے بارے میں اسکی سوچ کافی حد تک بدل چکی ہے۔وہ اپنے خوف کو مٹا کر نئے خواب سجانے لگی ہے۔ انہیں اس مثبت تبدیلی پر خوشی محسوس ہوئی
"ہاں یہ ٹھیک رہے گا!"وہ دل سے  مسکرائیں۔
جنت ان کے پاس صوفے پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ "سچ سچ بتائیں آپ کی کیا خواہش ہے؟"
"کس بارے میں ؟؟"
"آپ کا پوتا ہونا چاہیے یا پوتی؟" وہ آنکھوں میں تجسس اور اشتیاق لیے پوچھ رہی تھی۔
"مجھے بس اپنے بیٹے کی صحت مند  اولاد چاہیے۔۔بیٹا ہو یا بیٹی۔۔۔اس سے فرق نہیں پڑتا!"اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔
"یہ کہنے کے لیے ڈھیر سارا شکریہ!!" انکے گال سے گال مس کر کے کہا۔پھر اٹھ کر دوسری اشیاء سمیٹنے لگی۔ ساتھ ہی شادی کا حوالہ بھی دے رہی تھی۔ مسز شیرازی  اب  وارڈ روب کی طرف دیکھ رہی تھیں۔پندرہ دن فارس وجدان کی سنگت میں گزارنے کے باوجود  اس نے کمرہ الگ کر لیا تھا۔جانتیں تھیں فارس اسے وقت اور سپیس دے رہا ہے۔ وہ اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔یہ ایک آزادی تھی۔۔ خود سے ایک فاصلہ قائم کر کے وہ اسے اپنا فیصلہ بدلنے کا موقع دے رہا تھا۔۔۔انکے لبوں پر مبھم سی مسکراہٹ ٹھہر گئی۔۔مگر کچھ سوچ کر جانے کیوں دل اداسیوں میں گھر گیا۔۔۔ منی کچن سٹ۔۔سفید رنگ کے مخملیں کپڑے۔۔۔آنکھوں میں اضطراب لیے انہوں نے جنت کی طرف دیکھا۔
"لندن میں فارس ٹھیک رہا؟ کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟"  انہوں نے پوچھا۔
جنت رک گئی۔ گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔ چند لمحوں تک کھڑی رہی۔ اب وہ انہیں الرجی ریکشن کا بتائے؟ یا سلیپنگ پلز اور انٹی ڈیپریسنٹ کا حوالہ دے؟؟ وہ انہیں کسی بھی صورت پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"جی وہ ٹھیک رہا! بس اسے ذرا سا زکام ہوا تھا۔۔اور کچھ نہیں!!" مسکرائی۔
وہ گہری سانس لے کر چپ ہو گئیں۔ رخ بدل کر پھر سے باہر دیکھنے لگیں۔
"کل آپ کہہ رہی تھیں مجھے پینٹنگ دکھائیں گی؟" انکی خاموشی اور آنکھوں سے جھلکتی پریشانی محسوس کر کے انکے پاس آ گئی۔ 
"ہاں ایک مکمل کی ہے۔ کافی عرصے سے بنا رہی تھی لیکن ادھوری ہی تھی۔ تم دونوں لندن چلے گئے تو پھر فرصت سے مکمل کر لی۔"
"چلیں پھر مجھے دیکھائیں۔ تاکہ میں اسے ریٹ کر سکوں۔۔۔ ویسے تو میں آپ کی ہر پینٹنگ کو دس میں سے پورے بیس نمبر دیتی ہوں۔۔۔"
وہ ہنس دیں۔ جنت وہیل چیئر پر ہاتھ جمائے ان کے ساتھ  اسٹوڈیو میں آ گئی۔
سامنے ہی دیوار پر سفید چادر میں ایک لارج سائز کی  پینٹنگ دیوار کے ساتھ رکھی تھی۔اب تک کی مسز شیرازی کی تمام پینٹنگز میں یہ سب سے بڑی تھی۔ تقریبا آدھی دیوار کور کر رکھی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر  کپڑا ہٹا دیا گہرے رنگوں سے مزین ایک ڈارک سی پینٹنگ سامنے تھی۔ جنت کمال دم سادھے کھڑی رہ گئی۔
