شادی کے تین سال گزر جانے کے باوجود وہ ماں نہیں بن سکی تھی۔ اسکے بانجھ پن کی وجہ ڈاکٹرز کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مرض لاعلاج ہو تو جواب دے دیا جاتا ہے۔ اسے بھی جواب دے دیا گیا تھا۔
اس رات وہ گهر آ کر بہت روئی تهی.برھان کتنی دیر تک اسے سمجهاتا بجهاتا رہا تها، تسلی دلاسے دیتا رہا تها.وہ اسے شہر کی بہترین گائناکالوجسٹ کے پاس لے جانے کی بات کر رہا تها. وہ اسے علاج کی یقین دہانی کرا رہا تها.
"تم نے سنا نہیں وہ ڈاکٹر کیا کہہ رہی تهی!وہ میرے لیے کوئی علاج تجویز نہیں کر سکتی۔ " رو رو کر اس نے اپنی حالت خراب کر لی تھی۔
"سوچو جنت!آج کونسی ایسی بیماری ہے جس کا علاج سائنس دریافت نہیں کر سکی؟"
" بانجھ ہونا ایک بیماری نہیں ہے..... بانجھ ہونا ایک حقیقت ہے!" وہ مایوسی کے اندهیروں میں اتنا غرق ہو چکی تهی کہ اسے خدا کی ذات نظر آ رہی تهی،نہ اپنی تخلیق کی حقیقت سمجھ آ رہی تهی..ذہن خالی سا ہو گیا تها. برھان کی کوئی دلیل،کوئی حجت اسکا غم ہلکا نہ کر سکی.اسے امید نے دلا سکی. یقین نہ سکها سکی...
یکے بعد دیگر شہر کے کئی بڑے ہاسپٹلز سے اس کے ٹسٹ ہوئے...ہر ٹسٹ کی ایک ہی رپورٹ تهی.. ایک ہی حقیقت تهی جس کا احاطہ مختلف ڈاکٹرز نے اپنے مخصوص انداز میں کر رکها تها...
" میں ہی کیوں؟!.... میرے ساتھ ہی کیوں؟!" وہ اپنی پوری زندگی میں کبهی اتنا نہیں روئی تهی جتنا کہ اس رات روئی تهی.. اسکے آنسو تهم ہی نہ رہے تهے، دل سنبهل ہی نہ رہا تها۔۔۔یہ محرومی اس کے لیے کیوں؟؟!
اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے اب اسے اپنے سسرال میں ساس اور نندوں سے طعنے سننے کو ملنے لگے تھے۔ نقص اس میں تھا تو عتاب کا نشانہ بھی وہی بن رہی تھی۔۔۔ دوسری شادی کا ذکر بھی بار بار اس کے سامنے ہی چھیڑا جا رہا تھا۔۔ برھان اکلوتا بیٹا تھا اور تائی اپنے پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانے کا خواب آنکھوں میں بسائے مزید انتظار کے حق میں نہیں تھی۔ وہ بس اب جلد از جلد برھان کی دوسری شادی کر دینا چاہتی تھیں۔۔۔ مگر برھان تھا کہ مان ہی نہ رہا تھا۔۔ وہ کسی طور بھی دوسری شادی کا سوچ ہی نہ رہا تھا۔۔اسے اولاد کی کوئی جلدی نہ تھی۔۔ نہ پریشانی تھی نہ کوئی فکر۔۔۔پرواہ تھی تو صرف جنت کی۔۔ قدر تھی بھی تو صرف اس کے احساسات کی۔۔۔
"اگر میرے نصیب میں اولاد لکھی ہے تو وہ مجھے جنت سے بھی ہو سکتی ہے۔ "وہ اکثر کہہ دیتا۔
بانجھ ہے وہ بانجھ!!!۔۔ماں نہیں بن سکتی!" تائی دن میں ہزار بار دہرایا جانے والا جملہ اس کے سامنے بھی دہرا دیتیں۔وہ چپ ہو جاتا۔کبھی غصہ کر دیتا۔کبھی جھنجھلا کر اٹھ جاتا۔
تائی نے دل کی بیماری سینے سے لگائی اور بستر پر پڑ گئیں۔ رو رو کر اپنا حشر الگ خراب کیا۔ برھان کو اپنی زندگی موت کے واسطے دئیے۔۔ جزباتی بلیک میل کیا مگر وہ پھر ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔۔۔وہ کوئی بھی ایسا کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا جس سے جنت کے جزبات مجروح ہوں۔۔۔۔
اسکی محبت دیکھ کر جنت ایک لمحے کے لیے خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکیوں میں شمار کرتی اور پھر اپنی محرومی کو سوچ کر بدقسمت ترین میں شامل ہو جاتی۔۔ وہ خود "ناقص" تھی۔۔ وہ برھان کو "کامل" کیسے کرتی؟ وہ خود "محروم" تھی۔۔۔۔ وہ اسکی "عطاء" کیسے بنتی !؟
گھر میں ٹنشن بڑھنے لگی۔۔ تائی امی کا رویہ اس کے ساتھ ہتک آمیز ہو گیا۔۔۔اب اسکا،ماضی زیر بحث لایا جانے لگا۔۔۔ اس کے باپ اور بھائی کا ذکر چھیڑے جانے لگا۔۔۔ اسکی بدنصیبی اور بدبختی کے سائے اس گھر کی خوشیوں پر محسوس کیے جانے لگے۔۔۔
بہت مجبور اور بےبس ہو کر برھان نے بلآخر گھر والوں کے آگے سر جھکایا تھا۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔کر لوں گا دوسری شادی مگر ابھی نہیں۔۔! آپ کچھ انتظار کر لیں، جنت بہت اپ سیٹ ہے، میں اسے مزید دکھ نہیں دینا چاہتا!"
