🌻Chapter :2(پہلی قسط)

725 33 10
                                    


صبح جتنی روشن،صاف اور چمکدار تھی،اسکے اندر کی دنیا اتنی ہی تاریک،ویران اور سنسان سی تھی۔ سرخ رنگ کا قدرے ہلکے کام والا نفیس جوڑا زیب تک کیے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی کچھ بے دلی سے اپنے بال بنا رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
" کم ان!" اس نے ہمت مجتمع کر کے کہا تھا۔
دروازہ کھل گیا۔ملازمہ سامنے کھڑی تھی۔ " بیگم صاحبہ آپ کا ناشتے پر انتظار کر رہی ہیں!"
"میں آ رہی ہوں!" فریش نظر آنے کے لیے لائٹ سا میک اپ کیے ، دوپٹہ سلیقے سے سیٹ کر کے وہ نیچے آ گئی تھی۔
ڈائننگ ہال میں مسز شیرازی وہیئل چئیر پر فارس وجدان کے ہمراہ موجود تھیں۔انہوں نے براون رنگ کا سادہ سا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ سفید رنگ کی بڑی سی شال کندھوں پرتھی۔ میک اپ اور جیلوری سے عاری وہ اس روپ میں بھی بہت اچھی لگ رہی تھیں۔
ان کی آنکھیں بہت نرم سا تاثر دیتی تھیں اور لبوں پر بکھری شفیق اور مہربان سی مسکراہٹ سیدھا دل میں اترتی تھی۔
"اسلام و علیکم!"
مشترکہ سلام کر کے وہ بھرپور اعتماد کے ساتھ مسز شیرازی کے پاس آ گئی تھی۔انہیں سلام کیا تھا، ان سے دعاء بھی لی تھی اور جب جھکی تھی تو انہوں نےبہت پیار سے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا تھا۔ پھر انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے برابر میں ہی بٹھا لیا تھا۔
فارس وجدان اس کے عین سامنے جھکے سر کے ساتھ اپنے ٹیبلٹ کی سکرین پر ہیڈ لائنز دیکھ رہا تھا۔
ناشتا شروع کر دیا گیا۔ دیسی اور غیر دیسی ناشتے کے لوازمات سے سجی ٹیبل سے مختلف ڈشز اٹھا اٹھا کر مسز شیرازی اس کے سامنے رکھنے لگیں۔
جنت نے نظریں اٹھا کر فارس کو دیکھا۔ اس کا چہرہ سپاٹ ضرور تھا مگر تاثرات سخت پتھریلے نہ تھے۔ مسز شیرازی جب جب اس سے مخاطب ہوتیں، وہ بہت آرام اور تسلی سے مختصر جواب دے کر اپنی نگاہیں ٹیب پر جما لیتا تھا۔
ناشتا کرتے ہوئے اس کے انداز میں عجلت نمایاں تھی جیسے وہ جلد از جلد یہاں سے اٹھ جانا چاہتا ہو۔ مگر مسز شیرازی اسے ایسا کرنے نہیں دے رہی تھیں۔ وہ اسے باتوں میں الجھا رہی تھیں، خبروں سے اسکا زہن بھٹکا رہی تھیں۔
" تو پھر ہنی مون کے لیے کیا پلان کیا ہے تم دونوں نے؟" انہوں نے باتوں کے دوران اتنے اچانک پوچھا کہ ٹوسٹ پر جیم لگاتے فارس کے ہاتھ یک دم رک گئے۔ جنت نے سر اٹھایا تو نگاہیں فارس سے دوچار ہوئیں۔بس ایک لمحے کے لیے....پھر وہ نظریں جھکا گئی۔
"ابھی کچھ سوچا نہیں اس بارے میں!" توقع کے برعکس اس نے بہت محتاط انداز میں جواب دیا تھا۔
" تو پھر سوچ لو!! ایک مہینے کا بریک لو اور......."