سمندر کی طرف آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ایک وسیع وعریض محل۔۔۔لمبے مینار۔۔۔اونچی مضبوط دیواریں۔۔۔محل کے باہر جگہ جگہ سیاہ ہوتی گھاس سے آدھے چھپے،آدھے ظاہر ہوتے خون آلودہ نیزے، تیر، اور تلواریں ۔۔محل کی تمام کھڑکیاں  تاریک صرف ایک  کھڑکی روشن تھی۔۔اس کھڑکی کی چوکھاٹ پر سرخ خون ٹپک رہا تھا۔اندر کسی کی موجودگی کا گمان بھی ہو رہا تھا۔انگلیاں خون سے رنگی ہوئیں۔۔تلوار ٹوٹی ہوئی اور حفاظتی چوغہ پٹھا ہوا نظر آ رہا تھا۔انہوں نے اس قدر تفصیل اور صفائی سے ایک ایک چیز بنائی تھی کہ وہ متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی۔
"زبردست!!!" اسکے منہ سے بےساختہ نکلا۔۔ "یہ آپ نے۔۔۔کب بنایا؟؟"
"کافی عرصے سے بنا رہی ہوں۔۔ ہمیشہ ادھوری ہی رہ جاتی  ہے۔۔۔ اب مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں!" کہہ کر وہ آگے ہوئیں۔۔اسے ادراک ہوا سٹور روم میں  دیوار کے ساتھ جو سفید کپڑے میں ڈھکی ہوئی چیز تھی وہ یہی دیوار گیر پیٹنگ تھی۔۔۔
" بہت گہری  ہے!!" اس نے کہا۔۔۔ "جیسے۔۔یہ ہتھیار۔۔۔ خون۔۔۔دیواریں۔۔۔ اور یہ سیاہ جڑیں۔۔۔۔ایسے لگ رہا ہے جیسےہر ایک شئے کی اپنی ایک حکایت ہے!!"
"اسکی واقعی میں ایک کہانی ہے۔۔۔ سنو گی؟؟"
جنت نے مڑ کر انہیں دیکھا۔ "ضرور!!"آنکھوں میں  اشتیاق لیے کہا۔
جیبوں میں ہاتھ ڈالے فارس اسٹوڈیو کے دروازے میں رکا تھا۔ دستک کے لیے ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔مگر مسز شیرازی کی آواز سنتے ہی رک گیا۔۔۔۔
"ایک جادوگر شہزادے نے زخمی ہو کر اونچی لمبی دیواروں کے ایک مضبوط محل میں خود کو قید کر لیا ۔" انہوں نے ہاتھ سے  محل کی واحد روشن کھڑکی کی جانب اشارہ کیا۔۔" ۔اسکا بدن زخموں سے چور ہے۔۔ ہاتھ خون آلودہ ہیں۔۔ ہتھیار بھی ٹوٹ چکا ہے۔۔۔گھوڑا بھی نہیں رہا۔۔۔۔"
جنت دم سادھے انہیں بہت توجہ سے سن رہی تھی۔
"جادوگر شاہزادے نے اپنی رہی سہی قوت مجتمع کی اور محل کی  دیواروں کے ساتھ اگے خوبصورت پھول اور پودوں کو خطرناک کانٹے دار جھاڑیوں میں بدل دیا۔ رنگ برنگے پھول۔۔ نرم ملائم گھاس۔۔۔اور سورج کی روشنیوں سے چمکتا سبزہ سب سیاہ ہو گیا۔دیواروں سے وحشت ٹپکنے لگی۔ اونچا مضبوط محل ہر کسی کو خوفزدہ کرنے لگا۔۔۔"
ادھ کھلے دروازے سے انہیں دیکھتا فارس اپنی جگہ منجمد کھڑا تھا۔
"اب جب بھی کوئی خزانے کی تلاش میں  محل کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اپنے اندر زندگی کی لہر لیے وہ خونخوار جھاڑیاں دیوار بن کر اسے لہولہان کر دیتیں۔۔۔ہر طرف خوف و ہراس پھیلنے لگا۔۔لوگ محل سے دور بھاگنے لگے۔۔۔"
جنت کی نگاہیں مسز شیرازی پر ٹھہری تھیں۔۔ اور مسز شیرازی کی نگاہیں پینٹنگ پر۔۔۔
" وقت گزرنے لگا۔۔۔دنیا بدلنے لگی۔۔۔ صدیاں بیت گئیں۔۔۔مگر محل کے  اندر جادوگر شاہزادے کے لیے اسکا  وقت رکا رہا۔ اسکے زخم۔۔ اسکی اذیت۔۔اسکا ہر غم اس کے لیے ٹھہرا رہا۔۔۔
شاہزادے کو لگتا تھا یہ اسکی اس  دنیا میں آنے کی سزاء ہے۔۔۔۔یا پھر اس فتح کی۔۔۔۔جو اس نے اپنا سب ختم کر کے حاصل کی ہے۔۔۔  "
دروازے کے اس پار کھڑے فارس کی آنکھوں میں حزن کی ایک لہر اٹھی۔سرخ ڈوریو میں  کرب اترا۔ لب بھنچے رہے۔ درد بڑھتا گیا۔
