آخری قسط (حصہ اول)

1.6K 111 25
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
آخری قسط
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا۔

"تمہارا چوہیا جتنا دِل ہے پھر کیسے کہہ دیا تھا کہ دوسری شادی کرلو مُجھے حیرانی نہیں ہوتی اگر تُم میری دوسری بیوی کا قتل کردیتی..."
علی نے اُسے چڑانے کی خاطر کہا...
"حیرانی تو ہوتی آپکو مگر میں اُس بیچاری کو کیوں ماروں آپ ہی مار دیتی قصہ ہی ختم نہ ہوں گے نہ کسی اور کے بارے میں سوچیں گے کیسا..."
نور نے بھی اُسے چھیڑا...
"توبہ توبہ کتنے خطرناک ارادے ہیں تمہارے  پاگل ہو پوری..."
وُہ واقعی جی بھر کر حیران ہوا تھا...
"میرے نہیں تو کسی کے نہیں یاد رہے یہ بات..."
نور نے قطعیت سے کہا...
"آپکو بڑا شوق ہورہاہے دوسری شادی کا۔۔"
اُس نے تند لہجے میں کہا...
"اللہ کو مانو کس کافر کو مرنے کا شوق ہے.."
اُس نے اپنے کانوں سے ہاتھ لگا کر کہا تو وُہ بے ساختہ ہنس دی...
"ویسے فرض کریں اگر میں کُچھ نہ کہوں تو کیا آپ کرلیں گے دوسری شادی؟..."
وُہ نجانے کیا جاننا  چاہ رہی تھی...
"سچ بولوں..."
علی نے سنجیدگی سے کہا تو اُس کے دِل کو عجیب احساس نے چھوا تھا نجانے وُہ کیا سچ کہنے والا تھا...
"ہاں سچ ہی کہیں..." اُس کی آواز بہت مدھم تھی علی نے اُسکی حالت سے حظ لیا...
"ہاں کرلیتا کون مرد نہیں چاہے گا اُس کی دو بیویاں ہوں پیاری پیاری..."
اُس نے رُک کر نور کے چہرے کے تاثرات جانچے تو بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی...
"مگر دوسری شادی کے لیے انصاف شرط ہے اور وُہ میں نہیں کر پاتا سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ بات۔۔"
علی نے قصداً دوبارہ اپنی بات ادھُوری چھوڑی..
"ظاہر ہے ہر مرد کو دوسری اور نئی بیوی ہی زیادہ بھائے گی تو کہاں سے پہلے والی سے انصاف کر پائے گا..."
اُس نے جل کر کہا...
علی نے اپنا منہ اُس کے کان کے پاس لے جاکر دھیمی آواز میں سرگوشی کی...
"مُجھے تُم سے فرصت ملے گی تو اُسے دیکھوں گا ناں کیونکہ اِن آنکھوں میں اور دِل میں صرف تمہاری تصویر ہے یہ کسی اور کو دیکھ ہی نہیں سکتیں ..."
نور کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی گردن گھما کر چہرہ اُس کی جانب کیا تو وُہ بھی مسکرا رہا تھا...
"یونہی مسکراتی رہا کرو میں تمہیں ہمیشہ ایسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں چندا.."
علی نے اُس کا سر تھپکتے ہوئے محبت سے کہا..
"آپ بہت اچھے ہیں علی بہت اچھے اور آپ صرف میرے ہیں میرا ہی رہنا ہے.."
"ہمیشہ ہمیشہ صرف اور صرف اپنی نور کا..."
علی نے اُس کا سر اپنے کندھے سے ٹكاتے ہوئے کہا...
_________________________________________

"بڑا خوش دکھائی دے رہا ہے..؟"
عمر نے کُرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا..
"تُو کب آیا..؟"
علی نے حیرانگی سے پوچھا...
"جب تو بھابھی کے خیالوں میں گُم تھا۔۔"
علی اُسکی بات پر مسکرا دیا...
"سب ٹھیک ہوگیا بھابھی اور تیرے بیچ.."
عُمر فوراً اُس کے خوشگوار موڈ کو دیکھ کر اِس نتیجے پر پہنچا...
"تو کیا نہیں ہوتا..؟"
اُس نے اُلٹا سوال کیا...
"بہت اچھی بات ہے یہ  تو پھر.."
عمر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا....
"پہلی بار میں خود کو اتنا پُر سکون محسوس کر رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے سب کُچھ مِل گیا ہے سب کُچھ..."
علی نے طمانیت بھرے انداز میں کہا...
"واقعی آج تو بہت مختلف لگ رہا ہے..."
