قسط نمبر ۴۰

1.3K 82 15
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۰
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"تُم یہاں کیا کر رہی ہو بیٹا.."
سبحان صاحب نے اُسے لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا...
"کُچھ نہیں ابو تانیہ کی طبیعت خراب ہے اور نمرہ گھر پر نہیں ہے اور اِس عُمر میں وُہ بھی روزے  میں امی کو کام تو نہیں کرنے دوں گی میں.."
اُس نے چاٹ کے لئے فروٹس کاٹتے ہوئے جواب دیا...
"شفق...شفق.."
سبحان صاحب نے زور سے آواز لگائی...
"جی بولیں..."
وُہ بُرا سا منہ بناکر کمرے میں داخل ہوئیں....
"نمرہ کہاں ہے؟؟"
"اپنی دوست کے گھر گئی ہے افطار پارٹی میں.."
اُنہوں نے بے فکری سے کہا...
"اور تُم نے جانے دیا..."
وُہ سختی سے بولے...
"وُہ تو یونیورسٹی سے ہی چلی گئی تھی کال کرکے بتادیا اُس نے..."
شفق خاتون کہہ کر خود پھنس گئیں تھیں...
"تُم کتنی لاپرواہ ہو کہ جوان بیٹی صبح کی گھر سے نکلی ہوئی ہے شام ہورہی ہے اب تک گھر نہیں آئی صرف ایک فون کال پر تُم ٹھنڈے ٹھار کے بیٹھ گئی..."
اُنہوں نے دانت پیس کر کہا...
"جس کے گھر گئی ہے میں نے اُس کی ماں سے بات کرلی ہے آپکو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.."
وُہ بھی سخت لہجے میں بولیں...
"تو یہ بیچاری اِس حالت میں یہ سارے کام کرے گی..."
"کس حالت میں ٹھیک ٹھاک تو ہے ویسے بھی میں نے کوئی نہیں کہا خود نے ہے آکر جھاڑو لی میرے ہاتھوں سے..."
اُنہوں نے بے نیازی سے کہا...
"یہ تُمہیں ٹھیک دکھتی ہے پسینے میں نہا رہی ہے پوری چہیتی بہو تو تمہاری کمرہ بند کرکے اے سی میں بیٹھی ہوئی ہے.."
"تو طبیعت خراب ہے اُس کی.."
وُہ ترکی بہ ترکی بولیں...
"ابو میں کرلوں گی آپ فکر مت کریں ویسے ہی سب کُچھ ہوگیا ہے بس تلنے والی چیزیں رہ گئیں ہیں آپ لوگ خالہ لوگوں کے ساتھ جاکر بیٹھیں میں کرلوں گی..."
نور نے بیچ میں مداخلت کرنی ضروری سمجھی ورنہ بات مزید بڑھتی دکھائی دے رہی تھی...
"ولید کی کال آئی تھی کہہ رہا تھا ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں افطار تک مُشکل ہی ہے آ پائیں..."
اُنہوں نے نور کو اطلاع دی...
"ٹھیک ہے..."
وُہ محض سر ہلا کر رہ گئی...
"بس اب علی کو پتا نہ چلے ورنہ وُہ بہت غصّہ ہوں گے.."
اُس نے دوپٹے سے اپنی عرق آلود پیشانی صاف کرتے ہوئے خود سے کہا...
"کیسے پتا چلے گا وُہ تو دس بجے تک آئیں گے جب تک تو میرا سارا کام نپٹ بھی جائے گا آرام سے.."
اُس نے خود ہی اپنی سوچ کی تردید بھی کی...
"کیسی ہیں بھابھی..؟"
دانیال نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا...
"ٹھیک ہوں میں.."
اُس نے ہلکا سا مسکرا کر کہا اور کام میں مصروف ہوگئی...
"بھابھی آپ بھائی سے بات کیجئے گا میرے آفس میں ایک پوسٹ خالی ہے اور کوئی پیسے وغیرہ نہیں دینے ہوں گے اُن کی جاب میرٹ پر ہوجائے گی..."
دانیال نے فریج سے ٹیک لگا کر ہاتھ پر ہاتھ باندھے کہا۔۔
"میں تو بول دوں گی مگر تُم اپنے بھائی کو تو جانتے ہو وُہ ہرگز تُم سے کسی قسم کی مدد نہیں لیں گے..."