"پھر؟؟"جنت سامنے ہی فلور کشن پر بیٹھی انہیں مگن ہو کر سن رہی تھی۔۔
"پھر یہ کہ ایک غریب یتیم   لڑکی جو جادوگر خاندان سے نہیں تھی۔۔۔ کچھ وحشیوں سے بچتی بچاتی محل کی طرف آ نکلی۔۔۔اپنی زندگی بچانے کے لیے اس نے محل میں داخل ہونے کی ٹھانی۔۔۔ مگر چونکہ وہ جادو نہیں جانتی تھی اس لیے اسکا محل کی حدود میں داخل ہونا ممکن نہیں تھا۔
جس وقت وہ محل  کی بیرونی دروازے پر وحشی درندوں میں گھری ہوئی کھڑی تھی۔۔اس وقت شاہزادے نے حیران ہو کر  اسے کھڑکی سے دیکھا۔۔ محل کی بیرونی دیوار  سے اندر تک کا حصہ اپنا رنگ بدل رہا تھا۔ سیاہ گھاس ہری ہو رہی تھی۔ زمین سے پودے پھوٹ پڑے تھے۔ جس جگہ پر لڑکی کھڑی تھی اس جگہ پر اب کوئی کانٹے دار جھاڑی نہ تھی۔۔ دروازے پر جو جڑیں لپٹی ہوئی تھیں وہ بھی ٹوٹ کر راکھ ہو رہی تھیں۔دروازہ صاف ہوا تو   لڑکی اندر  آ گئی۔۔۔ وحشی درندے اس حد سے باہر رہے۔۔۔اندر نہ آ سکے۔۔۔۔" روانی سے بولتے ہوئے انہوں نے ایک لمحے کا توقف کیا۔
"جادوگر شاہزادے کے لیے وہ منظر کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ اسکا جادو اس لڑکی پر کسی طور اثر نہیں کر رہا تھا۔اس کے لیے زمین ہری ہو رہی تھی۔ پھول کھل رہے تھے۔ محل صدیوں سے تاریک رہا تھا۔۔مگر  اب لڑکی کے آتے ہی کرنیں بھی زمین پر اترنے لگی تھیں۔۔۔۔
شاہزادے کو لگا وہ لڑکی اسکے مضبوط حصار میں شغاف کر دے گی۔۔ جھاڑیاں روپ بدلیں گی تو دیواریں کمزور ہو جائیں گی۔۔دیواریں کمزور ہو گئیں تو پھر وہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔۔۔۔۔اذیت ۔۔غم۔۔۔ اور سبھی دکھ پھر سے آ جائیں گے۔۔۔۔ماضی اپنا آپ دہرائے گا۔۔پھر سے جنگ ہو گی۔۔پھر سے فتح ہو گی۔۔اور پھر سے قید ملے گی۔
جادوگر  شاہزادہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلستے   ہوئے اس نے لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔"
جنت کی سانسیں رکیں۔ تجسس کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھ گیا۔۔۔وہ جیسے ایک ایک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتی ایک ماوارائی کہانی میں مکمل غرق ہو چکی تھی۔۔۔
"پہلے پہل اس نے کوشش کی  لڑکی محل کے اندر داخل نہ ہو سکے۔ مگر چونکہ جادو کا اثر اس لڑکی پر نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ دروازوں پر چڑھی خطرناک بیلوں کو زیادہ دیر تک اسکے راستے میں حائل نہ کر سکا۔۔
لڑکی جب محل کے اندر داخل ہوئی تو اسکا اٹھایا جانے والا ہر قدم خوف کی تاریکی اور وحشت کے سناٹے کو  مٹاتا گیا۔۔۔کھڑکیوں سے کرنیں اندر آنے لگیں۔ جو مخلوق تاریکی میں بسیرا کرتی تھی وہ روشنی میں فنا ہونے لگی۔۔۔۔
محل کی پوری نو  منزلیں تھیں۔اور ہر منزل جادوائی سی۔۔اپنے اندر بہت سے راز لیے ہوئے تھی۔۔
لڑکی پہلی منزل پر دس دن رہی۔۔۔دوسری منزل پر بھی دس دن۔۔۔تیسری منزل پر بھی دس دن۔۔۔ اور اس دوران اسے شاہزادے کی خود نوشت ملی جو وہ صدیوں سے لکھتا آ رہا تھا۔۔ہر منزل پر اسے کچھ حصہ مل  جاتا جسے پڑھتے ہوئے  وہ ایک ان دیکھے وجود کی محبت میں گرفتار ہونے لگی۔ ۔
