قسط نمبر ۲
"نور میں نے تُجھ سے کہا تھا کل رات کو میں نے سویرے سلمہ کی طرف جانا ہے میرا لان کا زمرد رنگ شلوار قمیض کو دھو کر سُکھا دیجیو پر نا تُجھ نکمی کام چور سے بس ہڈ حرامی کروا لو..."
عافیہ نے میلے کپڑوں کو گھستی نور کی پیٹھ پر زوردار دهموکا جڑتے ہوئے کہا..
وُہ اپنے نِربل جسم کے ساتھ تڑپ اٹھی..
"کسی کام کی نہیں ہے تُو پورا دن پڑی رہتی ہے بس مفت کی روٹیاں تُڑوا لو کام ڈھیلے کا نہیں کرنا ہر وقت کام نہ کرنے کے حیلے.."
وہ مسلسل اُس کی پیٹھ پر زوردار کچوکے لگا رہی تھی..
"امی میرے ذہن سے نکل گیا بلکل..."
وُہ منمناتے ہوئے بولی تو عافیہ کو مزید تپ چڑھ گئی...
"کھانا ٹھونسنا تو نہیں بھولتی تُو یہ روٹی پر روٹی ڈکار جاتی ہے کام کے وقت تُجھے موت پڑ جاتی کبھی سر درد تو کبھی آنکھ درد کبھی بخار کبھی پیر ٹوٹ جاتا تیرا پتا نہیں کیسی منحوس لڑکی میرے سر ڈال گیا تیرا باپ..."
وُہ روز کا بہی کھاتہ کھول کر بیٹھ گئی...
"امی میں کوئی دوسرا جوڑا استری کردیتی ہوں آپکا کل دوپہر ہی میں نے آپکا وُہ پیازی رنگ والا جوڑا دھویا تھا آپ پر بڑا کھلتا بھی ہے وُہ رنگ.."
وُہ اب خوش آمدیں کرنے لگی ورنہ وہ جانتی عافیہ نے اُسے اُدھیڑ کر رکھ دینا تھا..
وُہ واقعی تھوڑی ٹھنڈی پڑی تھیں..
"اور صفائی کیوں نہیں ہوئی اب تک پورا گھر مٹی میں اٹا ہوا ہے.."
وُہ اب دوسرا رونا لے کر بیٹھ گئی تھی..
"بس امی یہ کپڑے دھو کر صفائی ہی کرنے لگی تھی ناشتہ بنانے میں دیر ہوگئی آپ جاکر آرام سے بیٹھیں میں آپکا ناشتہ لاتی ہوں.."
وُہ مسلسل اُن کا موڈ درست کرنے میں مجتھد تھی...
"بہانے ہی بہانے ہے بس..."
وُہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھ کر اندر چلی گئیں جبکہ وُہ رسی پر لٹک رہے دوپٹے کو سینے پر پھیلا کر اُس سے ہاتھ پونچھتی اُن کے لیے ناشتے تیار کرنے رسوئی کی جانب چل دی..._________________________________________
"یہ لے اماں.."
دانیال نے شفق خاتون کے سامنے تین بِلز پھینکتے ہوئے کہا...
"آگیا یہ بھی مہینے کی شروعات ہوئی نہیں بجلی گیس پانی کے بِل اژدھے کی طرح پھن پھیلائے سامنے آ کھڑے ہوتے.."
وُہ اپنی عینک ڈھونڈنے ہوئے کہہ رہی تھیں...
"پورے سینتیس سو پچاس کا بِل آیا ہے اِس بار اماں اور پانی کا چار سو اور گیس کا بارہ سو اسّی روپے کا.."
اُس نے وقفے سے اُنہیں جھٹکے دیئے...
"ہائے مرگئی یہ سینتیس سو کس خوشی میں بھیج دیا اِن لوگوں نے پورے مہینے ایک فریج اور ٹی وی کے علاوہ چلا ہی کیا ہے پنکھے تو پورے مہینے بند رہے.."
وُہ عینک ناک پر ٹکاتے ہوئے تشویش ناک انداز میں بولیں...
"اماں آپ بھول رہی ہو رات رات بھر بھائی کا کمپیوٹر بھی چلتا ہے.."
اُس نے پاندان سے چھالیہ کے تین چار دانے اُٹھاتے ہوئے کہا...
"آنے دے آج اُسے بات کرتی ہوں کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تو صاحبزادے کی شاہ خرچیاں ہی ختم ہونے میں نہیں آتی.."
ثابت چھالیہ کی گری کو سروتھے نوک پر رکھ کر وُہ اُس کی کمر کو کچوکے لگاکر کُترتے ہوئے بولیں...
"امّاں چھوٹا پان لگا دے نا.."
دانیال نے محبت بھرے انداز میں کہا تو وُہ صدقے واری..
"ابھی لگاتی ہوں.."
