..
پانچویں قسط :
★★★★★★★★★
•••••••••••••••••••وہ اس عورت کو نہیں جانتا تھا جو اسے گھر کے بیرونی گیٹ سے باہر نکلتی ہوئی نظر آئی تھی۔اسے حیرت ہوئی۔ اس طرح کوئی بھی اجنبی اتنی آسانی سے اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔آنکھوں میں الجھن لیے وہ اندر داخل ہوا تو اسے وجدان ہاوس میں ایک غیر معمولی پن کا احساس ہوا۔
اقصیٰ پریشانی کے عالم میں بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی۔ وہ روتے ہوئے اب کچھ کہہ رہی تھی۔کچھ بتا رہی تھی۔
فارس نے شاک کے عالم میں سر اٹھا کر مسز شیرازی کی طرف دیکھا۔حیرت اور صدمہ بھرے تاثرات لیے وہ اپنی جگہ ساکت بیٹھی تھیں۔مگر ان کی نگاہیں كسی ایک جگہ پر ٹھہر نہیں رہی تھیں۔ لبوں کو جنبش دیتے انہوں نے فارس سے کچھ کہا۔۔اقصی نے بوکھلا کر مسز شیرازی کو دیکھا۔اور اسی لمحے فارس وجدان دروازہ کھول کر عجلت میں قدم اٹھاتا تیزی سے باہر بھاگا تھا۔۔
بیرونی گیٹ سے باہر ۔۔۔سڑک پر پہنچتے ہی وہ سرتاپیر مکمل طور پر بارش میں بھیگ چکا تھا۔
"اسے ڈھونڈو فارس!ایسا نہ ہو وہ کچھ کر بیٹھے!"
آگے بڑھتے ہوئے وہ چاروں طرف دیکھ رہا تھا مگر جنت بنت کمال اسے کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
بھاری تنفس کے ساتھ ایک موہوم سی امید لیے اس نے مسز یزدانی کو کال کی۔ جنت ان کے گھر نہیں گئی تھی۔آئمہ کا موبائل آف جا رہا تھا۔وہ ویسے بھی اسلام آباد میں موجود نہیں تھی۔ اگر ہوتی بھی تو جنت اتنی جلدی اتنی کم مدت میں اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
یقینا وہ ابھی تک یہیں ۔۔آس پاس ہی کہیں تھی۔وہ اسے تلاشتے ہوئے پارک کا رخ کر چکا تھا۔موسم خرابی کے باعث وہاں اکا دکا ہی لوگ تھے۔۔آگے مسجد تھی۔۔ اور مسجد کی دوسری طرف مرکزی شاہراہ تھی۔۔۔
اور اسی مرکزی شاہراہ پر قدم دھرتے ہی ٹریفک کا شور یکایک اس کے لیے صامت ہوا تھا۔ زندگی سے بھرپور فضاء ایک خلاء میں بدل گئی تھی۔
زمین نے قدم جکڑے،وجود بھاری پتھر ہو گیا۔ اسے لگا وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گا۔ ذرا سا ہلے گا تو پاش پاش ہو جائے گا۔۔
"تمہیں لگتا ہے اللہ نے ہمیں بچایا ہے!؟"
"ہاں۔۔ اللہ کا بوت بوت شکر باجی!!"
"ایسا بھی تو ممکن ہے کہ یہ ایک وارننگ ہو۔۔۔ میرے لیے۔۔تمھارے لیے۔۔یا شاید کسی اور کے لیے!"
چھتری کھل گئی تھی۔ گاڑی کے قریب وہ پھسل کر گری تھی۔اسکا ہاتھ جھٹک کر اپنے سہارے اٹھ رہی تھی۔۔
" جو کچھ سن چکا ہوں وہ سب ممی کو بتاوں گا تو وہ کیا سوچیں گی؟!ایک ایسی لڑکی کو بہو بنا بیٹھی ہیں جو infertile ہے ۔جس نے اپنی سوتن کے بچے کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔جس کے خاندان کے لوگ اسے اچھوت کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ۔ اور جو اپنی ماں کی موت کا سبب بنی ہے.."
پارکنگ ایریا میں گاڑی اسٹارٹ کرتا وہ۔۔۔۔۔آنکھوں میں ڈھیر ساری نمی لیے،کچھ بےبسی اور آزردگی سے اسے دیکھتی جنت کمال!!!۔۔۔۔چہار سو تاریکی چھائی اور منظر بدل گیا ۔
"اگر تم اسطرح میرے سر پر مسلط رہے تو میں آنٹی کو سب کچھ بتا دوں گی!"
