★★★★★★★★★
وہ صبح کے سات بجے گھر سے نکلتا تھا اور باغ کے راستے ٹہلتا ہوا بہت دور نکل جاتا تھا۔یہ اسکی روزمرہ کی روٹین تھی۔ ابتدائی کچھ دنوں تک تو جنت اسے کھڑکی سے ہی جاتا دیکھتی رہی تھی۔ چوتھے دن وہ اپنے نانا کی اجازت سے مین گیٹ پر موجود تھی۔ اور پھر جیسے یہ روز کا معمول بن گیا تھا۔
وہ صبح سویرے جیسے ہی اسے باغ کے راستے نظر آتا تھا وہ اپنا وہی ٹویٹی بیگ پہنے بھاگی چلی آتی تھی۔
کبھی وہ اکیلی ہوتی،کبھی راستے میں اسکے نمونے دوست بھی ساتھ ہوتے۔۔۔ ٹیپو،مونی کاکا ، شاکا۔۔۔ ایک تو نام انوکھےاوپر سے حرکتیں بھی عجیب سی تھیں۔۔بھاگ بھاگ کر درختوں پر چڑھتے،شاخوں سے لٹکتے۔۔۔اور مریم عرف مونی تو سارا وقت بڑی اماوں کی طرح اپنے سر پر دوپٹہ ہی جماتی رہتی۔۔ جنت ان کی لیڈر تھی۔چیختے ہوئے جس رخ اشارہ کرتی وہ سبھی اسی طرف دوڑ پڑتے۔چھوٹی چھوٹی باتیں،اور فضول سے لطیفے ان کے لیے اتنے مضحکہ خیز ہوتے کہ وہ ہنس ہنس کے گھاس پر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔اور وہ حیرت سے انہیں دیکھتے ہوئے سوچتا رہ جاتا ہنسنے والی بات کیا تھی؟؟
کبھی کسی شرارت پر بستی کے لوگ ڈانٹنے کو لپکتے تو وہ سارے اسے ڈھال بناتے پیچھے چھپ جاتے۔اور لوگ اسے اعظم شیرازی کا کوئی غیرملکی مہمان سمجھ کر لحاظ کر جاتے۔ ان کے جانے کے بعد جو جھڑکیاں وہ انہیں پلاتا،اگلے پانچ منٹ تک تو کسی کی آواز بھی نہ نکلتی ۔۔اسکے بعد وہی بھاگ دوڑ، شور شرابا۔۔۔
اور وہ انہیں کبھی الجھن۔۔۔اور کبھی اکتاہٹ سے دیکھ کر رہ جاتا۔ اتنے شور اور ہلے گلے کا وہ عادی نہیں تھا۔مگر مسئلہ صرف عادت کا نہیں تھا۔انہیں ہنستا مسکراتا دیکھ کر اسے عجیب وحشت ہوتی تھی۔
وہ ان کی سنگت میں سات سالہ فارس ہو جایا کرتا تھا۔ان کی نھنی نھنی خوشیوں اور قہقہوں سے الجھنے لگتا تھا۔ساری محرومیاں،تلخیاں ایک ساتھ یاد آتیں تو اسکے احساسات عجیب ہو جاتے۔اور موازنہ شروع ہو جاتا۔
کتنے خوش قسمت تھے یہ بچے۔۔ہر غم،پریشانی اور خوف سے مبرا۔۔۔رشتوں میں گھرے، محبتوں سے جڑے۔۔۔ انہیں حق تھا اس طرح قہقہ لگا کر ہنسنے کا۔۔۔ اس طرح مسکرانے اور ڈھیر ساری شرارتیں کرنے کا۔۔۔نہ کسی کے باپ نے اسے چھوڑا تھا، نہ کسی کی ماں نے اسے ٹھکرایا تھا۔۔