جنت کی آنکھیں کرب سے نم ہو گئیں۔گویا وہ ارادہ کر چکا تھا مگر اسے کچھ وقت درکار تھا۔۔۔
کیا وہ وقت جنت کے زخم کا مداوا کر سکتا تها؟ کیا وہ وقت جنت کے نقص کو پورا کر سکتا تها؟ برھان کو وقت کیوں چاہیے تها؟؟ جب ارادہ کر ہی لیا ہے تو پهر یہ انتظار کیوں؟ یہ انتظار کس لیے؟
"اے ہے اور کتنا انتظار کروں؟!پانچ سال کا انتظار کم ہے کیا؟" فضیلہ تائی کا پارہ ہی چڑھ گیا.. "میرا بهی جی چاہتا ہے اپنے پوتے کو گود میں لوں..اسے اپنے ہاتھوں سے کهلاوں، جانے کتنے دن باقی ہیں زندگی کے....."
وہ جانے اور کیا کہہ رہی تهیں، اس نے نہیں سنا، برھان کو زہنی طور پر تیار کرنے کے لیے وہ اسے مزید کیا حجتیں اور دلیلیں دے رہی تهیں ، اس نے نہیں جانا....جان بهی لیتی تو کیا کر لیتی؟؟؟
اس رات برھان کافی تاخیر سے کمرے میں آیا تها. وہ بیڈ پر گهٹنوں کو سینے سے لگائے، ان کے گرد بازو باندهے کسی مجسمے کی طرح خاموش اور ساکت بیٹهی تهی.. اسکی دودهیا رنگت کملا کر رہ گئی تهی،. روشن چمکتی آنکهوں کے دئیے بجھ گئے تهے، ان کے نیچے حلقوں کے اندهیرے تهے..
وہ اس کے برابر میں بیٹھ گیا تها...
" جنت!" اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر،اس نے پکارا تها...وہ ایک بار پهر سسک پڑی...
" یہ تم نے اپنی کیا حالت کر لی ہے یار! " جانتی تهی وہ اس سے شدید محبت کرتا تها، وہ اسے کسی بهی صورت اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تها... ایک محبت اس کی بهی تهی.. جو شراکت داری برداشت نہیں کر سکتی تهی... وہ توبرھان کی فیمیل کولیگز سے بهی جیلس ہو جایا کرتی تهی کجا کہ اس کی دوسری بیوی... جس نے برھان کی زندگی میں آنا تها....اسکا نام لینا تها...اس کے بچے کی ماں بهی بننا تها...اسکی ہمت وہ کہاں سے لائے؟اسکا حوصلہ وہ کہاں سے لائے؟ یہ اذیت زیادہ بڑی تهی.. یہ زخم زیادہ گہرا تها.....
" میری ایک بات غور سے سنو جنت!" محبت بهرے لہجے میں ایک عزم تها۔۔ایک عہد۔۔۔ ایک یقین۔۔۔ " میری زندگی میں جو تمهاری جگہ ہے، اسے کوئی اور نہیں لے سکتا!"
کمرے میں جلتے واحد بلب کی روشنی تیز ہوئی تهی...
" محبت میں نے صرف تم سے کی ہے، اور صرف تم سے ہی کرتا رہوں گا!" وہ اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کیے بہت مان سے کہہ رہا تھا۔
" ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے. ہمارے درمیان کبھی کوئی فاصلہ نہیں آئے گا...یہ میرا وعدہ ہے تم سے!!"وہ یقین دہانے کراتے ہوئے اسے آئندہ کل کے لیے تیار کر رہا تها..
" میں کل بهی تمهارا تها، آج بهی تمهارا ہوں اور ہمیشہ رہوں گا!"