اسے اپنے آس پاس شاہزادے کی موجودگی کا گمان ہونے لگا تھا ۔وہ اس سے باتیں  کرتی۔۔۔آوازیں بھی دیتی۔۔نغمے بھی سناتی۔۔۔۔مگر کبھی جواب نہیں آتا تھا۔۔۔
"میں تمہیں بچا سکتی ہوں!" وہ اکثر اونچی آواز میں کہتی۔۔۔۔ "میں تمہیں آزاد کر سکتی ہوں!"وہ اسے یقین دلاتی۔۔"تمھارے زخم بھر جائیں گے۔۔۔تمھارا درد بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔ ایک بار میرے سامنے آ جاو۔۔۔" مگر شاہزادہ جو  اسے ایک تھریٹ کے طور پر دیکھتا تھا وہ اسکے سامنے کیسے آ سکتا تھا؟اسکے لیے تو وہ ایک مجرم تھی ۔۔سزا کی مستحق جو اسکی اجازت اور مرضی کے بغیر اسکے محل میں گھس آئی تھی۔۔ ۔
  ساتویں منزل پر پہنچتے ہی لڑکی کو احساس ہوا اس کے  پاؤں زخمی ہونے لگے ہیں۔وہ ہڈیوں میں درد محسوس کرنے لگی۔ آٹھویں منزل پر اسکی جلد پر لکیریں ابھرنے لگیں جیسے چھوٹے چھوٹے کٹ لگتے ہیں ویسے ہی۔۔۔شاہزادے کو خوشی ہوئی  کہ لڑکی کی صلاحیت بلآخر ختم ہونے لگی ہے۔  اس نے اپنے جادو کا زور مزید بڑھا دیا۔۔۔
آٹھویں سے نویں منزل پر پہنچنے تک لڑکی زخموں سے چور اور بےطرح سے نڈھال ہو چکی تھی۔مگر اسنے ہمت نہیں ہاری۔۔۔ وہ پہلی اور آخری بار اس قلعے کے بھوت سے۔۔یعنی کہ اس شاہزادے سے ملنا چاہتی تھی۔ اس نے وہ دروازہ کھولا جس میں شاہزادہ بند تھا۔۔۔ وقت کے دائرے میں قید، زخموں سے چور کسی بپھرے ہوئے شیر کی طرح  سر اٹھائے کھڑا تھا۔۔ حملہ کرنے کو مکمل تیار۔۔۔لڑکی کے قدم رکھنے کی دیر تھی۔۔ محل کی بقیہ تمام منازل کی طرح اس منزل پر بھی اسکی موجودگی کا اثر ہونے لگا۔ سیاہی مٹ گئی،اندھیرا چھٹ گیا، روشنی بکھر گئی۔منظر صاف ہونے لگا۔ مگر یہاں ایک انہونی ہوئی ۔ اسکا اثر صرف محل کی در دیوار کو نہ ہوا بلکہ  شاہزادے پر بھی ہوا۔۔وقت کی زنجیر ٹوٹ گئی۔شاہزادے  کے زخم بھرنے لگے،اسکا درد ختم ہو گیا۔۔ اسکا جسم پھر سے صحیح اور سلامت  ہو گیا۔۔۔ اور لڑکی بےجان ہو کر اس کے قدموں میں آ گری۔۔۔۔"
"آنٹی نہیں پلیز۔۔سیڈ اینڈنگ نہیں!!" فورا سے دکھی ہو کر کہا۔ مگر مسز شیرازی اس کہانی کی رائٹر نہیں تھیں۔ وہ اسکی اینڈنگ نہیں بدل سکتی تھیں۔
" شاہزادے کو اس آخری  لمحے میں احساس ہوا کہ اپنا حصار  مضبوط کرنے کے لیے وہ پچھلے نوے دنوں سے جس لڑکی کو اذیتوں سے دوچار کرتا رہا ہے ۔۔وہی لڑکی  اسکے تمام درد اور اذیتیں اپنے وجود میں سمیٹ کر اسے اپنی آواز کا عادی بناتے ہوئے اسکے دل میں اپنے لیے محبت جگا کر ختم ہو چکی ہے۔۔۔۔"وہ چپ ہو گئیں۔جیسے کہانی بس یہیں تک تھی۔ ایک فسوں سا بندھا ہوا تھا جو انکی خاموشی سے ٹوٹا۔فارس کہانی کے حصار سے باہر نکل آیا۔
"ظالم شاہزادہ۔!!!! نوے دن تک اسکی محبت نہیں پہچان سکا۔۔گدھا!!!!!!" جنت کو غصہ چڑھ گیا۔۔ وہ دکھی اختتام پر بےانتہاء دکھی ہوئی بیٹھی تھی۔ مسز شیرازی مسکرائیں۔اور باہر۔۔دروازے کے پاس کھڑا فارس۔۔۔مسکرا تک نہ سکا۔۔۔
"تمہیں شاہزادے کی سائیکالوجی بھی سمجھنی چاہیے بیٹا!!"