عُمر نے واضح طور پر محسوس کیا تھا...
" زندگی جب امتحان لیتی ہے تو نہ عمر دیکھتی ہے نہ بساط اور بعض اوقات ہماری ساری زندگی ہی مشکلات اور کٹھن آزمائشوں کی نذر ہو جاتی ہے۔"
علی نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے کہا...
"جب مایوسیوں کے سائے زندگی میں گھٹا گھوراندھیرے بڑھا دیتے ہیں تو کوئی کیا کرے  زندگی فطرت کا تحفہ ہے، یہ خوبصورت ضرور ہے مگراس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آنے والا لمحہ کیا لے کر آتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ خوشیاں کب دکھوں میں تبدیل ہو جائیں یا غم کے بادل کب چھٹ جائیں ان سب کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ کبھی غم تو کبھی خوشی والی کیفیت ہے جس کسی نے بھی کہا تھا کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں… سچ کہا تھا۔
پاس اور آس کے درمیانی وقفے میں ہی زندگی کے چار دن ختم ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ زندگی امتحان ہے جس کا جواب صبر کرکے دیا جاسکتا ہے۔"
عُمر نے غم اندوہ لہجے میں کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا..
"میں منتظر ہوں مُجھے کب میرے صبر کا صلہ ملتا ہے مانتا ہوں میں کُچھ وقت کے لئے گمراہ ضرور ہوگیا تھا اُس کی رحمت پر سوال اٹھاتا تھا مگر جب سے تو مِلا ہے مُجھے پھر سے ایک اُمید ملی ہے پتا ہے میں نے آج سے نماز دوبارہ شروع کی ہے اور اب روز پڑھوں گا اُس سے مانگوں گا بار بار مانگوں گا وہی دینے والا ہے اور وہی دے گا بھی..."
عُمر نے ایک عزم کے ساتھ کہا...
"بیشک.." علی نے برجستہ کہا...
"عُمر میرے یار زندگی میں ایسا موقعے ضرور آتے ہیں جہاں ہم سب بے بس ہو جاتے ہیں اور کسی غیبی مدد کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ غیبی مدد فطرت کی طرف سے متوقع ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر سوائے بے بسی کے کچھ بھی پاس نہیں ہوتا کسی پیارے کی موت..."
علی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا..
عُمر نے اپنا رُخ بدلا...
"کہتے ہیں موت ہمیشہ آپ کا تعاقب کرتی ہے اور آخر ایک دن اپنے شکنجے میں کس ہی لیتی ہے۔ یہ زندگی کا سب سے دردناک لمحہ ہوتا ہے جب کوئی پیارا آپ کے سامنے دم توڑ جاتا ہے ..."
"میرے انس میرے ہاتھوں  میں جان دی تھی علی جن ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ تھاما تھا مُجھے آج بھی وُہ لمحہ یاد ہے جب سانس لیتے لیتے اُس کا وجود یکدم ساکن ہوگیا تھا بشریٰ اور میں نے اُسے بہت ہلایا بہت ہلایا بہت مگر وُہ نہیں..."
عُمر سے مزید نہیں بولا گیا علی اُس کی حالت سمجھ سکتا تھا....
کُچھ دیر خاموشی رہی ارد گرد کی ٹیبلوں پر بیٹھے لوگوں کی آوازیں گونجتی رہی...
"اُس موقع پر زندگی کی حقیقت سمجھ ا
آگئی تھی ایک لمحہ آتا ہے جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جانے والی کے بغیر زندگی کیسے کٹے گی ہم دونوں کو بھی یہی لگتا تھا انس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکیں گے مگر وقت ہی مرہم بنتا ہے ۔ کتنی ہی صورتیں پنہاں ہو جاتی ہیں اور ہم پھر سے زندگی کے میلے میں گم ہو جاتے ہیں۔ کسی پیارے کے چلے جانے پر صرف اور صرف اپنے آپ کو حوصلہ دینے سے ہی صورتحال کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔"
عُمر نے دِلگیر لہجے میں کہا..