فارس نے اپنی ماں کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔ اس کی شادی سے وہ کتنی فریش اور صحت مند لگ رہی تھیں۔ جیسے سارے بوجھ ان کے کندھوں سے اتر گئے ہوں۔جیسے سارے قرض ادا کردیئےگئے ہوں۔
" ہاں کچھ پلان کرتا ہوں!" اس نے جواب دے کر انہیں بھی حیران کر دیا۔اندر ہی اندر شاید وہ یہ توقع کر رہی تھیں کہ وہ ٹال مٹول سے کام لے گا۔
"خوش رہو!!" انہوں نے دعاء دی۔
" اب میں چلتا ہوں، اپنا خیال رکھیے گا!" کرسی دھکیل کر اٹھتے ہوئے اس نے مسز شیرازی کی طرف جھک کر ان کی پیشانی کا بوسہ لیا۔
" تم بھی اپنا خیال رکھنا!"
وہ جانے لگا تو مسز شیرازی کےساتھ ساتھ جنت کی نگاہوں نے بھی اسکا تعاقب کیا تھا۔
" شادی کے بعد آج اسکا آفس میں پہلا دن ہے، تمہیں اسے سی آف کرنا چاہیئے!"
جنت نے کچھ گھبرا کر ان کی طرف دیکها۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا لیا۔
وہ اٹھ کر باہر آ گئی۔
سامنے ہی وہ سفید پتھروں کی روش پر کھڑا تھا۔ رک کر ، مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ نروس ہو کر رک گئی۔ آنکھوں میں اضطراب ٹھہر گیا۔
وہ فارس سے تین چار سٹپس کی بلندی پر تھی مگر اس کی آنکھوں کے حقارت آمیز تاثر سے جیسے زمین کی تہوں میں اتر کر رہ گئی ۔۔۔
نفرت ، تحقیر ، دھتکار !! نظروں کے مفہوم جانتی تھی وہ۔ نفرتوں کی پہچان تھی اسے۔۔۔ تبھی اسکا دل کٹا تھا۔۔ تبھی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ وہ ایک ایسے انسان کے سامنے کھڑی تھی جس کی آنکھوں میں انسیت تو دور کی بات اس کے لیے عزت بھی نہ تھی۔
"آنٹی نے کہا تھا کہ۔۔۔۔۔" انگلیاں مسلتے ہوئے اس نے اپنی موجودگی کی وضاحت دینا چاہی۔
" کہ کیا !؟" اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی، لہجہ حتی الامکان سخت ہی رہا۔ " کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا بیوی بن کر میرے سر پر مسلط ہونے کی کوشش مت کرنا؟" وہ پھنکارا۔
وہ چپ رہی۔ اعتراض اور شکوے کا اس کے پاس کوئی حق نہ تھا۔
اسے تندہی سے دیکھتے فارس نے انگلی اٹھائی۔ لفظ ادا کیے بغیر آنکھوں کے تاثر سے ہی وہ اس پر واضح کر گیا تھا کہ آئندہ وہ اسے اپنے پیچھے صدر دروازے میں نظر آئے۔
جنت نچلا لب دانتوں تلے کچلتی، اپنی گیلی آنکھوں کے ساتھ یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ اسے بہت رونا آ رہا تھا۔حالانکہ۔۔۔۔ یہ رویہ۔۔ یہ دھتکار اور نفرت۔۔۔۔یہ کچھ نیا تو نہ تھا۔۔
سیاہ شیڈز آنکھوں پر لگائے وہ اسی وقت جانے کے لیے مڑ گیا تھا۔ضبط کر کے اس نے آنسو دبا لیے تھے۔
نئی زندگی کا آغاز، بھیانک انجام سے جڑا ہوا تھا،خوف کے آہنی شکنجے میں جکڑی وہ اسے بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی تھی۔۔۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Onde histórias criam vida. Descubra agora