#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۱۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپاکمرے میں آکر اُس نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور اوپر کے تین بٹن کھولتا بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بے ترتیب سا لیٹ گیا....
"جب وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہے تو کیوں مُجھے اُسے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر کیوں مُجھے رنج ہوتا ہے وُہ بہت آگے نکل چُکی ہے میں کیوں وہیں کھڑا ہوں اب تک کیوں..؟؟"
وُہ مسلسل خود سے سوال کناں تھا آج پورے دو ہفتوں بعد اُس نے دوبارہ زونیہ کو دیکھا ہی نہیں تھا صرف بلکہ اُس نے خود اُس سے بات بھی کی تھی..
چند منٹوں پہلے کی ملاقات اُس کے ذہن پر جیسے نقش ہوکر رہ گئی تھی...
"علی رُکو.."
اُس نے گلی کے کونے سے موڑ کاٹتے علی کو پکارا...
وُہ آج بھی مجبور اور بے بس تھا اُس کے سامنے چار ناچار اُس نے بائک کو بریک لگائے...
"تو تُم نے حقیقت میں اُس گنوار سے شادی کرلی میں تو سمجھتی تھی کہ تُم مُجھ سے بہت سچی محبت کرتے تھے.."
اُس کا انداز حظ اڑاتا تھا وُہ اُس کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کا ارادہ رکھتی تھی...
"تُم اب کسی کی بیوی یہ باتیں اب تُمہیں زیب نہیں دیتیں.."
علی نے تا بمقدور لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی...
"اور تُم مُجھے زیب نہیں دیتے تھے...کیا دیتے تھے..؟"
اُس نے طنز کا تیر اُچھالا...
علی چُپ رہا...
"ویسے اتنی چھوٹی بیوی مِل گئی تُمہیں کہاں تُم تیس کے قریب اور وُہ نوخیز کلی شکل کی اچھی خاصی ہے پتا نہیں اُس نے تُم میں کیا دیکھ لیا شاید شکل ہی دیکھی ہوگی تمہاری اُس کے علاوہ اور ہے ہی کیا تمہارے پاس.."
انداز نہایت تحقیر آمیز تھا...
وُہ کُچھ سخت کہنے کے بجائے وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا کہ اپنی طرف آتے آدمی کو دیکھ کر رُک گیا زونیہ بھی اب اُس کی طرف متوجہ ہوچکی تھی..
"ہاشم یہ علی ہیں اُنہوں نے مُجھے اپنی بہن بنایا ہوا ہے بس حال چال پوچھنے رُک گئے آپ لے آئے اپنا موبائل گھر سے..؟"
اُس نے بڑا کرارا وار کیا تھا علی بے یقینی سے بس اُسے دیکھتا رہ گیا ...
"السلامُ علیکم.."
مقابل خوش اخلاق تھا علی نے ہاتھ تھام کر سلام کا جواب دیا...
"کُچھ مصروفیات کی وجہ سے میں شادی میں شرکت نہیں کرسکا سوچا ابھی مبارک باد دے دوں.."
وُہ اب بھی اُس کا پردہ رکھ رہا تھا اسے ذلیل و خوار کرنے والی اُس لڑکی کی عزت اُسے آج بھی اہم تھی۔۔
"مُجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی.."
ہاشم نے خوشدلی سے کہا...
"علی بھائی بھابھی کو لے کر ضرور آئے گا ہمارے گھر کیوں ہاشم؟؟"
وُہ آج اُسے مار ڈالنے پر تُلی ہوئی تھی گویا....
"انشاءاللہ.."
اُس نے بڑی دقت سے کہا تھا...
"علی آپ ٹھیک ہیں.."
اُس کی سوچوں میں مخل نور کی آواز سے پڑا تھا اُس نے جھٹ آنکھیں کھول دی وُہ اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کر رہی تھی....
"بخار تو نہیں ہے آپکو چلیں چائے پی لیں سکون ملے گا تھوڑا اُس کے بعد نہا لیجئے گا طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا میں جب تک آپکے کے لئے چپاتی ڈال دیتی ہوں.."