نور نے سادہ انداز میں کہا...
"ایک تو بھائی کی بھی اکڑ نہیں جاتی آپ خود بتائیں آجکل کے دور میں کون اِن اصولوں کو مانتا ہے جن پر وُہ عمل کرتے ہیں اچھے خاصے پڑھ لکھ کر بھی سولہ سترہ ہزار کی نوکریوں کے پیچھے خوار ہورہے ہیں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کل گیا تھا اتفاقاً اُس ریسٹورنٹ جہاں  بھائی جاتے ہیں آپکو پتا ہے میری کتنی سبکی ہوئی سب کے سامنے میرا دوست جانتا ہے بھائی کو اُس نے ہے سب کو بتایا کہ یہ دانیال کے بڑے بھائی ہیں ایک سافٹ ویئر انجینئر اور کیا کام کر رہے تھے برگر بنا رہے تھے..."
دانیال کا انداز بدلنے لگا تھا وُہ اب سختی سے بول رہا تھا...
"تو آپ کے لئے آپکے بھائی شرمندگی کا باعث ہیں..."
نور نے حیران ہوکر پوچھا...
"یہ بات نہیں ہے مگر اپنے گھر کے مسئلے دُنیا کو کیوں دکھانا آپکو پتا ہے میرے دوستوں اُنہوں نے کیسے کیسے سوال کیے مُجھ سے کہ تمہارا بھائی کیا تُم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتا؟ تُم بھائیوں میں کیا کوئی ان بن ہے؟؟
تُم اتنی اچھی پوسٹ پر ہو تمہارا بڑا بھائی تُم سے زیادہ قابل ہوکر یہ کام کر رہا...اپنے آفس میں لگوادو..."
دانیال نے پھر اپنے لہجے کو نرم کرنے کی کوشش کی...
"اِس میں شرمندگی والی تو کوئی بات نہیں ہے وُہ محنت کر رہے ہیں بھائی..."
"مگر میں تو ذلیل ہورہا ہوں ناں بھابھی آپ اُنہیں سمجھائیں برائے مہربانی کہ اپنی ضد چھوڑ دیں..."
اُس نے مزید تندی سے کہا...
"میں اُنہیں کبھی بھی کوئی ایسا کام کرنے کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گی جو غلط ہو وُہ محنت کرکے کما رہے ہیں یہ وقت بھی گزر جائے گا تعلیم اور شعور دونوں ہے اُن کے پاس پہلے بھی اُنہوں نے اپنی بل بوتے پر ہی جاب حاصل کی تھی اِس بار بھی مِل جائے گا اُنہیں اللہ کے سوا کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے..."
نور نے مستحکم انداز میں کہتے ہوئے اپنی طرف سے بات ختم کی...
"اچھا ہے کُچھ پیسے ہیں بیس ہزار کے قریب آپ اُنہیں کوئی بھی بہانہ بنا کے دے دیں اور جب تک کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مِل جاتی اُنہیں بولیں گھر پر بیٹھ جائیں یوں ہماری عزت کا جنازہ نہ نکالیں اتنا پڑھ لکھ کر بھی وہی گدھا مزدوری والی نوکریاں کرتے پھر رہے ہیں ذرا جو خیال ہو ہمارا.."
دانیال نے زبردستی پیسے اُس کے ہاتھ میں تھمائے اور تن فن کرتا کچن سے باہر نکل گیا..
"اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں آپ بھائی.."
نور بھی اُس کے پیچھے دوڑی...
"کیا ہوگیا ہے آپکو بھابھی بھائی تو ہیں ہی نفسیاتی آپ تو کُچھ عقل کے ناخن لیں کیا آپکو اچھا لگتا ہے کہ آپکا شوہر ایک تھرڈ کلاس سی نوکری کرتا ہے میں تو کہتا ہوں آپ اُنہیں سمجھائیں مگر آپ تو اُلٹا مُجھ پر ہی گرم ہورہی ہیں..."
دانیال نے بد تمیزی سے اور تقریباً چیخ کر کہا...
