CHAPTER : 44

141 10 0
                                    

★★★★★★★★

پاکستان پہنچتے ہی اس نے پہلے تو اچھی خاصی نیند لے کر اپنی سفری تھکان اتاری اور اس کے بعد فرصت سے اپنی شاپنگ دکھانے مسز شیرازی کے بیڈ روم میں پہنچ گئی۔ اپنے کپڑے، کوٹ ،اسٹالر کے بجائے اسے بچے کے لیے کی جانے والی شاپنگ دکھانے کا زیادہ شوق تھا۔ اب تک اس نے جتنی بھی چیزیں خرید رکھی تھیں وہ سب کی سب بیڈ پر پھیلا دیں۔ وہ ایک ایک چیز اٹھاتی جا رہی تھی اور انہیں دکھاتے ہوئے بتاتی جا رہی تھی کہ اس نے یہ کب اور کہاں سے لی تھیں۔ فارس کے ساتھ کی جانے والی سب سے پہلی شاپنگ تو یادگار سی تھی۔ اس دن جو کچھ وہ انہیں نہیں دکھا سکی تھی تو آج دکھا رہی تھی۔
مسز شیرازی آنکھوں میں خوشی کی رمق لیے بہت محبت سے ایک ایک چیز ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے بھی دیکھ رہی تھیں۔
لندن کی فضاء نے جنت پر اچھا اثر چھوڑا تھا۔ صحت کچھ بہتر ہو گئی تھی۔ ہلکے کم ہو گئے تھے، چہرہ فریش بھرا بھرا سا لگ رہا تھا۔ اب وہ مسکراتی تھی تو آنکھیں بھی چمک اٹھتی تھیں۔ مزاج میں جیسے ایک ٹھہراؤ سا آ گیا تھا۔ اسکا خوف ساکن ہو چکا تھا۔واہمے مبہم ہو گئے تھے۔۔۔وہ پہلے سے بہتر تھی۔۔اور بہت زیادہ بہتر تھی۔۔۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے انہوں نے ان کے تعلقات کی مزید بہتری کی دعا کی۔۔
اس نے بیگ سے سیاہ شاپنگ بیگ نکالا۔ یہ کب لیا؟ ذرا حیران ہوئی کہ اسے یاد نہیں تھا۔۔ نہ پہلے اسے دیکھا تھا۔ کھولا تو اندر سفید رنگ کے نھنے نھنے سے موزے ، جوتے، اونی کیپ ،اور لباس تھا، فیڈر بھی سفید رنگ کا ،۔۔۔۔ کیا یہ فارس نے لیے تھے؟ آنکھوں میں اشتیاق لیے کپڑوں کو ہاتھوں میں لیا۔ اتنی نرم و ملائم چیزیں۔۔۔ اس نے فورا سے اٹھا کر مسز شیرازی کو دیکھائیں اور وہ اپنی جگہ ساکت ہو گئیں۔
" یہ یقینا فارس نے لیے ہیں۔ کتنے پیارے ہیں نا؟" وہ کہہ رہی تھی۔ انکی پلکیں لرزیں۔ان کے لب کپکپائے۔ ان کے سینے پر ایک بھاری بوجھ آ کر ٹھہر گیا۔
جنت نے چھوٹا سا مینی کچن سیٹ نکالا۔۔۔ "یہ اس نے بہت جلدی لے لیا ہے!" وہ کہہ کر ہنسی۔
مسز شیرازی کو لگا وہ سانس نہیں لے سکیں گی۔ جو کپڑے ہاتھ میں تھے ان پر گرفت بڑھ گئی۔ آنکھیں مکمل نم۔۔وجود اندر تک ویران ہو گیا۔۔
"پتا نہیں اس نے کب لیے؟"سر اٹھا کر مسز شیرازی کی طرف دیکھا۔انکے بدلتے تاثرات اسے پریشان کر گئے۔ " آپ ٹھیک ہیں؟" اٹھ کر ان کے پاس آ گئی۔
انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔ " ہاں ٹھیک ہوں!"
