★★★★★★★★
اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دی تھیں۔ منظر دھندلا سا تھا.ہاتھ اٹھا کر اس نے پیشانی کو چھوا۔۔پھر آنکھوں کو مسلا۔
چند لمحوں کے بعد ہسپتال کا کمرہ مدھم نیلگوں روشنی میں نمایاں ہوا۔قطرہ قطرہ رگوں میں سرایت کرتی ڈریپ۔۔۔ کئی خاموشیاں اور سناٹے لیے بند کھڑکیوں سے جھانکتی اداس شام۔۔۔۔
پلکیں جھپکا کر اس نے گہرا سانس لیا۔ اسکا حلق خشک ہو رہا تھا۔آنکھوں میں جلن تھی۔ سر بھاری تھا۔سامنے ہی کرسی پر صابرہ بوا تسبیح ہاتھوں میں لیے بیٹھی تھیں۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس آ گئیں۔کس قدر کوشش سے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
انہوں نے بےساختہ اسکا ہاتھ تھاما، پیشانی چومی۔ اسے بھینچ کر خود سے لگایا۔۔ وہ خالی الزہنی کی کیفیت میں ان کے سینے سے لگی سوچے جا رہی تھی تو بس یہی کہ وہ یہاں کیونکر اور کیسے موجود تھی؟
دھند مٹ رہی تھی۔اندھیرے چھٹ رہے تھے۔منظر واضح ہو رہا تھا۔
دماغ کی تاریک سرنگوں میں ایک روشنی سی پھیلی۔ مین روڈ پر دوڑتی گاڑیوں کا شور اس کے حواسوں پر چھانے لگا۔موسلادھار بارش کے تصور سے وجود ایک بار پھر لرزیدہ ہوا۔
اس نے سٹور پر کسی لڑکے سے موبائل لے کر سلیم کو فون کیا تھا۔وہ اسلام آباد میں پوسٹڈ تھا۔اسکی پکار پر بھاگا چلا آیاتھا۔وہ پورا دن اس کے گھر ۔۔اسکی بیوی کے پاس رہی تھی۔طبیعت پہلے سے خراب تھی اور کچھ بارش کا بھی اثر تھا کہ اسے بخار نے آ لیا تھا۔مگر وہ ان کے بےحد اصرار پر بھی نہ ہاسپٹل جانے کو تیار ہوئی تھی۔۔اور نہ ہی کچھ کھانے کو رضا مند تھی۔ صورت حال کے پیش نظر سلیم نے صابرہ بوا سے فون پر رابطہ کر کے اسکی ٹکٹ شام تک کروا دی تھی۔
اسے بس کا وہ مشکل ترین سفر یاد آیا۔تاریکیوں میں گھرا وہ شاق دن یاد آیا۔
انگاروں پر لوٹتا وجود، جلتی ہوئی ویران آنکھیں۔۔۔کپکپاتی انگلیاں۔۔۔روتا تڑپتا دل۔۔۔انگ انگ میں اترتا اضطراب۔۔۔۔
صابرہ بوا کے گھر پہنچنے تک ، ان کے سامنے آنے تک اور پھر کسی بےجان وجود کی طرح ان کی بانہوں میں سمانے تک اسے سب یاد تھا۔
اس کے بعد جب سر چکرایا تھا اور اندھیرے چھائے تھے تو چیخ و پکار سنتے اسے گمان ہوا تو بس اس امر کا کہ اب وہ مرنے والی ہے۔ مگر وہ مری نہیں تھی۔اسکی سانسیں ہنوز چل رہی تھیں۔دل ہنوز دھڑک رہا تھا۔ کیفیت یوں ہو رہی تھی جیسے وہ لمبی بیماری سے اٹھی ہو۔
کیا انجام اب کسی نئے آغاز سے جڑ چکا؟؟!