کہہ کر گیلے کپڑے میں لپٹے سِلون پان کے چھوٹے ٹکڑے پر وُہ کتھا چونا پوتنے لگیں...
"السلامُ علیکم .."
علی نے کمرے میں داخل ہوکر با آوازِ بلند سلام کیا..
"وعلیکم سلام آگیا محلے کی خاک چھان کر..."
کتھے سے رنگی دونوں اُنگلیاں وُہ اپنے بالوں میں پھیرتی طنزیہ انداز میں گویا ہوئیں...
"فرح ایک گلاس پانی لا دے..."
وُہ موزے اُتارتے ہوئے بولا...
"گھر سے تو ایسے نک سک کے تیار ہوکر نکلتا ہے جیسے سارے ملک کی ملیں باپ را یہی چلا رہا اور واپسی پر وہی مسکین اُتری ہوئی شکل لے کر آجاتا.."
وُہ اُس پر برسنا شروع ہوچکی تھیں..
"امّاں میرا بلکل دِماغ نہیں کہ آپکی طنزیہ باتوں کا جواب دے سکوں شدید تھکا ہوا ہوں مُجھے معاف ہی رکھیں ابھی..."
وُہ باقائدہ اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولا تو شفق خاتون نے اُسے کڑی تیوریوں سے نوازا...
"یہ لے آگئے عذاب اب بھرو اِنہیں.."
اُنہوں نے اپنے سامنے پڑے بِل اُٹھا کر اُس کے سامنے پھینکے جو زمین پر گر گئے وُہ جُھک کر اُنہیں اُٹھانے لگا...
اُس نے سرسری سے نظریں اُن پر ڈالیں اور اُٹھا کر سامنے رکھ دیئے...
"پورے سینتیس سو پچاس روپے کا بِل آیا ہے جبکہ پچھلے پورے مہینے صرف فریج ٹی وی اور جہاں بیٹھے وہاں کی بتیاں جلی ہیں اور فریج تو رات کو سوتے ہوئے بند کردیتی تھی میں پھر کیوں آیا اتنا بِل..."
وُہ اُسے تیکھے چتونوں سے دیکھتی ہوئیں بولیں۔۔۔
"آگیا تو آگیا نا اماں اب کیا کے الیکٹرک کے باہر جاکر دھرنا دوں میں..."
وُہ اِس ہے مطلب کی بحث سے سخت عاجز آگیا تھا زونیہ کی طرف سے پریشانی کم تھی جو یہ سب بھی...
"ہاں آگیا تو آگیا ایسے بول رہا ہے جیسے تیرے باپ کی ملیں چل رہی ہیں کہیں سرکاری ملازم لگا ہوا ہے..."
وُہ مزید سنانے کا ارداہ رکھتی تھیں..
"اماں بس کردے میرا سر ویسے ہی شدید دُکھ رہا ہے مزید نا خراب کر.."
وُہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دباتے ہوئے بعجز بولا...
"ہاں اِسی دِن کے لیے تو اتنا بڑا کیا تھا کھلا پلا کر کہ میں کو بولے گی دماغ نہ خراب کر پوری زندگی نا شوہر نے کوئی سُکھ دیا سوچا تھا اولاد سُکھ دے گی مگر میرا بولنا تو اِنہیں دِماغ خراب کرنا لگتا ہے..."
وُہ بین کرتے ہوئے بولیں...
"عجیب عذاب گھر ہے بندہ کھجل خوار ہوکر گھر آئے تو یہاں الگ ذلالت لکھی ہوتی یہ نہیں کے کوئی دھوپ میں پورے پورے دِن بسوں میں خوار ہوکر آیا ہے کس کے لیے آپ لوگوں کے لئے ہی ناں مگر یہاں فکر کسے ہے ہر کسی کو اپنا آپ سب سے زیادہ مظلوم لگتا..."
وُہ بھی پھٹ پڑا...
"یہی تو سکھایا ہے میں نے ماں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے انداز دیکھ اپنا جیسے غلام ہوں تیری جمعہ جمعہ چار دِن ہوئے نہیں زمین سے اُگے ہوئے اور مُجھ سے آنکھیں ملائے گا لعنت ہے تُجھ جیسی اولاد پر...."
وُہ اب نس نس کر روتے ہوئے بولیں تو علی کو بھی اپنے رویے کی بدصورتی کا احساس ہوا...
"اچھا نا اماں بس سر درد کی زیادتی کے باعث تھوڑا تلخ ہوگیا معاف کردے.."
وُہ اُٹھ کر اُن کے برابر میں بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے اُن کے گرد حصار بناکر محبت سے بولا...
"نوکری کا کیا بنا لگی کہیں پر...؟"
اُنہوں نے بھی اپنا لہجہ بدلتے ہوئے نرمی سے پوچھا...