"وُہ محنت کر رہے ہیں اور اُس میں کوئی شرم نہیں ہے کوئی غلط کام نہیں کر رہے نہ کسی کو رشوت دے کر نوکری حاصل کرکے حقدار کا حق مار رہے ہیں.."
نور نے اُسی کے انداز میں اُسے جواب دیا کیونکہ بات اب علی پر آچکی تھی اور اُس کی بے عزتی وُہ قطعی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔۔۔
"تمیز سے بات کریں بھابھی..."
"میں نے اب تک ادب کے دائرے میں رہ کر ہی بات کر رہی تھی دانیال بھائی شروعات آپ نے کی اِن کے خلاف میں ایک لفظ برداشت نہیں کروں گی.."
نور نے اپنا لہجہ یکساں رکھا...
"آپ میری بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی ہیں میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ میں اُن کا چھوٹا بھائی ہوں مُجھ سے پیسے لینے میں کیسی جھجھک..."
اُس نے باقی گھر والوں کو آتا دیکھ کر پینترا بدلا...
"یہ بات آپکے منہ سے اچھی نہیں لگتی بِلکُل بھی آج آپکے دِل میں بہت بھائی کی محبت جاگ رہی ہے تب کہاں گئی تھی جب اُنہیں آپکی ضرورت تھی تب تو آپ نے صاف کہہ دیا تھا کہ میری ابھی نئی شادی ہوئی ہے میری نئی نوکری ہے میں اِس گھر کو سنبھالوں یا اِنہیں پالوں اتنی جلدی بھول گئے آپ حیرت ہے.."
وُہ اپنے سینے پر ہاتھ لپیٹے اُس کی آنکھوں  میں آنکھیں ڈالے بولی...
ہر کوئی انگشت بدنداں تھا اُس کا یہ روپ دیکھ کر وُہ تو بِلکُل چُپ چاپ رہنے والوں میں سے تھی مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ جب بات اُس کے علی پر آتی ہے تو وُہ الگ ہی نور ہوتی ہے...
"یہ کیسے چیخ چیخ کر باتیں کر رہی ہے آپا دیور سے غضب خُدا کا کوئی شرم لحاظ بچی ہے کہ نہیں..."
زرینہ نے شفق خاتون کو چڑھانا شروع کردیا...
"ہاں کہی تھی یہ بات تو اِس کا بدلہ کیا وُہ مُجھے جگہ جگہ ذلیل کروا کر لیں گے..."
دانیال نے آواز مزید اونچی کرتے ہوئے کہا...
"اُنہوں نے کوئی چوری نہیں کی ہے قتل نہیں کیا ہے  جو آپکو اُن کی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑے..."
نور نے اپنی آواز آہستہ کی...
"یہ کوئی طریقہ نہیں بڑی بھابھی سے بات کرنے کا اور تُم ہوتے کون ہو کُچھ بھی کہنے والے علی کو اپنا دیکھو تُم اُسے چھوڑ دو اُس کے حال پر میرے بیٹے کو تمہاری ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے..."
سبحان صاحب نے دانیال کی بُری طرح جھڑک دیا...
"پکڑیں اپنے پیسے اور اپنے پاس رکھیں اتنا ہی شوق ہے اگر آپکو تو کسی ضرورتمند کو دیں جاکر مُجھے یا اِنہیں اِن پیسوں کی ضرورت نہیں ہے..."
اُس نے پیسے دانیال کے سامنے کرتے ہوئے سختی سے کہا...
"صحیح کہتی ہیں امی آپ نے ہی دماغ خراب کیا ہے بھائی کا ہمارے خلاف کیا ہے اُنہیں شکل سے کتنی معصوم لگتی ہیں  مگر ہیں کتنی گھنی..."
"اپنی زبان سنبھال کر بات کرو دانیال.."
سبحان صاحب نے اُسے ایک تھپڑ جڑ دیا...
"صحیح بات کر رہا ہوں تو چُپ ہوجا بھئی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا آپکے اُس بیٹے نے اتنی بھی کیا انا ہے پڑے تو اِسی گھر میں ہوئے ہیں ناں..."
وُہ اپنا گال سہلاتا ہوا چلایا...
