قسط نمبر ۲۰

1.3K 77 8
                                    



قسط نمبر ۲۰
_________________________________________

"کیا کہہ رہی ہو تُم؟؟" علی نے شدید حیرت کے عالم میں پوچھا..
"ہاں یار بس سب اچانک ہوا کل رات کو جب تُم دونوں سے مِل کر گھر جاکر میلز چیک کیں تو پتا چلا اگلے ہفتے کی فلائٹ ہے اپلائی تو کب سے کیا ہوا تھا پھر مایوس ہوکر یہیں جاب ڈھونڈھ لی مگر اللہ کا شکر اُس نے میری دُعا سُن لی.."
نور نے فائلز ایک طرف کرتے ہوئے کہا..
"تُم نے منیجر کو انفارم کردیا.."
"ہاں میں نے رات کو ہی اُنہیں بتادیا تھا ویسے میرا جانا تمہارے لئے خوش خبری لے کر آیا ہے.."
فضہ نے متانت سے کہا..
"کیا مطلب..؟"
"مطلب مُجھے ابھی ابھی پتا چلا ہے سافٹ وئیر ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ مبشر صاحب نے بغیر کسی نوٹس کے جاب چھوڑ دی ہے منیجر بہت پریشان تھا کہ اتنی جلدی کوئی دوسرا ایمپلائے کیسے ملے گا اگر ایڈ بھی دیں گے تو ملنے میں تین چار دِن لگ جائیں گے تو میں نے اُنہیں تمہارا نام ریفر کردیا آفٹر آل تُم سافٹ وئیر انجنیئر ہو اور ویسے بھی جس پوسٹ پر تُم ہو وُہ تمہاری قابلیت کے مطابق نہیں اور حیرت انگیز طور پر ایک دِن پُرانی ایمپلائے یعنی میرے کہنے پر اُنہوں نے باس سے بات کی اور وُہ مان بھی گئے ہیں.."
فضہ نے پُر جوش ہوکر اُسے بتایا...
"کیا واقعی..؟"
اُسے یقین نہ آیا...
"ہاں بِلکُل اور اِس بات پر تُم مُجھے ٹریٹ دے رہے ہو آج وہ پیزا کی ورنہ میں نے تمہارا حشر کردینا ہے.."
اُس نے ہاتھ اُٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں کہا..
"ہاں ضرور یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے چلو کینٹین.."
اُس نے خوشی سے کہا مِلنے وال خبر ہی ایسی تھی...
"بھئی مُجھے تو تمہاری بیوی سے مِل کر سچ میں بہت بہت اچھا لگا کتنی پیاری ہے وُہ ماشاءاللہ سے اور پھر ذہین بھی میں کل سے پہلے سوچتی تھی جو بھی لڑکی تمہاری بیوی بنے گی وُہ بہت خوش قسمت ہوگی مگر آج میں کہوں گی کہ تُم بہت خوش قسمت ہو جو تمہاری زندگی میں نور ہے.."
اُس نے ہموار لہجے میں کہا...
"واقعی.." علی نے نور کو سوچ کر محبت سے کہا...
"ویسے مُجھے اُس سے ہمدردی ہے.."
فضہ نے نچلا لب دبا کر شرارت سے کہا..
"کس بات پر.."
"ارے کہاں وُہ اتنی پیاری سی اور اتنی کم عُمر اور کہاں تُم دس سال بڑے اور وُہ بھی کوجے سے..."
"کیا مسئلہ کیا ہے تُم سب کو مُجھے یہ سمجھ نہیں آتا جسے دیکھو یوں مغموم ہے جیسے میں کوئی تیس پینتیس یا چالیس سال کا آدمی ہوں وُہ بھی دو تین بچوں کا باپ اور وُہ اٹھارہ سالہ مُجھ سے بیاہ دی گئی ہو..."
اُس نے سخت تپے ہوئے انداز میں کہا تو فضہ قہقہہ لگا کر ہنس دی...
"ہاں نہیں تو اور جب میری بیوی کو کوئی اعتراض نہیں تو تُم لوگوں کو کیا ہے اٹھائیس کا ہوں اور شکل کی تو بات کرنا ہی مت تُم کیونکہ میں اچھے سے جانتا ہوں میں کیسا ہوں.."
انداز اب تک جلا بھنا تھا..
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے علی کا فون بجنے لگا...
اُس نے دیکھا تو زونیہ کی کال آرہی تھی ساری سرشاری ساری خوشی لمحے میں دھواں ہوئی اُس پر کے چہرے پر ناگواری واضح تھی...
"کیا ہوا کس کی کال ہے.."
اُسے یوں متفکر دیکھ کر فضہ نے پی پوچھا..
جواب میں علی نے موبائل اُس کے سامنے کردیا..
"اِسے کیا موت پڑی ہے اُٹھاؤ کال اور پوچھو.."
