قسط نمبر ۲۷

1.3K 85 23
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۷
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

شادی میں صرف ایک سے ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا تھا روز مہمانوں کا آنا جانا اُن کی آؤ بھگت نے اُسے بُری طرح تھکا ڈالا تھا علی چاہے لاکھ اُسے منع کردیتا مگر وُہ بھی نور تھی اپنے نام کی ایک ہی مجال ہے اُسے چین آجائے...
فرح بھی شادی کے لیے واپس آگئی تھی..
"امی چالیس ہزار روپے کا صرف نکاح کا جوڑا بہت مہنگا نہیں ہے باقی ساری چیزیں بھی ہیں اگر اتنے مہنگے مہنگے کپڑے لیں گے اُس نواب زادی کے لئے تو ہوگیا کام علی بھائی نے ذمے داری لی ہے تو اِس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ناں کہ آپ لوگ اُن پر اتنا بوجھ ڈال دیں کہ اُن کی کمر ہی ٹوٹ جائے..."
فرح نے ناگواری سے کہا وُہ ہمیشہ سے علی سے زیادہ قریب رہی تھی اور تانیہ یوں بھی اُسے خاص پسند نہیں تھی...
"تمہیں کیا مسئلہ ہے تُم سے یا تمہارے شوہر سے تو نہیں مانگے ناں بھائی ہے وُہ میرا..."
دانیال نے بگڑتے ہوئے کہا...
"اتنے ہی چسکے جاگ رہے ہیں تو اپنے پلے سے پہناؤ اُس نواب زادی کو پھر بھلے سے لاکھوں کا پہناؤ کوئی کُچھ نہیں کہے گا تُمہیں مگر بھائی پر اتنا بوجھ تو مت ڈالو اُن کے بھی کل کلاں کو بچے ہوں گے فیملی بڑھے گی تو کُچھ رحم کھائیں اُن پر مانا کہ وُہ افف نہیں کریں گے اور خوش قسمتی سے نور بھابھی بہت اچھی ہیں ورنہ اگر اُن کی جگہ کوئی اور ہوتی تو قطعی بھائی کو اتنی بڑی ذمے داری اٹھانے نہیں دیتی شکر مناؤ تُم.."
اُس نے دانیال کو اچھی خاصی ڈانٹ پلائی..
"تیرے دِل میں بڑی ہمدردی جاگ رہی ہے بھاوج کی.."
شفق خاتون نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے کہا..
"جہاں تک رہی میری نوکری کی بات وُہ ہوگئی ہے اگلے مہینے سے جاؤں گا اور بھائی سے زیادہ تنخواہ ہوگی میری کیونکہ اُن کی طرح قدامت پرست اِنسان نہیں ہوں میں کہ بے ایمانی نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ..."
اُس نے نخوت سے کہا...
"اور رشوت دینے کے لئے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس
یقیناً بھائی کے شادی کے پیسوں میں سے ڈنڈی مارے ہوم گے تُم نے.."
فرح کا انداز ایسا تھا جیسے اُسے پورا یقین ہو اِس بات کا...
"وُہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے.."
دانیال نے اُسے جھڑکا...
"ویسے امی آپ بہت ناانصافی کر رہی ہیں آپ نے دونوں بیٹوں کو برابر نہیں رکھا نور بھابھی کے لیے اپنے بمشکل دس پندرہ ہزار کا جوڑا لیا تھا ہلکا سا اور اِس بندریا کے لئے چالیس ہزار کا زیور کے نام پر آپ نے صرف ایک سونے کا سیٹ وُہ بھی کھوٹ والا اور دو ہلکی چوڑیاں اور اِس کے لئے تین سیٹ چھ چوڑیاں چین بالیاں لونگ اور اب آپکی نظر بھابھی کے میکے سے ملی جیولری پر ہے..."