"کہاں اماں ہر جگہ سفارش چلتی ڈگری کی کوئی اہمیت ہی نہیں اور بولتے ہیں آپکے پاس تجربہ نہیں بھئی تجربہ آئے گا بھی کیسے جب تک ہمیں نوکری نہیں دو گے تو کیسے آئے گا ..."
علی نے یاسیت سے جواب دیا...
"بھائی میرا دوست ہے نا ولید اُس کے ابو کسی ملٹی نیشنل کمپنی جاب کرتے ہیں سافٹ وئیر ڈیپارٹمنٹ میں یعنی آپکی فیلڈ جو ہے تو وُہ کہہ رہے تھے جاب تو لگ جائے گی پر لاکھ ڈیڑھ دینے ہوں گے جو اوپر لوگ بیٹھیں ہیں اُن کو پکی جاب ہوگی اور آپکی کولیفیکیشن کے مطابق تنخواہ بھی لاکھ ڈیڑھ ہوگی.."
دانیال نے چھالیہ کے مزید دانے اُٹھاتے ہوئے بڑی خبر سنائی...
"ہاں تو بات کر اُس کے ابے سے دیکھ علی فرح کے لیے جو زیور رکھا ہے اُس میں سے ایک سیٹ یا چوڑیاں بیچ دیتی ہوں زیور کا کیا ہے نوکری لگ جائے گی تو اور بن جائیں گے دیکھ منع مت کریو دِن بدل جائیں گے ہمارے پھر دیکھ دانیال کی پڑھائی بھی مکمل ہونے والی ہے تو بڑی کمپنی میں ہوگا تو اِس کا بھی کام ہوجائے گا..."
اُنہوں نے اُسے سمجھانے کی سعی کی کیونکہ وُہ جانتی تھیں اپنے اصول پسند بیٹے کو...
حسبِ توقع وُہ ہتھے سے اُکھڑ گیا...
"اتنی محنت سے ڈگری حاصل اِسی لیے تو نہیں کی کہ نوکری کے لیے بھی رشوت دینی پڑے میں صاف کہہ رہا ہوں آئندہ ایسی کوئی بات کم از کم مُجھ سے تو بلکل مت کرنا اور خبردار فرح کے لیے رکھے ہوئی جیولری کو بیچنے کا سوچا بھی..."
وُہ اب اُن سے الگ ہوکر سخت غصّے سے بولا...
"ایسے بڑی نوکریاں مِل گئی تُجھے کما کما کر تھک گیا بیچارہ.."
وُہ طنزاً بولیں...
"امی وُہ مسبب الاسباب ہے انشاءاللہ وُہ ہی کوئی اسباب پیدا کرے گا کیوں نا اُمید ہوتی ہیں دیکھیں اوروں سے اب بھی لاکھ کروڑ گنا اچھے ہیں ہم دو وقت کی روٹی با آسانی مِل جاتی اپنی چھت ہے اچھا پہننے ہیں..."
وُہ متانت سے بولا...
"مگر اللہ بھی محنت کرنے کا حکم دیتا ہے.."
"تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھا ہوں امی اپنی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں باقی اللہ کی مرضی ہے اور اللہ محنت کا حکم دیتا ہے رشوت دینے کا نہیں اُس نے صاف صاف کہا ہے رشوت لینے والا اور "دینے" والا دونوں جہنمی ہیں..."
اُس نے قصداً دینے پر زور دیتے ہوئے اپنی بات مکمل کی...
"زیادہ میرا باپ بننے کی ضرورت نہیں ہے تھوڑی بہت تو چلتی ہے اِس دُنیا میں اب گزارہ نہیں.."
"اماں آپ نے ہی ہمیں یہ سب باتیں سکھائی ہیں اور اب آپ ہی ایسا کہہ رہی ہیں..."
بلاتامل کہا گیا...
"تو کیا کریں بھوکوں مر جائیں یا یہی سسکتی بلکتی زندگی گزارتے رہیں..."
اُن کے لبوں سے شکوہ پھسلا...
"ہم اتنے بھی مظلوم نہیں اماں ہم صرف ناشکرے ہیں.."
وُہ اُن کی سکھائی گئیں ساری باتیں اُنہی کو لوٹا رہا تھا...
"فکر نا کریں پرسوں تک ٹیوشنز کی فیس مِل جائے گی تو بھروا دوں گا سارے بِل..."
وُہ نرمی سے کہتا ہوا اُٹھ کر جانے لگا تو شفق خاتون نے بازو پکڑ کر دوبارہ بٹھا لیا...
"تُو کیا یہاں کھڑی فلم دیکھ رہی ہے جا جاکر بھائی کے لیے کھانا لے کر آ اور چپاتی گرم گرم ڈالنا..."
وُہ روٹھے روٹھے انداز میں اُس کی طرف دیکھ کر بولیں تو علی کو اُن پر بے اختیار پیار آیا...(جاری ہے)