Chapter:13۔۔طب۔۔

342 27 6
                                    

سیاہ جینز کے ساتھ آف وائٹ شرٹ پر, سرمئی راونڈ نیک سویٹر میں ملبوس وہ اپنے سیاہ سنیکرز کے تسمے باندھ کر جب سیدھا ہوا تو نگاہ جنت کمال پر جا ٹھہری رہی جو ڈاکٹر بخاری سے کافی بےدلی سے انسٹرکشنز لے رہی تھی۔۔ آج اسے ہاسپٹل سے ڈسچارج کیا جا رہا تھا اور جنت اس فیصلے سے قطعی خوش نہیں لگ رہی تھی۔۔
عجیب الجھا ہوا سا انداز تھا اسکا۔۔ کوفت زدہ سی ہو رہی تھی وہ۔۔کچھ کچھ پریشان بھی تھی۔۔ جیسے ایک محفوظ آشیانہ چھوٹ رہا ہو۔
گاڑی میں بھی وہ دروازے کی طرف کافی سمٹ کر بیٹھی تھی۔۔ بازو سینے پر باندھ رکھے تھے۔ہاتھ چھپا رکھے تھے۔ شال اچھی طرح سے اوڑھ رکھی تھی۔دوران سفر ان کے مابین کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ گھر پہنچ کر بھی خاموشی حائل رہی تھی۔ کھانے کی میز پر، مسز شیرازی کے کمرے میں ، شام کی چائے پر اس کا انداز الجھا ہوا سا تھا۔ جیسے وہ موجود ہے اور نہیں بھی۔۔ اسکی تمام تر کوشش یہی تھی کہ وہ بس کسی طرح ادھر ادھر کے کاموں میں الجھی رہے۔فارس وجدان کی نظروں میں نہ رہے۔ بہانے بہانے سے بار بار اٹھتی تھی اور مسز شیرازی اسے اپنے پاس ہی بٹھا لیتی تھیں۔
جب وہ آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں گیا تھا تو وہ جان بوجھ کر ہی نیچے لاوئج میں بیٹھی رہی تھی حالانکہ تھکاوٹ اسے بھی تھی۔ ہاسپٹل میں بےآرام وہ بھی تو ہوئی تھی۔مگر اسے فی الحال کمرے میں نہیں جانا تھا۔۔جانے کیوں ایک ان جانا سا خوف دماغ پر سوار ہو گیا تھا۔ دماغ سنگین نتائج کی بات کرتا تھا۔۔۔دماغ ریشنل ہو کر سوچتا تھا۔ وہ آج کل دماغ کی سنتی تھی۔
چینل پر چینل بدلتے ہوئے اس نے اقصیٰ کو بھی اپنے پاس ہی بٹھائے رکھا ۔۔۔ ڈرائے فروٹس کی پلیٹ سامنے ہی دھری تھی۔میگزین کے صفحے کھلے پڑے تھے۔ کسی آرٹیکل کو یکسوئی سے پڑھا جا رہا تھا۔۔
وہ صوفے پر تھی اور اقصیٰ فلور کشن پر۔۔۔
" اقصیٰ!!"کچھ سوچ کر اس نے بڑے ہی رازدارانہ انداز میں اسے مخاطب کیا تھا۔۔
"جی جنت آپی!!" (جنت نے ہی اسے منع کر رکھا تھا کہ وہ اسے بی بی نہ کہے)
" تمہیں کیا لگتا ہے مرد اس بات کو کتنا سیریس لیتا ہے اگر کوئی عورت اسے تھپڑ مار دے!!"
اقصیٰ کا تیزی سے چلتا منہ رک گیا۔ٹی وی سکرین سے نظریں ہٹا کر اس نے جنت کو دیکھا۔۔۔ پھر پلکیں جھپکا کر دوبارہ دیکھا۔۔
کیچر میں جکڑے شہد رنگ کے بال ۔۔جن کی کچھ لٹیں متفکر سے مومی چہرے پر بکھری ہوئی تھیں۔آنکھوں میں بےنام سا تجسس خوف کے ہمراہ لہرا تھا۔۔۔۔
"یہ جو مرد ہوتے ہیں نا آپی۔۔بڑے ہی عجیب ہوتے ہیں قسم سے۔۔۔ کسی عورت سے پڑنے والے تھپڑ کو اپنی انا اور عزت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔اور سوچ لیتے ہیں کہ بس اب ہر صورت انتقام ہی لینا ہے۔۔۔" اقصیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں بات کر کے سسپنس کی انتہاء کر دی۔۔
" کیسا انتقام!؟" جنت کے لب ہلے۔۔۔ وہ اتنی کمزور اور بےبس کبھی نہیں ہوئی تھی جتنی کہ اب ہو رہی تھی۔۔ گویا اسے فارس وجدان سے کسی بھی اچھائی کی کوئی توقع نہیں تھی۔
"امیر زادے سیریل کیلر ہائیر کرتے ہیں، کچھ اغواء بھی کروا لیتے ہیں، کچھ ساری عمر کے لیے قیدی بنا لیتے ہیں اور کچھ۔۔۔۔۔۔ "
جواب فارس وجدان نے دیا تھا۔ اور اتنے اچانک سے دیا تھا کہ وہ مارے بوکھلاہٹ کے صوفے سے اچھل کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور پھر اسی سرعت سے اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔
سرمئی ٹراوزرز پر ہلکے آسمانی رنگ کے سویٹر میں ملبوس، لاپروا سے حلیے میں۔۔۔وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔۔ سرد نگاہیں جنت کے چہرے پر جمی تھیں۔۔
کندھے سے پھسلتی شال کو ٹھیک سے اوڑھتے ہوئے جنت نے حلق سے گلٹی کو بمشکل نیچے اتارا۔ اقصیٰ کا لحاظ کر کے اپنی گھبراہٹ پر قابو پایا۔۔ خوف کو بھگا کر سر اٹھایا۔۔۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو!؟" سوال اقصیٰ سے پوچھا گیا تھا۔ اور ذرا سی سختی کے ساتھ پوچھا گیا تھا۔۔
" جنت آپی نے کہا کہ انہیں نیند نہیں آ رہی تو۔۔۔"
"تو تم نے سوچا بیٹھ کر لوری سنا دیتی ہوں شایداس طرح آ جائے."