اس نے فورا سے گلاس میں پانی ڈال کر انہیں دیا۔ چند گھونٹ لینے کے بعد وہ وقفے وقفے سے گہری سانسیں لیتی رہیں۔
"آنٹی ! " ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے فکرمندی سے انہیں دیکھا۔
"ٹھیک ہوں میں! ایسے ہی ذرا دل گھبرا گیا!"
"آپ آرام کریں ۔ میں بھی تو کب سے آپ کا سر کھا رہی ہوں!" شرمندہ ہو کر ساری چیزیں سمیٹنا شروع کیں۔
"ایسا نہیں ہے بیٹا!"انہوں نے روکنا چاہا۔
"بس باقی کی شاپنگ کل دیکھ لیں گے!"
۔انہیں احتیاط سے بیڈ پر لٹایا۔ بہت محبت اور فکرمندی سے ان کی آنکھوں میں دیکھا۔
"تھک گئی ہوں شاید اس لیے۔۔۔" انکی آواز آنسوؤں سے رندھی ہوئی تھی۔
"میں فارس کو بلاتی ہوں!" اٹھ کر جانے لگی تو انہوں نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
"پریشان ہو جائے گا وہ۔ آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی!"
وہ ان کے گرد بازو ڈالے ان کے برابر میں ہی لیٹ گئی تھی۔ "آپ سو جائیں اب!" انکے کندھے پر اپنا سر رکھا۔ انہوں نے خود کو پرسکون کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔وہ تب تک ان کے پاس رہی جب تک کہ وہ سو نہیں گئیں۔ احتیاط سے اٹھ کر لیمپ آف کر دیا اور بے آواز قدموں کے ساتھ باہر آ گئی۔ چند لمحوں تک وہاں کھڑی رہی۔
پھر اس نے راہداری کی جانب دیکھا۔ آہستگی سے قدم اٹھاتی سیڑھیوں تک آئی۔ سر اٹھا کر بہت اوپر تک دیکھا۔ صبح اسکے بیدار ہونے سے پہلے ہی فارس اپنے آفس چلا گیا تھا۔اور وہ بھی دوپہر تک بڑے دھڑلے سے اپنے نئے کمرے میں سامان سمیت شفٹ ہو گئی تھی۔ نہ آمنا سامنا ہوا تھا۔ نہ مسج پر کوئی بات ہو سکی تھی۔ واپسی پر کچھ وقت مسز شیرازی کے ساتھ گزار کر وہ دوبارہ اپنے کمرے میں بند ہو گیا تھا۔
وہ پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ ایسے ہی کرتا تھا مگر جانے کیا بات تھی اسکے رویے کا یہ بدلاؤ اسے بہت زیادہ محسوس ہوا تھا۔ ممکن ہے اسکی طبیعت ٹھیک نہ ہو۔ یا وہ اپنے کاروباری معاملات کو لے کر کچھ پریشان ہو۔۔۔؟؟!
نچلا لب کانٹتے ہوئے وہ سٹینڈ پر ہاتھ رکھے چند لمحوں تک کھڑی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ گئی۔اب تک یقینا وہ سو چکا ہو گا مگر تسلی کر لینے میں کوئی حرج تو نہیں؟؟؟
راہداری کے آخر میں سیٹنگ ایریا کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ پردے ہوا سے لہرا رہے تھے۔ اس نے محتاط ہو کر آہستگی سے بیڈ روم کا دروازہ کھول دیا۔
وہ شاور لے کر ابھی باہر نکلا تھا،اور وارڈ روب کے سامنے کھڑا شرٹ پہن رہا تھا۔مڑ کر اسے دیکھنے لگا⁦۔وہ گڑبڑا کر رہ گئی۔
"تم یہاں۔۔۔۔" وہ حیران ہوا تھا۔جنت بری طرح سے پھنس گئی۔ خیال تھا وہ سو رہا ہو گا تو ایک نظر دیکھ کر چلی جائے گی مگر۔۔۔۔۔
"وہ میں۔۔۔۔ اپنی چیزیں لینے آئی تھی!"
شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔
"شیور!"
وہ ذرا کنفیوژ سی اندر داخل ہوئی۔ ٹھیک ہے جب وہ صبح سے اسے نظرانداز کر رہا تھا تو ایسے میں منہ اٹھا کر اسکے کمرے میں آنے کی کیا تک بنتی تھی؟!اندر ہی اندر خود کو ملامت کرتے ہوئے وارڈ روب ایک طرف سلائڈ کی۔۔ خانے مکمل خالی تھے۔اسکا ضروری سامان تو آج صبح ہی نیچے منتقل ہو چکا تھا۔ یاد آنے پر نچلا لب کاٹ ڈالا۔ پھر دوسری سلائڈ کھولی۔۔وہ بھی خالی ملی۔اللہ کچھ تو نظر آ جائے جسے دکھا کر وہ کہے کہ ہاں وہ اس کے لیے آئی تھی۔۔
تیسری میں تو فارس کے کپڑے، گھڑیاں ،جوتے اور ٹائیاں وغیرہ رکھی تھیں۔ اف!!!
وہ اپنے نم بالوں کو تولیے سے خشک کرتا اسکے پیچھے کھڑا تھا۔ وہ آئینے میں اسکا عکس واضح دیکھ سکتی تھی مگر دیکھنا نہیں چاہ رہی تھی۔
"یہاں نہیں ہے!" پھنسی پھنسی سی آواز حلق سے نکلی۔مڑ کر جانا چاہا تو وہ راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
"مجھے بتاؤ میں مدد کرتا ہوں!"
"نہیں۔۔وہ میں نے۔۔شاید کہیں رکھ دیا ہو گا۔۔۔ وہ ۔۔میری وائٹ کلر کی شرٹ تھی۔۔۔وہی نہیں مل رہی تھی۔۔۔"
"بس وہی شرٹ ڈھونڈنے آئی تھی؟؟" نظر جھکی ہوئی تھی تو اسکی آنکھوں کے تاثر سے لاعلم تھی۔لیکن لہجے میں جو شرارت تھی وہ چھپی نہیں رہ سکی تھی۔
" ہاں تو اور کیا چاہیے ہو گا مجھے؟"اسکی بائیں طرف سے کھسکنا چاہا تو وہ ایک بار پھر اسکے راستے میں آ گیا۔ بےطرح سے روہانسا ہوئی مگر اوپر سے بلکل ظاہر نہیں ہونے دیا۔
انگوٹھے سے انگلی کے پور کو کھرچتے وہ اب سر جھکائے کھڑی تھی اور وہ قدرے غور سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
میک اپ سے مکمل عاری چہرہ، بالوں کو بس یونہی لپیٹ سپیٹ کر ایک میسی سا بن بنایا ہوا تھا۔کچھ لٹیں گالوں کے اطراف ہلکا سا خم لیے گردن کو چھو رہی تھیں۔ شکن لیے سفید رنگ کی لمبی سی ڈھیلی ڈھالی شرٹ۔۔جس کی جیبوں میں غالبا بادام بھرے ہوئے تھے۔آج صبح کھاتے ہوئے نظر آئی تھی۔ ۔نیلگوں پاجامہ۔۔۔ گلے میں جھولتا دوپٹہ کسی اور رنگ کا تھا، سلیپرز کسی اور رنگ کے تھے۔ اسکا اپنا اب کوئی اور رنگ ہو رہا تھا۔وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
"میرا تو اپنے کمرے میں بلکل دل نہیں لگ رہا۔تمھارا لگ رہا ہے؟؟" سینے پر بازو باندھے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔ جنت کی دھڑکن مس ہوئی۔ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
بےخوابی کا شکار آنکھیں، ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو،لبوں پر مسکراہٹ ،آنکھوں میں نرمی،لہجے میں حزن،اور تاثرات میں مبھم سی اداسی لیے وہ اسے نرمی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ نظریں جھکا گئی۔
"ہاں میرا تو بہت دل لگ رہا ہے!" اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے تیزی سے کہا۔
"پھر تم یہاں کیا کر رہی ہو؟!"
