قسط نمبر۱ا
اندرون شہر کے ایک چھوٹے سے کیفے میں اس وقت اکا دکا میزیں ہی آباد تھیں صبح کے دس بجے کا عمل تھا دفتری اوقات کا آغاز تھا سو کیفے میں رش نہ ہونے کے برابر تھا ورنہ دفاتر کی لنچ بریک کے وقت تو یہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہ ملتی تھی۔ اسی کیفے کے ایک قدرے الگ تھلگ میز پر ایک نوجون جوڑا آمنے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ انکے سامنے رکھی چائے کی پیالیوں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ مگر وہ دونوں کسی بہت اہم بحث میں الجھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ انہوں نے اب تک پیالیوں کو چھوا تک نہ تھا۔ انکے نام زونیہ اور علی تھے
"ملی تُمہیں نوکری کوئی..." زونیہ نے اپنے لئیر کٹ ہلکے بھورے بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے کہا..
"کوشش کر تو رہا ہوں یار مِل جائے گی تُم پریشان مت ہو.."
علی نے اُس کے سپید ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر محبت سے جواب دیا۔
"کتنے سالوں سے میں یہی سُن رہی ہوں علی اب تو میں اکتا چُکی ہوں ہر بار ایک ہی بات سن سُن کر کہ مِل جائے گی مِل جائے گی..."
وُہ اپنے ہاتھ اُس کے ہاتھ کے نیچے سے کھینچتے ہوئے تلخی سے بولی...
"جہاں کوئی ویکینسی آتی ہے ہر جگہ اپلائی کرتا ہوں انٹرویوز کے لیے جاتا ہوں اب تُم ہی بتاؤ اِس سے زیادہ میں کیا کروں..."
وُہ بیچارگی سے بولا...
"میرے اوپر مما کا بہت دباؤ ہے شادی کا اور رشتے بھی اتنے اچھے آرہے ہیں ابھی کل ہی مما نے مُجھے بتایا ہے کہ اُن کی دوست نے اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگا ہے اکلوتا بیٹا ہے پھر ڈاکٹر بھی ہے کلفٹن میں اپنے بنگلہ ہے۔ اُس کے والد کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ہے اور مما پپا کسی حد تک اِس رشتے کے لئے راضی بھی ہیں اب تُم بتاؤ میں کیا کروں کیسے روکوں اُنہیں..."
وُہ علی کی طرف دیکھتے ہوئے ذرا سختی سے بولی...
"تُم مُجھے کیوں سنا رہی ہو یہ سب دیکھو تمہاری مرضی کے بغیر تمہارے ماں باپ تمہاری شادی نہیں کریں گے اور تُم اُنہیں منع کردو کہ تُم یہ شادی نہیں کرنا چاہتی..."
اُس نے چٹکی بجا کر حل نکالا...
"اور کس برتے پر میں اُنہیں اِس رشتے کے لئے انکار کروں کیا وجہ بتاؤں گی؟.."
اُس کا انداز تلخ تھا۔۔
"تُم اُنہیں بتا کیوں نہیں دیتی کہ تُم مُجھے پسند کرتی ہو میں تمہارے گھر والوں سے بات کروں گا اُنہیں مناؤں گا مُجھے یقین ہے وُہ مان جائیں گے پلیز تُم اُنہیں منع کردو.."
اُس نے زونیہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ملتجی انداز میں کہا. کیفے میں بیرے کے فرائض انجام دینے والے پندرہ سولہ سالہ لڑکے نے ایک میز پر آرڈر نوٹ کرتے ہوئے اس منظر کو دیکھ کر دانت نکوسے۔
"کیوں مان جائیں گے وُہ تُم میں کیا ہے ایسا جو وُہ تُمہیں ہاں کریں گے نوکری تمہارے پاس نہیں ہے گھر تمہارا اپنا نہیں ہے تمہارے ابو کا ہے ایک پھٹیچر سے بائک کے علاوہ تمہارے پاس اپنا ہے ہی کیا..."
وُہ انتہائی ترش لہجے میں بولی..
"تُم اُنہیں کہنا کہ تُم مُجھ سے محبت کرتی ہو اور نوکری کا کیا ہے آج نہیں تو کل مِل ہی جانی ہے اللہ کا شکر ہے پڑھا لکھا ہوں کوئی جاہل نہیں ہوں اور رزق تو عورت کے نصیب کا ہوتا ہے۔۔"
وُہ اُس کے تلخ سے تلخ رویے کو بھی برداشت کرجاتا تھا واقعی محبت ذلیل و خوار کرتی ہے...
"فار گاڈ سیک علی کس دُنیا میں جی رہے ہو تُم گراؤنڈ ریئلٹیز کو دیکھو محبت سے پیٹ نہیں بھرتا اور خالی ڈگری کا میں نے اچار نہیں ڈالنا..."
وُہ جھٹکے سے اپنے ہاتھ اُس کی گرفت سے نکالتی ہوئی تضحیک آمیز اندا میں گویا ہوئی..