اقصیٰ نے گڑبڑا کر فارس کو دیکھا پھر سر جھکا لیا!
" جاو!" حکم ملتے ہی وہ پیروں میں چپل اڑستی،اپنے میگزین سنبھالتی فورا سے روپوش ہو گئی۔۔
اب لاوئنج میں جنت کھڑی تھی اور سامنے فارس۔۔۔
شال کے اندر اپنی انگلیوں کو بےقراری سے مروڑتے اب وہ یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔جس طرح ہمت اور مضبوطی وہ پہلے دکھاتی رہی تھی اب بھی تو دکھا سکتی تھی۔خوف کس بات کا تھا آخر!؟ وہ اس سے ڈر کیوں رہی تھی !؟
ایک تھپڑ ہی تو تھا!؟جو کہ ناگزیر تھا۔بےدردی اور نفرت کے ساتھ دو بار دھکیلا تھا اس نے۔۔۔ جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔۔جس کے قریب آنے سے اسکی موت واقع ہو جانی ہو۔۔ایسی صورت میں اگر اس نے غصے میں تھپڑ مار بھی دیا تو کیا ہوا!؟ وہ بھی تو سختی دکھاتا رہا ہے!؟ کمرے سے نکالتا رہا ہے!؟ وہ بھی تو اسے پارکنگ ایریا میں چھوڑ کر آیا تھا۔۔
تیزی سے بھاگتا دوڑتا زہن رک گیا۔سوکھے پتے کی طرح لرزتا دل تھم گیا۔
خوف تو وہاں ہونا چاہیے جہاں کوئی رشتہ ،کوئی تعلق،کوئی جزبہ،کوئی احساس تو ہو جنت!! اس نے سوچا۔مگر یہاں خوف ہی اس لیے تھا کہ کوئی رشتہ، کوئی تعلق،کوئی جزبہ،کوئی احساس ہی تو نہ تھا۔
ہمت مجتمع کر کے اس نے سر اٹھایا۔۔۔ لب بھینچ کر،فارس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تاکہ اسے یہ تاثر دے سکے کہ وہ ہرگز ہرگز اس سے خائف نہیں۔۔
فارس اگلے چند لمحوں تک اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔وہ بھی ڈٹ کر کھڑی رہی۔۔۔۔
"تھپڑ کی سزا ڈائریکٹ مجھ سے پوچھ لو!" بلاخر اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔
"سزائیں غلطیوں کی ہوتی ہیں اور میں نے کوئی غلطی نہیں کی!"
" یعنی تمہیں کوئی پچھتاوا کوئی احساس نہیں!؟"
جنت نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا۔۔ یہ پچھتاوے اور احساس کی بات کون کر رہا ہے!؟!
"کس بات کا پچھتاوا!؟ "لہجے میں قہر بھر کر پوچھا۔۔ " شاید تمہیں یاد نہیں دو بار دھکیلا تھا تم نے مجھے!! دو بار!!" انگلیاں کھڑی کر کے دکھائیں۔
"تو پھر تم دور کیوں نہ ہوئیں!! اوہ ہاں یاد آیا۔۔۔ تمہیں ڈر تھا کہیں تم بیوہ نہ ہو جاو!" فارس کا لہجہ استھزائیہ ہوا۔
جنت کا چہرہ مارے خفت کے سرخ ہو گیا۔۔۔۔کاش وقت اسے پیچھے لے جائے اور وہ ہاپسٹل میں سیب کاٹتے ہوئے خود کو ایک عدد تھپڑ سے نواز سکے۔۔ اے کاش!! اے کاش!!!
"ہاں مجھے اپنی فکر تھی۔۔۔اور بہت زیادہ فکر تھی۔۔ تمہیں اس سے کیا!؟" ڈٹ کر،جم کر، ایک بار پھر سر اٹھا کر غرائی۔۔
جیبوں میں ہاتھ ڈالے، ذرا سا سر جھکا کر وہ بمشکل کندھوں تک پہنچتی جنت کمال کو اگلے چند لمحوں تک دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر سر جھٹک کر جانے کے لیے مڑ گیا۔اس کا رخ آفس روم کی طرف تھا۔ گویا وہ اپنے کسی کام سے ہی نیچے آیا تھا۔
ایک سرد نظر اس پر ڈالتی وہ زینہ طے کرتی کمرے میں چلی گئی۔۔ اس نے تکیہ اور بلیکنٹ اٹھایا پھر تن فن کرتی سیٹنگ ایریا میں بیڈ کم صوفہ پر جا سوئی۔۔ تیور بگڑے ہوئے تھے۔۔۔ جبڑے بھنچے ہوئے۔۔۔۔ اور آنکھوں میں غصے کے ساتھ ساتھ بےنام سی خفگی لہرا رہی تھی۔۔۔۔۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now