آنکھوں میں کرب لیے اس نے نظر اٹھا کر صابرہ بوا کو دیکھا۔کچھ کہنے کے لیے لبوں کو جنبش دی۔۔آواز حلق سے نہ نکلی۔۔ آنکھوں کے کنارے نم ہو گئے۔
صابرہ بوا نے ایک دم سے آبدیدہ ہو کر اسکا زرد چہرہ ہتھیلیوں میں لے لیا۔ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔اب وہ کچھ کہہ رہی تھیں۔وہ سرخ پڑتی خالی ویران آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
سماعت میں پڑتے الفاظ اسے مجسم کرنے لگے،دھڑکن تھمنے لگی۔ تنفس بھاری ہوا۔۔۔آنکھیں پتھرانے لگیں۔
ہاتھ اٹھا کر خداکا شکر ادا کر کے،اسے کندھوں سے تھام کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اب اسے "رپورٹ" دیکھا رہی تھی۔
دماغ پہلے سے ماؤف تھا۔۔حواس شل رہے۔۔لفظ عدم اور آواز صامت رہی۔۔۔
محرومیوں کے بوجھ تلے فنا ہوتا وجود یقین اور بے یقینی کے درمیان معلق ہو گیا۔۔
اسکا سر بےساختہ نفی میں ہلا۔۔۔اس نے اپنا آپ چھڑا لیا۔وہ گہرے صدمے سے گزر رہی تھی۔ صابرہ بوا کو ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
مگر وہ مذاق تھا،نہ مزاح ۔ایک خبر تھی۔بشارت تھی۔انہوں نے رپورٹ سامنے رکھی۔کہ وہ خود دیکھے۔خود سمجھے۔یہ سراب نہیں تھا۔خواب بھی نہیں تھا۔
اور اس نے دیکھا ۔۔اپنی ان ویران آنکھوں سے دیکھا۔پلکیں جھپکا کر اور دھڑکنوں کو تھام کر دیکھا۔۔
پانچ سالوں تک جو رپورٹ "منفی" تھی وہ "مثبت" ہو کر سامنے تھی۔پانچ سالوں تک جو محرومی "ساتھی" تھی،وہ "انعام" ہو کر واضح تھی۔
وہ ساکت بیٹھی تھی۔منجمد۔۔بےحس!!بےجان۔۔۔پتھرائی ہوئی نگاہوں سے زندگی کو کھوجتے۔۔۔سانسوں کو جوڑتے،ایک بےجان کاغذ کو کپکپاتی انگلیوں میں دباتے۔۔۔۔۔
"تم بانجھ ہو جنت! اور بانجھ عورت ایک مرد پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی!"
گلدان ٹوٹ گیا تھا۔کانچ کے ٹکڑے بکھر گئے تھے۔وہ ایک مکمل تصویر پرزوں میں بٹ گئی تھی۔
"جنت نہیں۔۔جنت میرا بچہ!!"
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔ابھی اور اسی وقت دفعہ ہو جاؤ یہاں سے!"
وقت پلٹنے لگا۔ صفحے الٹنے لگا۔ حکایتیں صبیح ہو گئیں۔دن تاریک۔۔۔اور تاریک راتیں صفاء ہو گئیں۔
"یہ ایک کاغزی شادی ہے جنت کمال!! یہ صرف کاغز تک محدود رہے گی!"
"اب تم حق مہر کی رقم اپنے پاس رکھ سکو گی!"
اس نے پلکیں جھپکائیں۔سرخ ڈوریوں میں کرب ہلکورے لے کر اٹھا،آنسو رواں ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔
"کچھ محرومیاں عطاء کا ایک روپ ہوتی ہیں جنت! اللہ کی "کن" کی منتظر۔۔۔ اپنا روپ بدلنے کو ہر لمحہ مستعد!!۔۔۔۔۔۔۔اصل امتحان تو اس مدت کا ہے۔۔جو اس محرومی میں گزاری جاتی ہے۔اس دوران ہمارے صبر کو جانچا جاتا ہے۔۔ہمارے شکر کو پرکھا جاتا ہے۔۔پھر ایمان کا درجہ متعین ہوتا ہے!"