اور جنت بنت کمال....اپنی محرومی پر اس کی محبت کی ردا چڑهائے...... اس کے ایک ایک لفظ پر ایمان لے آئی تهی..لڑکپن سے لے کر آج تک اس نے یہی تو کیا تها...اسے اب بھی یہی کرنا تها۔۔۔۔
وہ تائی کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔بہت خواب تھے۔۔ امیدیں تھیں گھر بھر کے لوگوں کی اس کے لیے۔۔۔ اس کے بچوں کے لیے۔۔۔۔۔۔ وہ یہ ظلم اس پر نہیں ہونے دے سکتی تھی۔۔۔۔جس سے محبت ہو اس کی خوشیاں اپنی ذات سے بڑھ کر عزیز ہوتی ہیں۔ اسے بھی وہ بہت عزیز تھا۔تبھی نصیب کے آگے سر جھکاتے ہوئے اس نے دل پر بھاری پتھر رکھ لیا تھا۔۔۔تبھی اس کے وعدوں پر بھروسہ کر کے دوسری شادی کے لیے راضی ہو گئی۔
جس روز برھان کا نکاح تها اس روز اس کی تمام تر ہمت جواب دے گئی تهی.وہ کمرے میں تیار ہو رہا تها اور اس نے روتے سسکتے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تهے..
" مت جاو برھان!میں مر جاوں گی!" اس کے ہاتھ تهام کر ، اسے بیڈ پر بٹهاتے ہوئے وہ اس قدموں میں بیٹھ کر اسے ایک بار پهر سمجها رہا تها.اور وہ سمجھ نہیں رہی تهی.. وہ بچوں کی طرح پهوٹ پهوٹ کر روئے جا رہی تهی...
کیا اس نے اپنی پوری زندگی کبهی اس وقت کو بهی سوچا تها؟ اذیت پر مشتمل ان لمحوں کا گمان کیا تها؟! برھان کی زندگی میں کوئی اور آئے گی اور وہ اسے آنے دے گی؟ کچھ کر ہی نہ سکے گی؟وہ گهڑی جب محبت کا واسطہ بهی کام نہیں آئے گا؟؟؟
" تم تیاری کرو میں تمہیں حفصہ آپی کے گهر ڈراپ کر دیتا ہوں، واپسی پر پک کر لوں گا!"
" نہیں مجهے کہیں نہیں جانا... یہیں بیٹھ کر تمهارا انتظار کرنا ہے!"
" جنت ضد مت کرو! "
" میں یہاں سے کہیں نہیں جاوں گی!" وہ حواسوں میں نہیں لگ رہی تهی. ناچار اسے حفصہ آپی کو فون کرنا پڑا تها..اس کی نہ نہ کے باوجود وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تهیں.
شدت سے روتے ہوئے کچھ بےقابو ہو کر وہ اس رات امی کے گھر چلی آئی تھی۔۔۔وہ ان سے ملنا چاہتی تھی ۔۔۔ان کے گلے لگنا چاہتی تھی۔۔ان کے قدموں میں گرنا چاہتی تھی۔۔۔مگر ھانیہ نے اسے ڈرائنگ روم سے آگے ان کے کمرے تک جانے نہیں دیا تھا۔۔۔
" وہ تم سے نہیں ملیں گی۔۔۔ "
"صرف ایک بار۔۔۔ صرف ایک بار۔۔۔ مجھے ان سے بات کرنی ہے!!"
کھٹاک کی آواز کے ساتھ نفیسہ کے کمرے کا دروازہ مقفل ہو گیا تھا۔۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا۔۔ کئی بار ہو چکا تھا۔۔۔وہ جب بھی آتی تھی یہی ہوتا تھا۔۔نفیسہ اسکی شکل تک نہ دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی تھیں۔
ھانیہ کو راستے سے ہٹا کر وہ ان کے بند کمرے کا دروازہ زور زور سے بجانے لگی تھی ۔۔ہمیشہ کی طرح۔۔کچھ اذیت۔۔کچھ دکھ۔۔کچھ کرب اور بےبسی کے ساتھ۔۔۔
" مجھے دعاء دے دیں امی!!!!! مجھے ایک دعاء دے دیں!!! صرف ایک بار میرے لیے ہاتھ اٹھا لیں۔۔۔۔۔صرف ایک بار۔۔۔۔۔!!امی!!!امی!!!!" وہ روتے ہوئے ان کی منتیں کر رہی تھی۔ گڑگڑا رہی تھی۔۔۔۔۔" مجھے مار لیں۔۔۔ میرا منہ نوچ لیں۔۔میری جان نکال لیں۔۔۔ لیکن یہ نہ کریں۔۔۔۔پلیز یہ نہ کریں!!"