اُس کا انداز شرم دلانے والا تھا...
"تمیز سے بات کر بھابھی ہے تیری ہونے والی.."
شفق خاتون نے اُسے ڈپٹ دیا...
"میری جوتی کرتی ہے اُس کی عزت مُجھے تو ایک آنکھ نہیں پسند وُہ اوور کہیں کی اور بھئی مُجھے کُچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے گھر کی ہوں زیادہ کیا تو شادی میں نہیں آؤں گی پھر دیتے رہیے گا رشتے داروں کو جواب آپ دونوں.."
اُس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا...
"واہ شادی کیا ہوئی اِس کے تو پیر ہی زمین پر نہیں ٹک رہے اماں.."
دانیال نے طنز کیا...
"کیونکہ میں آپ لوگوں کی طرح بے حس اور سفاک نہیں ہوں پتا نہیں کیسی ماں ہیں آپ امی اپنے اُس بیٹے کا کی خیال ہی نہیں جس نے اپنی آدھی زندگی آپ لوگوں کے پیچھے رول دی آج جو میں اتنے مان کے ساتھ سسرال میں رہ رہی ہوں ناں صرف علی بھائی کی وجہ سے آپ کیا جانیں اندرونے خانہ اُنہوں نے میرے لیے کیا کیا کِیا ہے مگر وہ تو ابھی تک آپ لوگوں میں ہی پھنسے ہیں اپنے بارے میں نجانے کب سوچیں گے میں خود بات کروں گی بھائی سے..."
فرح نے دِل گیر انداز میں کہا...
"ہاں میں بچوں میں فرق کر رہی ہوں یہی تو رہ گیا تھا سُننے کو مُجھے موت کیوں نہیں آگئی یہ سُننے سے پہلے بڑی ہمدرد دواخانہ بنی ہوئی ہے تو اُس نور کی جب سے آئی ہے گھسی رہتی ہے اُسے کے ساتھ.."
"امی بس اب یہ ڈرامے نہ شروع کردیجئے گا میں مر کیوں نہیں گئی, کہاں ہے میرا دوپٹہ لاؤ میں نے نہیں رہنا اِس گھر میں وغیرہ اب آپ کی عمر نہیں یہ حرکتیں کرنے کی سنجیدگی سے سوچیں..."
وُہ بد تمیزی سے بولی۔۔۔
"نہیں کونسا فرق کردیا میں نے بتا مُجھے تُو.."
"فرق کی بات کرتی ہیں آپ کبھی خود سے پوچھئے گا آخر آپ نے کب علی بھائی کو اِنسان سمجھا ہے آپ نے بس اُنہیں ایک اے ٹی ایم مشین کی طرح استعمال کیا ہے اُن کی تکلیف کا کوئی احساس یہی حشر اُن کی بیوی کے ساتھ کر رہے پتا آپ کے لیے ناں زونیہ ہی ٹھیک تھی جو تگنی کا ناچ نچاتی سب کو نور بھابھی اور علی بھائی دونوں ہی ایک جیسے بس گھر اور گھر والے اپنے بارے میں سوچنا ہی نہیں مگر میں آپکو بتا رہی ہوں امی اگر آپ نے انصاف نہیں رکھا اولادوں میں تو آپ علی بھائی کو کھو دیں گی اور پھر آپ کُچھ کر بھی نہیں پائیں گی.."
"اُونہوں میں جانتی نہیں جیسے اپنی اولاد کو.."
اُنہوں نے فرح کی بات ہوا میں اُڑائی...
"افسوس کی بات ہے امی بہت افسوس کی چلیں نور بھابھی تو ماں باپ کے نہ ہوتے ہوئی رُلی تھیں مگر میرا بھائی تو سب ہوتے ہوئے یوں ہی خوار ہورہاہے پچھلے بارہ سالوں سے.."
"آئی بھابھی..."
وُہ متاسفانہ انداز میں کہتی ہوئی نور کی آواز پر اُس کے کمرے کی طرف چل دی...

محبت ہوگئی آخرحيث تعيش القصص. اكتشف الآن