اُس نے علی کے گلے سے ٹائی نکالتے ہوئے نرمی سے کہا...
"علی اُٹھ جائیں ایسے لیٹے رہیں گے تو مزید درد بڑھے گا چائے ٹھنڈی ہورہی ہے..."
اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کیے علی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وُہ جھنجھلا کر اٹھ کر بیٹھ گیا..
"یہ لیں چائے.."
نور نے کپ اُسے پکڑایا۔۔۔
"ٹراوزر ٹی شرٹ پہنیں گے یا پینٹ اور ٹی شرٹ.."
اُس نے اپنا دوپٹہ اتار کر بیڈ پر ڈالا اور الماری کی طرف بڑھ گئی...
"کچھ بھی نکال دو یار.."
وُہ چڑ چڑے پن سے بولا...
نور نے بلیک ٹراوزر اور ریڈ شرٹ نکال کر واشروم میں ٹانگ دی...
"آپ نہا لیں میں نے آپکے کپڑے واشروم میں رکھ دیے ہیں جب تک میں کھانا لے آتی ہوں.."
وُہ کہہ کر کمرے سے چلی نکل گئی...
اُس نے جلدی سے فریج سے گوندا ہوا آٹا نکالا اور پیڑے بنانے لگی...
"بھابھی میرے لیے چاول اُبال دیں پلیز.."
دانیال نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہوکر نظریں ہاتھ میں پکڑے موبائل پر جمائے کہا...
"ٹھیک ہے بھائی.."
اُس نے متانت سے کہا اور بیلی ہوئی روٹی توے پر ڈال دی...
چار چپاتی بنانے کے بعد اُس نے چولہا ہلکا کرکے چپاتیاں روٹی میں لپیٹی اور چاولوں کے لیے پانی گرم کرنے رکھ کر ٹرے اٹھائے کچن سے باہر آگئی...
وُہ کمرے میں داخل ہوئی تو علی بیڈ پر بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا...
اُس نے ٹرے بیڈ پر رکھی اور خود بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی...
نور نے ایک نظر اُسے دیکھا وُہ کافی بڑھی ہوئی شیو گیلے بالوں کے ساتھ اُسے ہمیشہ کی طرح جاذبِ نظر لگا اُس کی سانولی سنہری رنگ پر لال رنگ ویسے ہی بہت اُٹھتا تھا...
"آپی اور زبیر بھائی پوچھ رہے تھے ہم لوگ کب گھومنے جائیں گے..؟"
اُس نے بات کا آغاز کیا..
"تو تُم نے کیا بولا..؟"
اُس نے سوال کیا..
"میں نے یہی کہا کہ یہ تو علی کو پتا ہے.."
اُس نے غیر محسوس انداز میں اُس کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئی تھی وہ دونوں ایک ہی چپاتی سے لقمے توڑ رہے تھے...
"ہمم" اُس نے ہنکارا بھرا...
"آپ تھوڑی دیر بیٹھ جاتے اُن کے ساتھ اُنہیں اچھا لگتا بھائی اور آپی کافی دیر سے اکیلے بیٹھے تھے نہ دانیال بھائی گھر پر تھے نہ ابو میرے خیال سے اُنہیں بُرا لگا ہوگا.."
نور نے نارمل انداز میں کہا جبکہ علی کا نوالہ توڑتا ہاتھ رُکا جسے نور نے بغور دیکھا تھا...
"تُمہیں اپنے بھائی اور آپی کی فکر ہے شوہر کی طبیعت خرابی سے تُمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا.."
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا..
"نہیں علی میں نے صرف ایک بات کی ہے کہ گھر میں سے کوئی بھی بیٹھا تھا اُن کے ساتھ آپ بس تھوڑی دیر بیٹھ جاتے.."