"آپکے ٹکڑوں پر نہیں پل رہے ہم میرا شوہر کھلاتا ہے مُجھے آپ نہیں اور کیا کب سے بول رہے ہیں شرمندہ کرکے رکھ دیا ہے حرام کی کمائی کھانے سے لاکھ گنا اچھا ہے حلال کی چٹنی روٹی میں آخری بار کہہ رہی ہوں اِن کے بارے مزید کوئی فضول گوئی آپ نہیں کریں گے..."
نور نے نفرت سے کہا...
"میں حرام کماتا ہوں آپکی اتنی ہمت..."
دانیال نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ عین اُس وقت دروازے سے علی اندر داخل ہوا دانیال کا اُٹھا ہوا ہاتھ تو سبحان صاحب نے پکڑ کر اُسے پیچھے دھکا دے دیا تھا مگر اب علی کو قابو کرنا نا ممکن تھا...
اُسے نہیں پتا تھا کیا بات تھی کیا ہوا تھا مگر اُس کو دانیال کے اُٹھے ہوئے ہاتھ نے شدید مشتعل کردیا تھا...
"تیری اتنی ہمت بھی کیسے ہوئی کہ میری بیوی پر ہاتھ اُٹھایا تُو نے..."
علی نے اُس کے منہ پر گھونسوں کی بارش کردی تھی وُہ اُسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر مار رہا تھا...
"ہوگئی کامیاب اِسی لیے مری تھی تُو نیچے بھائی بھائی کے بیچ ہاتھا پائی کروا دی تُو نے نیچ نسل کی کم ذات..."
شفق خاتون نے نور کندھے پر ہاتھ مار کر اُسے پیچھے دھکیلا...
"امی میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں مگر آپکو کوئی حق نہیں ہے میرے مرحوم والدین کو گالی دینے کا..."
نور تن کر اُن کے سامنے جا کھڑی ہوئی...
"تمہیں اپنے اِس گھٹیا بیٹے کی حرکت نہیں دکھائی دے رہی گھر کی عزت پر ہاتھ اُٹھا رہا تھا یہ کیوں اپنی نفرت میں اتنی اندھی ہوگئی ہو شفق..."
سبحان صاحب نے تند و تیز آواز میں کہا...
"ہاں اب تو میرے منہ کو آئے گی اوقات کیا ہے تیری..."
شفق خاتون نے سبحان صاحب کی بات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے نور سے کہا ..
"میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں مُجھے یہ بھولنے پر مجبور مت کریں.."
اُس نے بہت ضبط سے کام لیا تھا ورنہ اُن کے لفظوں اندر تک جلا ڈالا تھا...
"چھوڑیں چھوڑیں..."
شعیب نے علی کو دھکے دیتے ہوئے دانیال کو اُس سے الگ کروایا...
"میں اِسی لیے کہہ رہا تھا تُم سے بیٹا یہ لوگ اِس لائق نہیں ہیں کہ اِن کے ساتھ بھلائی کی جائے..."
"مگر اِس پاگل عورت کو کون سمجھائے یہ بات اپنی عزت کا کوئی خیال نہیں ہے اِسے بار بار ذلیل ہوتی ہے اِن کے ہاتھوں  پھر آجاتی ہے اپنی بے عزتی کروانے میں کتا ہوں جو بس بھونکتا رہتا ہوں اِسے میری کسی بات کا پاس رکھنا نہیں آتا کر لی ہمدردی مِل گیا صلہ مبارک ہو تمہیں..."
علی اب نور پر پھٹ پڑا...
"آرام سے بات کرو علی اِس بیچاری کی کیا غلطی ہے یہ تو اپنی طرف سے اچھا ہی سوچ رہی تھی..."
"تمہاری عقل میں میری بات کیوں نہیں گھستی نور کب میری بات کو سمجھو گی تُم آخر کب خود بھی ذلیل ہوتی رہوں گی میری طرح میرا حال دیکھ کر عبرت حاصل کرو تُم پوری زندگی میں نے اپنے بہن بھائیوں کو دے دی دیکھو آج میں کس حال میں ہوں کیوں  نہیں سمجھتی ہو میری بات تُم..."
علی نے اُسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر بولا...
"احسان نہیں کیا کوئی آپ نے اِس حال میں بھی اپنی ہی وجہ سے ہیں آپ اور ہمارا بھی مذاق بناکر رکھ دیا ہے..."