کُچھ ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے چند لوگ اُن کی جانب متوجہ ہوئے علی کو احساسِ خفت نے بری طرح دوچار کیا...
"زونی لوگ دیکھ رہے ہیں.."
وُہ ہلکی آواز میں ذرا غصّے سے بولا...
"بھاڑ میں جائے دیکھتے ہیں تو دیکھیں.."
وُہ اُسی ٹون میں بولی..
"اچھا بس نا مِل جائے گی جاب مُجھے مت ٹینشن لو تم شادی میرے ساتھ ہی ہوگی تمہاری.."
وُہ اُس کے ہر انداز کو نظر انداز کیے اُس کا موڈ ٹھیک کرنے میں مجتہد تھا.
"ٹینشن لینے کی ضرورت مُجھے نہیں تمہیں ہے کیونکہ اگر میں تمہارے ہاتھوں سے گئی نا تو پھر مُجھ جیسی حسین لڑکی تمہیں ملنی نہیں..."
وُہ اِٹھلا کر بولی...
"واقعی تُم جیسی تو کہیں بھی نہیں..."
وُہ جاں نثار کرنے والے انداز میں بولا تو مقابل کروفر سے مسکرا دی...
وُہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے کُچھ گھروں کے فاصلے سے اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے علی ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ زونیہ کا گھرانہ محلے کے متمول گھرانوں میں سے تھا دونوں کی پسندیدگی نے محبت کی شکل تب اختیار کی جب وُہ دنوں ایک کوچنگ کے بعد ایک ہی یونیورسٹی میں بھی داخل ہوئے روز کا ملنا شروع ہوا اور پھر بات محبت پر آکر رُکی علی اپنی پڑھائی مکمل کرچکا تھا اور جاب کی تلاش میں خوار ہورہا تھا دوسری طرف زونيہ ہر روز کسی پروپوزل کا بتاکر اسے مزید پریشان کردیتی وُہ اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا...
اُس کی من موہنی شکل کا وُہ دیوانہ تھا سُرخ و سپید رنگت پتلی ناک خم دار ہونٹ اور سبز آنکھیں جن کا وُہ اسیر تھا وُہ واقعی بہت خوبصورت تھی اتنی کے جب وہ اس کے ساتھ چلتی تھی تو رشک حسد بھری نظریں اُن کی جانب اُٹھتی تھیں...
وُہ خود بھی کسی سے کم نہیں وُہ صرف ایک خوش شکل جوان نہیں بلکہ وہ بے حد حسین تھا۔۔ اسکے چہرے و شخصیت میں عجب سی جاذبیت تھی۔
وہ مجسم وقار تھا، سراپا سحر انگیز۔
کھلتی ہوئی سانولی سنہری رنگت، بیضوی چہرے پہ بڑی بڑی سنہری آنکھیں۔۔ متناسب ناک اور بھرے بھرے عنابی لب۔۔ گالوں پر تراشیدہ بھوری داڑھی۔۔ دمکتی ہوئی پرعظمت کشادہ پیشانی۔ کچھ الجھے ہوئے خمدار بھورے بال اکثر پیشانی پر سایہ کیے رہتے۔
اسکی اٹھان ساحر تھی، چھ فٹ کے قریب قد اور بھری بھری جسامت۔ وہ اکثر گھسی ہوئی جینز اور پرانی سی ٹی شرٹس میں ملبوس رہتا۔ اور اس عام سے حلیے میں بھی وہ نظر انداز کیے جانے کے قابل نہ تھا۔۔
اور یہی کشش زونیہ کو اسٹیٹس کا فرق بُھلائے اُس کی جانب متلفت کرتی تھی..
"جو بھی کرنا ہے جلدی کرو تُم میں اب اور زیادہ نہیں روک سکتی اُنہیں.."
وُہ بے نیازی سے بولی...
"کرتا ہوں بس تھوڑا انتظار اور کرلو.."
وُہ اُس کے ہاتھ کو ہلکا سا زور دے کے بولا...
"اچھا یہ بتاؤ کیا آرڈر کروں کیا کھاؤ گی تُم.."
اب وہ دونوں نارمل انداز میں بات کر رہے تھے...
"پیسے ہیں تمہارے پاس.."
وُہ طنزیہ بولی..
"تُم نے تو بلکل ہی گیا گزرا سمجھ لیا ہے مجھے.."
اُسے بُرا لگا تھا...
"تمہاری یہی بات تو مُجھے سب سے اچھی لگتی ہے کہ تُم باقیوں کی طرح نہیں ہو ورنہ اگر تمہارے جگہ کوئی اور ہوتا تو امیر لڑکی پھنسا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹتا.."
اپنی بات کے آخر میں ہلکا سا قہقہہ لگا کر بولی...
"کیونکہ میں تمہارے ساتھ ٹائم پاس نہیں کر رہا ہوں زونیہ.."
وُہ متانت سے بولا تو مسکراہٹ اُس کی طرف اُچھال کر وُہ مینیو دیکھنے لگی...