Chapter:14

341 28 15
                                    

  " ایک کپ چائے!! میرے لیے بھی!!"
شدید غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ اپنے لیے چائے بنا رہی تھی جب عقب میں فارس وجدان کی آواز بہت اچانک سے  گونجی تھی۔جنت نے مڑ کر اچھنبے سے اسے دیکھا۔کیااسے جنت نظر نہیں آئی تھی!؟ یا پھر اس نے جنت کو ہی میڈ سمجھ لیا تھا!؟
"مجھ سے کہہ رہے ہو!؟" انگلی سے اپنی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ حیرت سے۔ بے یقینی سے۔۔
"تمھارے علاوہ بھی کوئی یہاں ہے!؟" کاونٹر ٹیبل کے ساتھ پشت ٹکائے, سینے پر بازو باندھے وہ سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"میرے ہاتھوں کی چائے پینے سے تم مر نہیں جاو گے!؟"
"ممکن ہے زندہ رہ جاوں!!"
جنت نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔۔۔ پہلے وہ خاموش رہ کر اسے بےعزت کرتا تھا۔ اب بات کر کے اسے بےوقعت کر رہا تھا۔۔
" یہ جو نوکروں کی فوج ہے تمھاری ان سے بنوا لو اپنی چائے!" بگڑے تیوروں کے ساتھ خاصے جارحانہ انداز میں جواب دے کر اس نے مگ کاؤنٹر پر پٹخ دیا۔
" پہلے تو خود بنا بنا کر پیش کرتی رہی ہو  تم!!"
"اس وقت میں حواسوں میں نہیں تھی!"
"اب تم حواسوں میں ہو!؟"
جنت نے بمشکل خود پر ضبط کے پہرے بٹھا کر اس کے متبسم چہرے کو دیکھا  پھر گہرا تنفس لے کر جیسے اپنے اعصاب کو  پرسکون کرنے کی کوشش کی۔۔۔ چند لمحوں  کے بعد اس نے برنر بند کر دیا۔۔ مگ میں چائے انڈیل کر وہ جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ فارس راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
" کیا چاہتے ہو تم!؟" وہ زچ ہو ہوئی تھی۔۔
" تمہیں کیا لگتا ہے!؟"
"سوری میں تمہیں اپنی چائے نہیں دے سکتی!" مگ پر گرفت جما کر اسے آنکھیں دکھائیں۔۔۔
وہ خاموش کھڑا رہا۔۔ اس نے پھر دائیں طرف سے گزر جانا چاہا تو فارس نے بازو پھیلا کر روک لیا۔۔ کوفت سے اس نے بائیں سمت کا رخ کیا تو اس نے پھر وہی کیا۔۔۔جنت کاپارہ چڑھ گیا۔۔۔۔
"ہٹو میرے راستے سے!!"
"سوری ! میں تمہیں راستہ نہیں دے سکتا!" وہ بھی اتنا ہی سنجیدہ تھا جتنی کہ وہ تھی۔۔۔۔
"میں پھر بھی اپنی چائے تمہیں نہیں دوں گی!!" گھونٹ بھر کر جتایا بھی گیا۔۔ کہ لو۔۔ اب یہ چائے تمھارے کسی کام کی نہیں۔۔۔ پھر کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔۔۔کہ اب یہاں سے جانے کا میرا کوئی ارادہ بھی نہیں۔۔۔
پھر کرسی کی بیک سائڈ پر بازو ٹکا کر شان بے نیازی سے فارس کو دیکھتے ہوئے  تاثر دیا کہ میں جیتی تم ہارے۔۔۔۔!!!
اور اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتی فارس نے ایک ہی جست میں ہاتھ بڑھا کر مگ اٹھا لیا۔۔
جنت کا دماغ بھک سے اڑا۔۔۔
سپ لیتے ہوئے اس نے جتاتی نگاہوں سے جنت کو دیکھا ۔۔۔ کہ لو۔۔۔ اب یہ چائے تمھارے بھی کسی کام کی نہیں۔۔۔پھر کرسی کھینچ کر شاہانہ انداز میں بیٹھ گیا کہ یہاں سے جانے کا میرا بھی کوئی ارادہ نہیں۔۔
اس کے بعد کرسی کی بیک سائڈ کے ساتھ پشت ٹکاتے ہوئے تیسرا سپ لے کر آنکھوں سے جتایا کہ میں جیتا تم ہاری!!!!
اور وہ ہکا بکا اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔ کہاں وہ اس کی ہاتھ کا کھانا دیکھ کر ڈائننگ ٹیبل چھوڑ دیتا تھا۔۔ کہاں وہ اسکے ہاتھوں سے چائے لے کر پی گیا تھا!؟ یہ وقت بھی آنا تھا!؟ یہ انہونی بھی ہونی تھی!؟
کہیں تھپڑ سے اسکا دماغ  تو نہیں ہل گیا!؟ کہیں ڈاکٹر بخاری نے اسے غلط ادویات تو نہیں دے دیں!؟ اسے صحیح معنوں میں تشویش ہوئی تھی۔۔۔
چائے کاخالی مگ اس کے سامنے رکھ کر وہ جا چکا تھا۔ اور وہ کتنی ہی دیر تک حیران و ششدر بیٹھی رہ گئی تھی۔...
                               ★★★★★★✳️

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now