"شوق سے جاو! میں بھی تمھارے پول ان کے سامنے کھول دوں گا، حساب برابر!!"
" تم ایسا نہیں کرو گے!" لہجے میں خوف تھا۔آنکھوں میں وحشت۔۔۔۔
"کر سکتا ہوں۔ میں تو اب ان سے یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میری بیوی بانجھ ہے ، میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں!" اس نے چاندی کی اس مورت کو ہزارہا ٹکڑوں میں بکھرتا دیکھا۔
"فارس پلیز دروازہ کھولو!!پلیز!!"بلک بلک کر روتے وہ اس کے کمرے کا دروازہ بجائے جا رہی تھی۔
"ایک بچے کی جان لینے کی کوشش۔۔آخر تم میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی؟؟!"
اور پھر اس نے سلائڈ ڈور پوری قوت سے بند ہوتے دیکھی۔ اب وہ کمرے سے باہر۔۔۔دسمبر کی سرد ترین راتوں میں بالکنی میں کھڑی تھی۔۔۔
"اللہ کے فضل سے بہت سے بیک اپ plans ہیں میرے!اور سب ہی سروائول بیسڈ ہیں!نہ میرا سر پھٹے گا۔ نہ میں ڈوب کر مروں گی۔۔۔" جتاتی نگاہیں۔۔مضبوط لہجہ۔۔۔شجاعت لیے انوکھا انداز ۔۔۔جیسے وہ دنیا کے ہر طوفان سے بھڑ جانے کی،ہر چٹان سے لڑ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔اس کے لیے نہ "فارس" کچھ ہے۔۔۔نہ "طلاق" کچھ ہے۔۔۔۔
" مجھے طلاق فوری چاہیئے ہو گی۔۔ تمہیں ابھی سے ڈاکومنٹس کا انتظام کر لینا چاہیئے تاکہ مناسب وقت پر بنا کسی تاخیر کے سائن کر کے ایک دوسرے سے جان خلاصی کی جا سکی!"
خود پر طاری اس بھیانک جمود کو توڑتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔سڑک کنارے غیر متوازن قدم اٹھاتا وہ وہاں جا رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ایک حادثہ پیش آیا تھا۔۔چلتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کے سامنے اچانک ہی کوئی لڑکی آ گئی تھی۔
ایمبولنس کا سائرن۔۔لوگوں کا ہجوم۔۔۔اور شدت سے برستی بارش میں موت کو اتنے قریب سے۔۔۔اس انداز اور اس حالت میں دیکھتا فارس وجدان اپنے حواسوں میں ہرگز نہیں لگ رہا تھا۔۔
" لیکن اگر کچھ وجوہات کی بنا پر۔۔۔ مجھے قبل از وقت یہ گھر چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔۔۔ اور اس دوران میرا تم سے فل فور رابطہ بھی ممکن نہیں ہو پاتا تو میں ایک ماہ تک کی مدت کو زہن میں رکھوں گی...."
مدت مختصر تھی۔مختصر سے مزید مختصر کر دی گئی تھی۔ مہینہ آن کی آن میں ہفتوں اور پھر دنوں میں بدل کر لمحوں پر محیط ہوا تھا۔
"اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔۔۔ جب جانے کا وقت آئے گا میں خاموشی سے چلی جاوں گی۔"
اور جنت کمال وعدہ خلافی نہیں کرتی تھی۔
یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں دکھ اور صدمے سے نڈھال اس نے اپنے راستے میں آنے والوں کو ہٹاتے ہوئے سٹریچر پر رکھی اس لاش تک پہنچنا چاہا۔۔خون سے سرخ ہوتی نم چادر اسکی مٹھی میں آئی۔۔۔چہرے سے چادر سرکی۔۔بال۔۔۔پیشانی۔۔۔پھر ویران آنکھیں واضح ہوئیں۔۔۔اسکی ساری ہمت سکت اس ایک لمحے میں فنا ہوئی۔
"تم جتنے مرضی منصوبے بنا لو مسٹر شیرازی۔۔خودکشی میں نہیں کروں گی۔۔۔نہ لندن کی برج سے۔۔نہ کسی اور جگہ سے۔۔۔۔۔"
چادر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔
وہ بال۔۔۔۔ چہرہ اور آنکھیں ۔۔۔۔ وہ جنت کمال کی ہرگز نہیں تھیں۔
KAMU SEDANG MEMBACA
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romansa𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...