"ایک لفظ اور نہیں دانیال..."
سبحان صاحب نے قہر آلود نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"آپ تو بولیں ہی مت صحیح تو کہہ رہا ہے دانیال دوپہر میں عشرت بھی پوچھ رہی تھی کہ تمہاری بڑی بہو اور بیٹا الگ رہتے ہیں کیا....
سودا لینے کونے پر بنی پرچون کی دُکان پر گئی تو وُہ فیصل بولتا ہے خالہ کیا ہوگیا ہے علی بھائی کیا الگ رہتے ہیں اپکے گھر تو ہفتے ہفتے کا پانچ لیٹر تیل جاتا ہے جبکہ علی کی بیوی پاؤ پاؤ تیل لے کر جاتی ہے دونوں میاں بیوی نے تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے ہمارا...."
شفق خاتون کی زبان میں پھر زہر اُگلا...
"ہاں تو بول دیتیں نہ اُنہیں کہ آپ اِس دُنیا کی سب سے سفاک ماں ہیں جو اپنی ہی اولاد سے نفرت کرتی ہے.."
علی نے آج ہر لحاظ بالائے طاق رکھ دیا...
"سارے فساد کی جڑ یہ نور ہے.."
تانیہ نے نخوت سے کہا۔۔۔
"ہاں سارا گند اِسی کا پھیلایا ہوا ہے.."
دانیال نے اُس کی حمایت کی...
"میں قتل کردوں گا تیرا اگر ایک لفظ اور میری بیوی کے خلاف بولا تو نے..."
علی نے پھر اُسے گریبان سے جالیا دانیال کے ہاتھ بھی علی کے گریبان پر تھے دونوں کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا...
"چھوڑیں اِنہیں میں نے کہا چھوڑیں.."
تانیہ نے دانیال کو چھڑوانے کی کوشش کی...
"تُم دور رہو تانیہ اور نور کے لیے اپنی گندی زبان سے ایک لفظ نہیں نکالنا.."
"نور نور نور...پک گئے ہیں میرے کان یہ سُن سُن کر اتنا بھی کیا دیوانہ ہونا بیوی کے پیچھے کہ بھائی کی جان لینے پر تُل جائے.."
شفق خاتون نے دانیال کے ہاتھ اُس کے گریبان سے ہٹا کر علی کو بُری طرح پیچھے دھکیلا وُہ اِس حملے کے لئے تیار نہیں تھا اُس کا سر دیوار سے جا لگا....
"علی..." نور نے سرعت سے اُسے جاکر سنبھالا...
"مُجھ پر چیخنے والے ہوتے کون ہیں آپ پہلے اپنی بیوی کو سنبھالیں جو سارا دِن چھت پر پڑی پتا نہیں کیا نین مٹکے کرتی..."
تانیہ کے الفاظ اُس کے منہ میں ہی رہ گئے فضا میں تھپڑ کی ایک زوردار گونج اٹھی تھی...
"خبردار ! اپنے کردار پر ایک لفظ برداشت نہیں کروں گی میں.."
نور نے آنکھوں میں بے پناہ نفرت لیے کہا....
"تیری اتنی ہمت..."
تانیہ نے پلٹ کر اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا جسے نور نے پکڑ کر موڑ دیا..
"چُپ ہوں اِس کا مطلب یہ نہیں بولنا نہیں جانتی آئندہ اپنے گٹر ذہن اور غلیظ زبان سے میرے کردار کے اوپر کیچڑ اُچھالنے کا سوچنا بھی مت ورنہ منہ اور یہی ہاتھ توڑ کر دوسرے ہاتھ میں دے دوں گی سمجھ آئی بات..."
نور نے اُس کے ہاتھ کو جھٹکے سے چھوڑا...
"باجی دونوں  میاں بیوی جان سے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں میری بیٹی اور داماد کو اور تُم چُپ کھڑی ہو ارے ایک لگاؤ اِس کے منہ پر..."
زرینہ نے شفق خاتون کے آنکھیں میں جلتی نفرت کی آگ کو مزید ہوا دی...
"سوچیے گا بھی مت امی.."
علی نے نور کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اُسے اپنی پیٹھ کے پیچھے کرتے ہوئے کہا...