"میں اسے کیا سمجھوں۔۔۔ آپ یہ دیکھیں وہ لڑکی اسکا درد چننے آئی تھی آنٹی۔۔۔ اس کے لیے مرحم لائی تھی۔۔" اسے بہت دکھ ہو رہا تھا۔
"مگر شاہزادے کو کیا پتا وہ جو اپنے ساتھ لائی ہے وہ اسکا مرحم ہے؟اسکے زخموں کے لیے ہے؟؟" انہوں نے نرمی سے  پوچھا۔
"اسے سمجھنا چاہیے تھا کہ لڑکی کے آنے سے پھول کھل رہے ہیں!یہ  زندگی کی علامت ہے۔۔۔"وہ اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی۔
" یہی پھول  اسکے جادو کا اثر  ختم کر رہے تھے۔۔ تو وہ کیسے بھروسہ کرتا؟؟"
وہ  لاجواب ہو گئی۔ مسز شیرازی نے نرمی سے اسکی طرف دیکھا۔ دھیرے سے مسکرائیں۔
"جو لوگ بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں ،اور جنہوں نے بہت دکھ سہا ہوتا ہے  وہ اپنے گرد ایسی ہی  ایک دیوار کھڑی کر لیتے ہیں بیٹا۔اور تہیہ کر لیتے ہیں کہ اب جب بھی کسی نے یہ دیوار پھلانگنے کی کوشش کی تو وہ اسے توڑ دیں گے مگر  اپنی حدود میں ہرگز  نہیں آنے دیں گے۔ " انہوں نے محل کی اونچی مضبوط فصیلوں کی جانب اشارہ کر کے کہا۔ "خود کو کسی بھی ممکنہ اذیت  سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ یہ حفاظتی اقدامات کرتے ہیں۔ اور ان جانے میں ان لوگوں کو بھی ہرٹ کر دیتے ہیں جن کا واحد مقصد اس دیوار کو پھلانگ کر ان کے دامن سے سارے کانٹے چننا ہوتا ہے!"  بات گہری تھی۔۔اسکے دل کو لگی۔
" جب احساس ہوتا ہے تو اس وقت کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے!!" رک کر گہری سانس لی ، پھر اسکی جانب دیکھا۔۔۔
"جادوگر شاہزادے جیسے لوگ برے نہیں ہوتے بیٹا۔۔۔وہ اتنی بار ٹوٹ چکے ہوتے ہیں کہ انہیں جڑنے سے خوف آتا ہے۔۔۔وہ بس کسی پر اعتبار نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔" بات مکمل ہو کر ختم ہوئی ۔
اتری ہوئی شکل کے ساتھ اس نے رخ موڑ کر پیٹنگ کو دیکھا۔
گہرا سمندر۔۔۔بلندیوں میں کھڑا ایک شاندار سیاہ محل۔۔۔۔مضبوط دیواریں اور کھڑکی۔۔۔ جادوگر شاہزادہ کھڑکی میں تھا۔۔۔دوسرا دروازے میں  کھڑا رہا تھا۔۔۔
                              ★★★★★★★
                              ★★★★★★★

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now