قسط نمبر ۴از قلم
الارم بجنے کی آواز پر اُس نے آلكسی سے اپنی آنکھیں وا کیں کُچھ دیر چھت کو گھورتا رہا جب تک الارم دوبارہ نا بج اُٹھا اُس نے الارم بند کرکے بڑی دقت سے خود کو گرم گرم لحاف کی اُلفت سے آزاد کرتا اُٹھ کھڑا ہوا سردیوں کی صبح لحاف سے نکلنا یوں آسان بھی نہ تھا...
وُہ نہا کر باہر نکلا تو لائٹ چلی گئی مگر شکر تھا کہ اُس نے رات میں فرح سے کپڑے استری کروا لیے تھے...
بلیک شرٹ اور گرے ڈریس پینٹ پہنے اپنی شخصیت کے ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ اُس کا جلوہ ہی الگ تھا یوں بھی سیاہ رنگ اُس کی صاف رنگت پر کافی اُٹھتا تھا دو تین اسپرے پرفیوم کے کرکے اُس نے بالوں کو دوبارہ سیٹ کیا اور تنقیدی نگاہ خود پر ڈال کر مطمئن ہوگیا اور موزے پہننے لگا...
"اُٹھ گیا میں ناشتہ بناتی ہوں تیرے لیے.."
شفق خاتون نے اُس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا..
"اماں دیر ہوجائے گی آکر کھا لوں گا ویسے بھی انٹرویو ہے صرف.."
وُہ اب جوتے ہاتھ میں پکڑے باہر جانے لگا..
"رکھ اِسے اِدھر ہی ناشتے بغیر نہیں جائے گا تو توبہ ہے جس چیز کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں اُسی کے لئے وقت نہیں تو خاک فائدہ خواری کا.."
وُہ علی کی اِن لاپرواہیوں سے سخت نالاں رہتی تھیں..
"امّاں بھول بھی نہیں ہے.."
"چُپ چاپ بیٹھ ایک قدم باہر نہیں نکالنا ابھی ساڑھے ساتھ ابھی بھی نہیں بجے انٹرویو تیرا دس بجے ہے بفرزون سے گلُشن اقبال کا راستہ کوئی آدھے پون گھنٹے کا ہوگا اتنی جلدی پہنچ کر وہاں بٹ کون سا تبرک تو نے لینا ہے.."
اُنہوں نے اُسے اچھی خاصی ڈانٹ پلائی..
"اچھے جلدی لے آئیں پھر.."
وُہ ہار مان کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنے ڈاکومنٹس کو پھر سے دیکھنے لگا...
اُن کی واپسی پندرہ منٹ بعد ٹرے میں ہالف فرائی انڈہ اور توے پر سینکے ہوئے ٹوسٹ اور چائے کی پیالی سجائے ہوئی..
"یہ لے اور سکون سے ناشتہ کر جلدی جلدی بغیر چبائے نیچے اُتارنے کی ضرورت نہیں.."
کہہ کر وُہ اُس کے کمرے کو سمیٹنے لگی وُہ اس معاملے میں خاصا لا پرواہ تھا..
"میں کرلوں گا آکر آپ رہنے دو یار.."
علی نے ٹوسٹ کا ٹکڑا چائے کے گھونٹ کے ساتھ حلق سے نیچے اُترتے ہوئے کہا۔۔۔
وُہ بغیر جواب دیے کام کرتی رہیں علی نے بھی دوبارہ نہیں بولا کیونکہ وُہ اُسے پتا تھا اُنہیں پھیلاوے سے کتنی چڑ تھی..
"ہاں یاد آیا آپ بتا رہیں تھیں فرح کے رشتے کا کُچھ کیا ہوا اُس کا.."
اُس نے سرسری سے انداز میں پوچھا...
"ہاں خوب یاد دلایا یہ بھی بات کرتی ہوں عظمیٰ سے آج..