اللہ!! پورے وجود پر ایک لرزہ سا طاری ہوا۔آنکھوں سے وحشت اتر گئی۔سانسوں سے وزن ہٹ گیا۔"جنہ!!!! بچے!!!" صابرہ نے اسے کندھوں سے تھاما ہوا تھا۔وہ اسے پکار رہی تھیں۔مگر وہ ان کی سن نہیں رہی تھی۔
"مانگتی رہو اور دیکھتی جاو اللہ کی مرضی سے تمھاری جھولی میں کیا گرتا ہے، جو گرے اسے بخوشی اپنا لو، خواہ وہ نقطے جتنی خوشی یا ذرے جتنی برکت ہی کیوں نہ ہو!" پردوں کی درز سے جھانکتی سورج کی تیز روشنی۔۔۔مسز شیرازی کا مسکراتا چہرہ۔۔۔ بےشمار کلر ٹیوبز۔۔کنواس۔۔۔۔ اور پینٹنگ۔۔۔ہنزہ کی پینٹنگ۔۔۔۔عسریسرا کی پینٹنگ۔۔۔۔۔
"ہر عسر کے ساتھ یسرا ہے!اور یہ یسرا کیا ہےاگلی بار میں اسکا جواب دوں گی آپ کو۔۔"
یکایک منظر بدلا تھا۔
" تمھاری فارس سے شادی میری وجہ سے نہیں ہوئی ہے، نہ ہی تمهاری خالہ کی وجہ سے.....یہ تمہارا نصیب ہے جو تمہیں یہاں لایا ہے!"
نصیب!! نصیب!! ہر طرف ایک ہی گونج تھی۔۔ایک ہی صدا۔۔۔۔اس ایک لفظ نے اسے کتنا ڈرایا تھا۔۔۔کتنا رلایا تھا۔۔ آن کی آن میں اب۔۔ کتنا معتبر۔۔کتنا منفرد، کتنا بدیع(انوکھا) ہو گیا تھا۔
"جس وقت منفی سوچ جڑ پکڑے۔ اور مایوسی انتہا کی گہری ہو جائے تو سمجھ جاو۔۔ یہ شیطان کا آخری وار ہے ۔۔۔ٹھیک اس وقت پڑ رہا ہے جب وہ تمھارے "انعام" سے واقف ہو چکا ہے۔"
اور اسکا انعام کیا ہو سکتا تھا؟؟ اس نے تب بھی سوچا تھا۔ وہ اب بھی سوچ رہی تھی۔اسوقت ایک لمحے کے لیے یہ انعام اسکے زہن میں نہیں آیا تھا۔اب بھی نہیں آ رہا تھا۔بلکل نہیں آ رہا تھا۔۔
"جنہ!!بچے!!"
اس نے سر اٹھا کر روتی سسکتی نگاہوں سے صابرہ بوا کو دیکھا۔یقین اور بے یقینی کے عالم میں۔۔اندر ہی اندر ٹوٹتے بکھرتے ہوئے۔۔۔۔خود اذیتی کی دلدل میں اترتے ہوئے۔۔۔بار بار تاریک رات کا منظر آنکھوں آ رہا تھا۔ اپنا فیصلہ یاد آ رہا تھا۔موت اور اس کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ تھا۔چند لمحوں کی مسافت تھی۔۔
وہ خودکشی کرنے والی تھی۔ اپنی جان لینے والی تھی۔۔اسے وہ آخری لمحہ یاد آیا۔۔وہ آخری پل۔۔جب فٹ پاتھ سے آگے سڑک پر قدم جماتے وہ ٹھہر گئی تھی۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی تو نہیں ہل سکی تھی۔۔۔اسے نانا یاد آئے تھے۔۔ان سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا تھا۔۔
اذیت بھری زندگی تو گزار رہی تھی۔۔۔آخرت برباد کرنے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں۔۔۔
اور وہ لمحہ ٹھہر گیا۔۔۔وہ لمحہ رہ گیا۔۔۔
پوری دنیا میں خود کو تنہا تصور کرنے والی جنت کمال ۔۔۔اس لمحے "تنہا" نہیں تھی۔۔۔
اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔صابرا بوہ نے بازوں میں بھر لیا۔ان کے سینے میں سر دیئے وہ چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ساری محرومیاں،ساری اذیتیں،سارے کے سارے غم یکایک عدم ہوئے۔۔۔۔ وہ ایک عطاء۔۔۔ہر مصیبت پر بھاری ہو گئی۔۔وہ ایک انعام ہر درد کو فنا کر گیا۔
"دعائیں رد نہیں ہوتیں جنت!! محفوظ کر لی جاتی ہیں، جو آپ مانگ رہے ہوں وہ نہ ملے تب بھی۔۔۔ آپ کے ہاتھ خالی نہیں لوٹائے جاتے! خدا ہمیشہ بڑھ کر عطاء کرتا ہے،وہ آپ کو حیران کر دیتا ہے! "
اور اسکے خدا نے اسے۔۔۔حیران کر دیا تھا۔
ŞİMDİ OKUDUĞUN
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romantizm𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...