"تعلقات کا ختم ہو جانا کسی کی محبت میں گرفتار ہونا اور پھر اس محبت کے بندھن سے نکل جانا زندگی کا حصہ ہے۔ مگرجس تیزی سے محبت ہوتی ہے اتنی ہی برق رفتاری سے اس کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے۔ کسی کی ایک مسکان اگر محبت کا باعث بنتی ہے تو اس وقت کوئی دوسرا پہلو نظر ہی نہیں آتا اور پھر معیار اور امنگوں پر پورا نہ اترنا یا بیوفائی کرنے سے دل ٹوٹتا ہے اور محبت کا انجام ہو جاتا ہے۔ اس وقت محبت کرنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی ہی ختم ہوگئی ہو۔ اس کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں اور دنیا جہنم ہوگئی ہے۔ محبوب کے ساتھ گزرا ہر لمحہ یاد آتا ہے اور آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔مگر مُجھے ایسا کُچھ محسوس نہیں ہوا ہاں تکلیف ہوئی تھی میں اُسّے بچپن سے پسند کرتا تھا مگر وہ تکلیف بھی دیرپا نہیں رہی نور نے آتے ہی اُس تکلیف کو ختم کردیا تب ہی تو میں نے جانا مُجھے زونیہ سے کبھی محبت تھی ہی نہیں محض وابستگی تھی اِس سے زیادہ کُچھ نہیں..."
علی نے چائے والے کو دو چائے لانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا...
"ناکامیاں کسی مقصد کیلئے جدوجہد کرنا لیکن اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں آنا بھی زندگی کا تلخ دور ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جہاں خواب بکھرتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔  ناکامیوں کی اس گھڑی میں سیکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن سیکھتا کوئی کوئی ہی ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں کوئی امید بھی نہیں ہوتی۔ یہ ناکامی کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے جیسے امتحان میں فیل ہو جانا، کسی کاروبار میں گھاٹا کھا لینا، انٹرویومیں ناکام ہو جانا، ایسی صورت میں صرف اور صرف حوصلہ بڑھائے رکھنا اور زندگی کو مثبت انداز میں دیکھنا ہی کام آتا ہے۔ یہ سوچ لیا جائے کہ اس ناکامی میں کہیں کامیابی چھپی ہوئی ہے اس سے نکلنا ہوگا تو زندگی سہل ہو سکتی ہے میرے ساتھ یہ سب کُچھ ہوا مگر آج دیکھی میں تمہارے سامنے پُر اُمید زندگی سے بھرپور کیونکہ میں نے ناکامیوں سیکھا ہے اُس پر رونے نہیں بیٹھ گیا اور یہ بات میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اگر میرے ساتھ نور نہ ہوتی تو آج میں اتنا خوش اور مطمئن ہرگز نہیں ہوتا..."
علی نے لہجے میں نور کے لئے عزت و احترام سموئے قطعیت سے کہا...
"معذور ہونا ایک ایسا دکھ ہے جس کا مداوا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معذور شخص ہمیشہ کیلئے دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے جب میرا ایکسیڈینٹ ہوا تھا تو ایک مہینہ میں نے چُپ رہ کر سب کے بدلتے رویے دیکھے تھے اُن بھائی بہنوں کو خود سے بیزار ہوتے دیکھا جو میرے آگے پیچھے بھائی بھائی کرتے پھرتے تھے مگر جب میں اُن کے کام کا نہ رہا تو کوئی بھولے بھٹکے بھی میرے کمرے میں جھانکتا نہیں تھا صرف ایک فرح تھی جس نے ہمیشہ مُجھے اپنا بھائی سمجھا بہن تھی تو بن کر بھی دکھایا اُسے مُجھ سے کوئی غرض نہیں تھا نور کے بعد فرح ہے جسے میں اپنا کہہ سکتا ہوں ۔"
اُس نے محبت سے کہا...
"آج واقعی بہت کُچھ نیا ہے.."
عُمر نے چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے کہا..
"آج میں بہت مطمئن ہوں اپنی زندگی سے ایسا لگ رہا ہے مکمل ہوگیا ہوں سب کُچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب ہونے کا احساس ہے مُجھے زندگی سے کوئی شکایت نہیں بس میں بہت بہت خوش ہوں..."
علی کا چہرہ اُس کی اندرونی کیفیت صاف ظاہر کر رہا تھا...
"اور مُجھے بھی بہت خوشی ہورہی ہے تُجھے خوش دیکھ کر..."
عُمر نے متانت سے کہا...
"بس اب گھر ڈھونڈھ کر شفٹ ہونا ہے میں نے نور کے ساتھ..."
"تُو اب بھی گھر چھوڑنا چاہتا ہے..؟"
عمر نے حیرت سے پوچھا...
"کیوں اب ایسا کیا ہوگیا..؟"
علی نے اُسی کے انداز میں کہا..
"کُچھ نہیں..."
عُمر خود چُپ ہوگیا...
"چائے پی ٹھنڈی ہورہی ہے..."
علی نے مسکرا کر کہا اور اپنی پيالی اُٹھا لی....

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now