کہہ رہی تھی اگلے ہفتے دیکھنے آنا ہے اُنہوں نے پسند تو آگئی ہے اُنہیں ہماری فرح لڑکا بھی اچھا ہے عظمیٰ بتا رہی تھی اکلوتا ہے اور لاکھ ڈیڑھ سے اوپر تنخواہ ہے بینک میں جاب کرتا ہے اپنی گاڑی ہے ڈیفنس میں اپنا اپارٹمنٹ بھی ہے چھ کمروں کا دکھنے میں خوش شکل ہے بظاھر تو سب ٹھیک ہے باقی اللہ بہتر جانتا بس جو بہتر ہو اللہ وہی کرے.."
اُنہوں نے متانت سے کہا...
"انشاءاللہ امّاں اللہ سب ٹھیک کرے گا.."
"اگر فرح کی بات بن گئی تو تیری بھی ساتھ ہی کردوں گی اچھا ہے نا ایک ساتھ دو نپٹ جائیں گے دو تین لڑکیاں ہیں میری نظر میں.."
اُنہوں نے سادہ سے انداز میں کہا مگر اُس نے مضطرب ہوکر پہلو بدلا...
"ابھی صرف فرح کا سوچیں آپ میرا ابھی کیا ہے جاب تو مِل جائے ڈھنگ کی.."
اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا..
"آج نہیں تو کل مِل ہی جائے گی انشاءاللہ اور ویسے بھی رزق تو عورت کے نصیب کا آتا ہے.."
وُہ بھی اُسی انداز میں بولیں..
"مگر میں نے ابھی نہیں کرنی شادی .."
وُہ اب جھنجھلا کر بولا..
"کیوں نہیں کرنی ایک تو ویسے ہی اتنی عُمر نکال دی ہے اٹھائیس کا ہورہاہے تیرے تو دوستوں کے تو دو تین بچے ہوگئے ہیں.."
اُنہوں نے اُس کی جھنجھلاہٹ کو خاطر میں لائے بغیر کہا...
"ہاں تو اُن کے پاس اچھی نوکریاں ہیں.."
"مُجھ سے تو جھوٹ مت ہی بولیو جیسے میں تو جانتی نہیں کس میسنی کے پیچھے اپنی جوانی برباد کر رہا دیکھ بیٹا یہ امیر زادیاں غریبوں سے دوستیاں تو کرسکتی ہیں مگر شادی نہیں شادی انہوں نے کرنی وہی اپنے ہی جیسے امیر چاچے مامے یا ماں باپ کے دوست کے بدصورت لڑکوں سے کرنی اور دوسرے ملک دفعان ہوجانا..."
اُنہیں زونیہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں بقول اُن کے "پھیکی شلجم" بے نور چہرے والی..
"اچھا امّاں بس.."
اُس نے ہاتھ اُٹھا کر انہیں ٹوک دیا..
"آج تو میرا منہ بند کروا رہے ہے کل کو جب وہ واقعی ایسا کرے گی نا تب عقل آنی تُجھے بد عقلے.."
وُہ گہرا سانس لے کر تاسف سے بولیں...
"اب میں چلتا ہوں دیر ہوجائے گی ورنہ.."
وُہ اُٹھتے ہوئے بولا اور ہاتھ دھو کر جوتے اٹھائے کمرے سے نکل گیا ...وُہ بھی اُس کے پیچھے ہولیں..
"رُک اِدھر ایک منٹ..."
اُنہوں نے جوتے پہنتے علی سے کہا تو وہ کھڑا ہوکر سامنے آگیا..
اُنہوں نے دعائیں پڑھ کر پھونکی اور اُس کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں...
"ساتھ خیریت سے جا ساتھ خیریت سے آ اللہ کامیاب کرے میرے بچے کو.."
"خُدا حافظ اماں.."
وُہ دعائیں لے کر رخصت ہوگیا...
"اللہ کی امان میں.."
وہ پیچھے سے بولیں..
"یا اللہ میرے اِس بچے کا دِل مت ٹوٹنے دینا میں ماں ہوں جانتی ہوں باہر سے جتنا مضبوط بن جائے مگر بہت معصوم ہے میرا بچہ بس سب خیر کرنا میرے مالک.."
اپنی دُعا کے آخر میں خود آمین کہتے ہوئے اُنہوں نے نظروں سے اوجھل ہونے کا تک اُس کی بائک کا پیچھا کیا تھا پھر کنڈی لگا کر واپس مڑ گئیں...