وہ دنیا کے خوش قسمت ترین بچے تھے جو اپنا بچپن ویسا ہی جی رہے تھے جیسا انہیں جینا چاہیے تھا۔ ان کے کندھوں پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔۔ اور ذہنوں پر کوئی سوال نہیں تھے۔۔ وہ شفاف تھے۔۔۔ ان پر ان کے والدین کوئی دھند نہیں جمنے دے رہے تھے۔۔۔ اور ایک وہ تھا۔۔۔جسے اسکے اپنے والدین نے محبت سے لکھ کر نفرت سے مٹا دیا تھا۔
اس دن وہ واپس آیا تو کافی سے زیادہ اداس تھا،سارا دن وہ ڈاکٹر مصطفیٰ کے گھر رہا، سلیم اور جنت اس سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ چپ رہا۔ڈاکٹر مصطفیٰ آئے تو اسکا رویہ محسوس کر گئے۔ کھانے کے بعد کچھ دیر تک سوال جواب کرتے رہے مگر وہ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
اب وہ انہیں یہ بتائے کہ وہ ان کی سات سالہ نواسی اور اس کے دوستوں سے جیلس ہو رہا ہے؟؟ اس لیے کہ وہ اتنا ہنستے اور مسکراتے ہیں؟
وہ چھوٹے بچوں کا ذکر کر کے ان کے سامنے چھوٹا نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔وہ بے سکونی کا سامنا کر کے اس بار خالی نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔سارے غم،الجھنیں اور محرومیاں سمیٹے وہ گھر چلا گیا۔اس دن پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے ڈاکٹر مصطفیٰ سے اپنی بات شیئر نہیں کی تھی۔
اگلے دن وہ باغ میں گیا تو بچوں نے اسے ایک بار پھر گھیر لیا۔ تنگ آ کر اس نے کسی تنہا ویران گوشے میں اوجھل ہو جانے کی کوشش کی،خیال تھا جب وہ انہیں نہیں ملے گا تو وہ اپنے کھیل میں مگن ہو کر اسکا پیچھا چھوڑ دیں گے مگر وہ بچے بھی گویا بوتل کا جن تھے۔ دائیں بائیں آگے پیچھے سے چیختے ہوئے یوں نمودار ہوئے جیسے وہ ان کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا تھا۔ یعنی کہ حد ہے!
تپ کر ، جھڑک کر ،اور انہیں اچھا خاصا ڈانٹ کر وہ گھر چلا گیا۔اگلے دو دن اس نے باغ کا رخ نہیں کیا۔ تیسرے دن پوری فوج اسکے دروازے پر تھی۔
"کاکا نے مچھلیاں پکڑی ہیں۔چھوٹی چھوٹی سی ہیں۔۔۔۔۔تم دیکھو گے؟"
اور کاکا کی تو شان ہی الگ تھی۔ سٹیل کے ایک برتن کو فورا سے آگے کر دیا۔ اس نے سرسری سی نگاہ دوڑائی۔
"یہ ٹیڈ پول ہیں۔!" بمشکل ضبط کر کے کہا۔
"ہاں ہمیں پتہ ہے۔۔ یہ مچھلیاں ہیں!" یہ جنت تھی۔
"یہ مچھلیاں نہیں ہیں۔" اس نے تحملی سے کہا۔ "یہ بڑے ہو کر مینڈک بنیں گے۔"
"نہیں! یہ بڑے ہو کر بڑی مچھلی بنیں گے!" جنت ڈٹ گئی۔ اس نے ہار مان لی۔ ان کی مچھلیاں۔۔۔ انکی مرضی بڑے ہو کر ڈاکٹر،انجینیر، مینڈک ، زرافہ،ہاتھی، شارک کچھ بھی بنائیں۔۔اسکی بلا سے!