علی نے فون یس کرکے اسپیکر پر ڈال دیا..
"شکر ہے علی تُم نے کال اُٹھا لی ورنہ مُجھے لگا تُم مُجھ سے اب تک متنفر ہو گے..."
علی کی ابرو میں بل پڑنے لگے تھے...
"کال کیوں کی ہے بتاؤ میرے پاس تمہارے لیے وقت نہیں ہے.."
اُس نے اپنا غصّہ دباتے ہوئے کہا..
"تُم ابھی تک مُجھے آپنے دِل سے نکال نہیں پائے ہو علی اگر نکال دیا ہوتا تو یوں پہلی ہی باری میں میری کال نہیں اُٹھا لیتے.."
دوسری طرف سے ہرزہ سرائی کی گئی..
"تمہیں شرم آنی چاہیے زونیہ کسی اور کی بیوی ہوکر مُجھے سے یہ سب کہتے ہوئے.."
"یہی بتانے کے لئے تو کال کی ہے علی میں جان چُکی ہوں میں تُم سے محبت کرتی ہوں میں اُس اِنسان کے ساتھ رہ نہیں سکی وُہ اِنسان میرے لائق تھا ہی نہیں ہماری طلاق ہوچکی ہے مُجھے میری غلطی کی سزا مِل چُکی ہے اب تُم بھی.."
"تمہارے جیسی گھٹیا بدکردار عورت میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تمہیں زونیہ تف ہے تُم پر تف.."
اب کی بار فضہ نے ملامتی انداز میں کہتے ہوئے علی کے ہاتھ سے موبائل چھینا اور کال کاٹ دی...
علی نے اپنا دایاں ہاتھ زور سے ٹیبل پر مارا اور کُرسی کی پُشت سے ٹیک لگالی وُہ شدید کبیدہ خاطر نظر آرہا تھا..
"گھٹیا پن کی حد کردی ہے اِس لڑکی نے کس بے حیائی سے فون کرکے اپنی طلاق کی خبر سنا رہی ہے..."
فضہ نے ابرو چن کر کہا...
"کیوں کیوں کیوں..؟؟"
وُہ مسلسل اپنا ہاتھ ٹیبل پر مار رہا تھا..
"علی تُم نے اِس کے متعلق نہیں سوچنا ہے.."
اُس نے سمجھانا چاہا..
"علی کیا تُم اِس لڑکی سے دوبارہ.."
"تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے میں اتنا گھٹیا نہیں ہوں فضہ.."
اُس نے سخت لہجے میں کہا...
"اچھا ریلکس ریلکس پانی پیو.."
اُس نے رسان سے کہتے ہوئے پانی کی بوتل اُس کی طرف بڑھائی جس سے چند گھونٹ پی کر علی نے واپس کردی...
"علی میری بات کا بُرا مت ماننا مگر میں تُم یہی کہنا چاہوں گی نور کے ساتھ کوئی زیادتی مت کرنا وُہ بہت اچھی لڑکی ہے اپنے ماضی کا سایہ مستقبل پر مت پڑنے دینا یہ میری اِلتجا ہے تُم سے.."
اُس نےمتلمس ہوکر کہا...
"میں اُس سے زیادتی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا فضہ مگر مُجھے یہ سمجھ نہیں آتا لوگ اتنے بے رحم کیوں ہوتے ہیں.."
اُس نے بے بس ہوکر کہا...
"زخم سب کو ملتے ہیں علی اب ان زخموں سے کون کیا سیکھتا ہے یہ رب کی عطا ہے۔۔
وہ چاہے تو زخم کو روشنی بنادے چاہے تو ناسور
اگر دل میں روشنی کو تسلیم کرلینے کی ذرا سی بھی خواہش ہو تو وہ اکیلا نہیں چھوڑتا.."
اُس نے تسلی آمیز انداز میں کہا..
"یہ ہے تمہاری ماضی اِسے مکمل طور پر دفع کرو.."
فضہ نے زونیہ کا نمبر بلاک کرتے ہوئے کہا...
"بانو آپا راجہ گدھ میں لکھتی ہیں
پرانے دنوں کو یاد نہیں کرتے سر جی، نئے دنوں میں گھن لگ جاتا ہے.."
"تُم بھی پُرانے دنوں کو یاد کرکے نئے دنوں میں گھن نہیں لگاؤ علی نور کے ساتھ خوش رہو اُسے خوش رکھو میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا ہے وہ محبت کی پری ہے اُسے اپنے ہونے کا احساس دلاؤ گے تو وہ تمہاری زندگی جنت بنادے گی اُسے اپنا تحفظ دو اُس کی آنکھوں میں صاف دِکھتا ہے وُہ تُم پر غرور کرتی ہے تُم اُسے مغرور کیے رکھو..."
"تُم بے فکر رہو.."
اُس نے مصمم ارادے سے کہا تو وُہ بھی مطمئن ہوگئی...

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now