"کُچھ غلط نہیں کہا تانیہ ارے جس کی ماں نے شادی شدہ مرد کو پھنسا کر دوسری شادی کی اُس کی بیٹی سے کیا اُمید رکھنا کہاں کہاں منہ کالے..."
"امی بس بس بس۔۔۔۔"
علی تن کر اُن کے سامنے جا کھڑا ہوا اور باقائدہ چیخ کر بولا...
"میری ماں کے بارے میں آپکو کُچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے امی... میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں اِسی لیے ابھی تک آپکو امی کہہ رہی ہوں..."
نور نے پیچھے کھڑے ہوکر روتے ہوئے کہا...
"سچ کڑوا ہی ہوتا ہے یہ تو پورے دِن باہر ہوتا ہے یہ چھت پر کھڑی بھری دوپہر میں پتا نہیں کیا کر رہی ہوتی ہے۔۔"
"شفق اگر اب تُم نے ایک لفظ اور کہا تو کھڑے کھڑے میں تُمہیں طلاق دے دوں گا..."
سبحان صاحب نے اُنہیں پیچھے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا..
"آپ میری بیوی پر اتنی بڑی تہمت نہیں لگا سکتیں امی خدا کا خوف کریں کُچھ تو شرم کریں آپکے بھی بیٹیاں ہے آپ خود بھی ایک عورت ہے..."
علی کا غصّہ حد سے سوا تھا وُہ اپنی حد سے زیادہ برداشت کر رہا تھا صرف اِس لیے کہ کیونکہ سامنے کھڑی اُس عورت نے اُسے جنم دیا تھا...
"خالہ بلکل ٹھیک..."
"منہ بند بالکل بند تانیہ اِس معاملے میں تُم ایک لفظ نہیں بولو گی سُنا تُم نے یہ ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے امی کی طرف سے کسی کے کردار پر لانچھن لگانا بہت سخت گناہ ہے امی میری لاکھ نفرت لڑائی سہی بھائی بھابھی سے مگر یہ الزام ناقابلِ فراموش ہے..."
دانیال نے تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے پیچھے کرتے ہوئے کہا.
"مُجھے کسی سے بھی اپنے کردار کی گواہی نہیں چاہیے میں جانتا ہوں اُسے اور یہ کافی ہے..."
علی نے بے آواز روتی نور کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا...
"بیوی بیوی ایسی اولاد سے تو وہی اچھا تھا میں تُجھے دُنیا میں آنے سے پہلے ہی مار رہی تھی تُو دفع کیوں نہیں ہوجاتا مر کیوں نہیں جاتا صرف تیری وجہ سے مُجھے اِس اِنسان کے ساتھ ساری زندگی گزارنی پڑی جو مُجھے شدید نا پسند تھا شدید ترین..."
شفق خاتون نے علی کو یک بیک کندھے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا جبکہ علی چُپ تھا بلکل چُپ ہر ضرب کے ساتھ اندر سب کرچی کرچی ہورہا تھا...
" ایسی اولاد سے تو وہی اچھا تھا میں تُجھے دُنیا میں آنے سے پہلے ہی مار رہی تھی تُو دفع کیوں نہیں ہوجاتا مر کیوں نہیں جاتا.."
"مُجھ سے اتنی نفرت امی کیوں کیوں..."
اُس کا ذہن ماؤف ہونے لگا تھا ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے...
"دُنیا میں آنے سے پہلے میری زندگی اجیرن کردی تھی تو نے اور آج بھی وہی کر رہا ہے میرے سارے خواب ساری خواہشیں تیری وجہ سے ٹوٹی اور مُجھے اِس اِنسان کے ساتھ ساری عُمر گزارنی پڑی جس کی میں شکل دیکھنے تک کی روادار نہیں تھی..."
شفق خاتون نے چلاتے ہوئے کہا اُن کی آنکھوں سے نفرت ٹپک رہی تھی شدید نفرت سبحان اور علی دونوں  کے لیے..
"شفق میں تمہیں طلاق دیتا ہوں..."
سبحان صاحب کے کہے جانے والے الفاظ نے سب پر سکتا طاری کردیا بشمول شفق خاتون کے...

(جاری ہے)

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now