"ٹیپو کو بلی کا بچہ ملا ہے ،بلیک کلر کا ہے،اتنا کیوٹ ہے وہ، ٹیپو گھر سے لائے گا تو ہم سب اس کے ساتھ کھیلیں گے!" ایک اور اطلاع بہم پہنچائی گئی۔ اور بڑے ہی رازدارانہ انداز میں پہنچائی گئی۔چونکہ جنت کی بلی سلیم کو دے دی گئی تھی سو وہ بہت محتاط ہو کر بات کر رہی تھی تاکہ اسکے نانا کو بلکل پتہ نہ چلے کہ ایک اور بلی کا انتظام ہو چکا ہے۔
وہ بےزار سا انہیں خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
وسیع وعریض سبزہ زار پر اعظم شیرازی باہر بیٹھے تھے۔لان چیئر کا رخ اسی طرف تھا۔بظاہر وہ کافی پیتے ہوئے آغا علی کی بات سن رہے تھے مگر وہ دیکھ اسے ہی رہے تھے۔
فارس کی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں میں یکایک سختی اتر آئی۔رخ بدل کر اپنے کمرے میں گیا۔کوٹ اور سنیکرز پہن کر باہر آیا تو ایک واویلا سا مچا ہوا تھا۔کاکا سے بھاگتے ہوئے برتن گر گیا تھا۔ ان کی "ٹیڈ پول" جنہوں نے بڑے ہو کر "مچھلیاں" بننا تھا ،وہ گھاس میں کہیں گم ہو گئے تھے۔اور وہ سب کے سب انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔
"پانی کے بغیر تو وہ مر گئی ہوں گی!" یہ خیال جنت اور اسکی جینئس فوج کو پورے دس منٹ کی تلاش بسیار کے بعد آیا تھا۔
"کوئی بات نہیں! میں ابا کے ساتھ دوبارہ جاؤں گا تو بہت ساری ڈھونڈ لاؤں گا!" کاکا نے تسلی دی ۔
فارس انہیں ساتھ لیے باغ کی طرف چلا گیا۔
بچے اسکے ساتھ بہت خوش تھے اور یہ خوشی دونوں فریقین کے لیے بس وقتی ہی تھی کہ جب ٹیپو اپنی بلی کے ساتھ باغ میں نمودار ہوا تو اسے تب سمجھ آیا پوری فوج اسے لینے کیوں آئی تھی۔
"وہیں رکو۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں وہیں رکو!" وہ قدرے فاصلے پر کھڑا ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہا تھا اور جنت بلی اٹھائے اس کے پاس آ رہی تھی۔
"بہت پیاری ہے، بلکل بھی نہیں کاٹتی۔۔ تم ہاتھ لگاو،۔۔۔" اسکا خیال تھا فارس کو بلیاں اچھی نہیں لگتی تھیں تبھی نانا نے اسکی بلی کو دربدر کر دیا تھا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ اسکے نانا کے دوست کے چہرے پر ناپسندیدگی کم اور خوف زیادہ تھا۔حالانکہ وہ تو امن کی علمبردار بن کر آئی تھی تاکہ فارس اور بلیوں کے درمیان کوئی مفاہمت کروا سکے مگر۔۔۔۔۔
"ڈرو نہیں۔۔۔ یہ بہت اچھی ہوتی ہیں، کچھ نہیں کہتیں!" وہ پیار اور منت بھرے لہجے میں سمجھا رہی تھی۔ اور وہ ایک ہاتھ سے اسے دور رہنے کا اشارہ کرتا الٹے قدم پیچھے ہٹ رہا تھا۔ " جنت!! وہیں رکو۔۔آگے مت آو۔۔۔میں کہہ رہا ہوں آگے مت آؤ!"
اور وہ سنی ان سنی کرتی آگے آ رہی تھی۔
"اتنی چھوٹی بلی سے بھی کوئی ڈرتا ہے؟"خفگی بھرے پیار سے پوچھا۔۔
"میری طبیعت خراب ہو جائے گی ۔۔اسے پیچھے کرو۔۔۔" اس نے جھڑکا ۔
"نہیں طبیعت خراب نہیں ہوتی۔ دیکھو مجھے کچھ ہوا؟؟" اس نے بلی کو سینے سے لگا کر بھینچا۔۔ " یہ بلکل نہیں کاٹتی۔۔۔بلکل تنگ نہیں کرتی۔۔بہت پیار کرتی ہے۔"
"ہاں یہ بلکل نہیں کاٹتی،بلکل تنگ نہیں کرتی، اور بہت پیاری۔۔۔۔۔ بہت اچھی ہے۔۔۔ لیکن مجھ سے اسے دور رکھو!!" آخری جملہ اس قدر غصے اور سختی سے اس نے کہا کہ وہ ڈر کر وہیں رک گئی۔اگلے کئی لمحے لب بھینچ کر اسے دیکھتی رہی۔ پھر شدید غصے کے عالم میں "کٹی" کہہ کر اپنے سپاہیوں سمیت مڑ گئی۔
کٹی؟؟؟؟؟!!!وہ اپنی جگہ ہکا بکا کھڑا تھا۔بھلا ان کی دوستی کب ہوئی تھی؟؟!وہ بھنویں سکیڑے اس نمونی کو جاتا دیکھتا رہا۔جو سر جھکائے بہت غصے سے اپنے گھر جا رہی تھی۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...