مگر دوسری طرف ہمیشہ کی طرح خاموشی چھائی رہی تھی۔۔۔
"اللہ کے لیے دروازہ کھول دیں امی۔۔۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے!!بہت ضرورت ہے!" روتے بلکتے وہ گھٹنوں کے بل گر سی گئی۔
"ان کی طبیعت خراب ہو جائے گی جنت ۔۔اب جاو یہاں سے!" ھانیہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر اس نے ہاتھ جھٹک دئیے تھے۔۔ دروازے کو پکڑ لیا تھا۔۔۔۔
"آج اسکا نکاح ہے۔۔۔۔ امی!!!"سسکیوں کے بیچ وہ بمشکل کہہ پائی۔۔ " میں ابھی تک ماں نہیں بن سکی!! تو اس لیے۔۔۔ وہ دوسری شادی کر رہا ہے!!"
لب بھینچ کر ، آنکھیں رگڑ کر اس نے دروازے پر دستک دی۔۔ "امی!! آپ سن رہی ہیں مجھے!؟" بہت ،پیار، بہت محبت اور لجاجت سے وہ دروازے سے لگ گئی تھی۔۔"امی میں اس وقت صرف چھے سال کی تھی۔۔۔۔"اسکا گلا بیٹھا ہوا تھا۔۔گلوگیر آواز کمزور سی تھی۔۔۔ "صرف چھے سال کی تھی امی!!! " جسم لرز رہا تھا۔۔ دل تڑپ رہا تھا۔۔۔آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھی۔۔۔ وہ کسی نھنے معصوم بچے کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر اپنی صفائی دے رہی تھی۔۔۔ "میں نے اسے نہیں مارا تھا!!! میرا یقین کریں۔۔۔۔۔۔میں نے اسے۔۔۔۔" اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔"مجھے معاف کر دیں۔۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دیں مجھے دعاء دے دیں۔۔۔۔ دیکھیں نانا بھی نہیں رہے۔۔۔ برھان بھی نہیں رہے گا۔۔میں اکیلی رہ جاوں گی۔۔۔ امی اللہ کے لیے ۔۔۔ صرف ایک دعاء۔۔۔میرے لیے صرف ایک دعاء۔۔۔۔۔۔۔ "
لیکن دعاء نہیں ملی۔۔۔ دروازہ بھی نہ کھلا۔۔ہمیشہ کی طرح اس رات بھی حفصہ آپی اسے زبردستی وہاں سے اٹھا کر لے گئی تھیں۔۔۔۔
برھان بار بار فون کر رہا تها. اس کی خیریت معلوم کرنا چاہ رہا تها.مگر اس نے فون پر اس سے بات نہیں کی تھی۔ نیند کی گولی لے کر آرام کرنا چاہا مگر اس کی بےچینی اور بےقراری میں کسی صورت افاقہ نہیں ہوا تها..
اگر جو یہ نقص اس کی زندگی میں نہ ہوتا؟ اگر جو یہ محرومی اسکا مقدر نہ ہوتی؟! اس نے لاکھ کوشش کی واپس گهر جانے کی مگر حفصہ آپی نے اسے جانے نہ دیا...
یہ بهی برھان کی ہی خواہش تهی کہ وہ کچھ روز ان کے یہاں ہی ٹهہرے. فضیلہ تائی گهر کو سجا رہی تهیں..نئی دلہن کا کمرہ سیٹ ہو رہا تها، دیگر رسمیں ادا ہو رہی تهیں، اس صورت میں وہ جنت کو وہاں نہیں لانا چاہتا تها. البتہ آفس سے واپسی پر وہ روز ہی اس کے پاس آتا تها، محبت کا یقین دلاتا تها، اس کا خوف ، اس کے خدشات کو ختم کرنے کی کوشش بهی کرتا تها.. جب تک وہ پاس ہوتا وہ ہر ایک بات پر یقین کرتے ہوئے ہلکی پهلکی سی ہو جاتی.. صرف یہ احساس کہ برھان صرف میرا ہے، اسے تمام خدشات سے مبرا کر دیتا ..ہمت جگا دیتا..حوصلہ بڑها دیتا.... اور جوں ہی ہی وہ نظروں سے اوجهل ہوتا تنہائی اسے سانپ کی طرح ڈسنے لگتی...محرومیاں نئے سرے سے سر اٹهاتیں اور وہ خود اذیتی کی دلدل میں دهنستی چلی جاتی.....
یہ اذیت، یہ دکھ، یہ کرب، یہ محرومی میری زندگی میں کیوں؟ وہ سوچتی اور رو دیتی....
☆★☆★☆★☆★☆

VOUS LISEZ
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Roman d'amour𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...