"جی؟" چونک کر سر اٹھایا۔ شرارت بھری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھی ۔ وہ گڑبڑا کر رہ گئی۔
"بتایا تو ہے شرٹ لینے آئی تھی!" جواب دے کر دوسری طرف سے نکلنا چاہا مگر فارس نے بازو پھیلا کر روک لیا۔
"کیا ہے!!!" وہ زچ ہوئی۔
وہ چند لمحوں تک اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
"اب دل میں جگہ نہیں دے سکتیں تو اپنے کمرے میں ہی دے دو!" بہت چاہت سے مطالبہ کر کے اسکی دھڑکنوں کو منتشر کر دیا۔
فارس کے عقب میں اور بلکل سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا سفید کیچر اسکی نظروں میں آ گیا۔
"وہ رہا۔۔۔۔" ایک دم سے اشارہ کیا تو فارس نے بےاختیار پیچھے دیکھا۔ وہ اسکی بائیں طرف سے نکل گئی۔لپک کر ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا کیچر اٹھا لیا۔ "یہ رہ گیا تھا!" دکھا کر کہا۔
"تم وائٹ شرٹ کے لیے آئی تھیں!!"سینے پر بازو باندھ کر اسے یاد دلایا۔
"اس کے لیے بھی آئی تھی!" وہیں کھڑے کھڑے کیچر اپنے بالوں میں پھنسا لیا۔ کہ جیسے اسکے بغیر تو رات بھر اسے نیند ہی نہ آتی۔
"اچھا اور کس کے لیے آئی تھیں؟ہو سکتا ہے تمھاری اس لسٹ کے آخر میں کہیں میرا نام بھی ہو!" محظوظ ہو کر پوچھا.
"تمھارا نام میری لسٹ میں ہے ہی نہیں!" تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ وہ دھیرے سے مسکرا کر رہ گیا۔
سیڑھیاں اتر کر راہداری کی طرف جاتے ہوئے اس نے فرصت سے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔ آخر وہ اسکے کمرے میں گئی ہی کیوں؟؟ آخر کیوں؟؟خود کو اندر ہی اندر ڈھیر سارا ڈانٹا۔رخ کچن کی طرف تھا۔بیچ راستے میں یاد آیا کمرہ اس طرف نہیں ہے۔ راہداری میں داخل ہوئی تو سیدھا اسٹوڈیو میں پہنچ گئی۔۔ وہاں سے جھنجھلا کر اپنے کمرے میں واپس آئی۔
دروازہ بند کر اپنے دونوں ہاتھ دہکتے گالوں پر رکھے۔
"میرا تو اپنے کمرے میں بلکل دل نہیں لگ رہا۔ تمھارا لگ رہا ہے؟" یوں لگا جیسے اس نے قریب آ کر ایک بار پھر سوال دہرایا ہو۔
دل دھڑک اٹھا۔احساسات عجیب ہونے لگے۔ اسے پہلے غصہ آتا تھا۔ اب تو برا بھی نہیں لگا تھا۔
" دل میں جگہ نہیں دے سکتیں تو اپنے کمرے میں ہی دے دو!"
گال سے ہاتھ ہٹا کر ۔پھر اپنے احساسات سے الجھ کر اپنی پیشانی کو چھو کر تسلی کی کہ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ !پھر دل ایسے کیوں دھڑک رہا ہے؟
گہری سانس لے کر خود کو اسکی ہیزل آنکھوں کے اثر سے نکالا پھر جیب سے بادام نکال کر منہ میں ڈالتی کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
★★★★★★★

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now