"تُم کہنا کیا چاہتی ہو کہ گھر میں سے کوئی نہیں بیٹھا تُم مُجھے ٹرگر کرنے کی کوشش مت کرو نور میں نے تمہیں پہلے ہی بتادیا تھا کہ مُجھ سے میرے گھر والوں کے متعلق کوئی شکایت مت کرنا ابھی شادی کے دس دِن بھی نہیں ہوئے تُمہیں میرے گھر والوں سے شکایتیں شروع ہوگئیں صاف لفظوں میں تمہیں بتادیا تھا کہ تُم اِس گھر میں امی کی خواہش پر آئی ہو اور اُن کی ہر بات سننا تمہارا اولین فرض ہونا چاہیے..."
اُس نے درشتگی سے اُس کے حیرت کدہ چہرے کو دیکھ کر کہا...
"میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا علی میں نے صرف ایک بات کی تھی.."
اُس نے مضبوط لہجے میں فوراً جواب دیا...
"لے جاؤ اِسے میرا پیٹ بھر گیا ہے.."
اُس نے ٹرے سائڈ پر کرتے ہوئے کہا..
"آپ مُجھ پر غُصّہ ہیں مُجھ پر نکالیں کھانے سے کیسی ناراضگی آپ نے آدھی روٹی بھی نہیں کھائی ویسے بھی آپکے سر میں درد ہورہاہے کھانا کھا کر دوائی لے کر تھوڑی دیر سوجائیں پھر آپکو ٹیوشنز کے لئے بھی جانا ہے..."
اُس نے اٹھتے ہوئے کہا...
علی نے پھر مزید کُچھ کہے ٹرے دوبارہ اپنی جانب کھسکا لی...
"میں دیکھ کر آتی ہوں چاولوں کے لیے پانی رکھا تھا ہوگیا ہوگا.."
اُس نے علی کی طرف دیکھ کر کہا جس نے نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اور وہ اُمید کر رہی تھی کہ وہ اُسے اپنے ساتھ کھانا کھانے کو کہے گا۔۔۔
وہی یاسیت سے مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی..._________________________________________
"بھابی میرے چاول بن گئے..؟"
دانیال نے اُسے لاؤنج میں آتے دیکھ کر پوچھا...
"جی بس دس منٹ.."
جواب دے کر وُہ سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئی..
"نور رات کے کھانے میں میرے لیے پھرکی والی کھچڑی بنا دینا.."
شفق خاتون نے کمرے میں داخل ہوتے حکم صادر کیا...
"جی ٹھیک ہے امی.."
وُہ فوراً سے سمٹ کر بیٹھتے ہوئے بولی شفق خاتون اُس کے برابر میں آکر بیٹھ گئیں..
"السلامُ علیکم امی.."
علی نے دانیال کے ہاتھ سے ریموٹ لیتے ہوئے کہا...
"وعلیکم اسلام کب آئے بیٹا.؟"
"ابھی آدھا گھنٹہ ہوا ہے۔۔۔"
"بھائی وُہ آپ گاڑی کے پاس کھڑے کس آدمی سے بات کر رہے تھے اور شاید ساتھ میں وُہ عرفان بھائی کی بیٹی بھی کھڑی تھی..."
دانیال نے جان کر پوچھا تھا چڑانے کی خاطر مگر وُہ اس بات سے انجان تھا کے نور علی اور زونیہ کے رہ چکے تعلق سے انجان نہیں تھی...
اُس کی نظریں بے اختیار علی کی جانب اُٹھی تھیں علی نے بھی اُسے دیکھا تھا مگر وہ نظریں چُرا گیا...
"تُمہیں کس نے کہا ہے میرے جاسوسی کرو اور کوئی کام نہیں کیا.."
علی نے اُسے ڈپٹ دیا...
"میں کیوں کروں گا آپکی جاسوسی بھائی وُہ تو میں رافع کے ساتھ جارہا تھا تو گلی کے کونے سے گزرتے ہوئے آپکو دیکھا تو پوچھ لیا ایسے ہی.."
اُس نے فوراً بات بنائی..
"تُو زونیہ سے مِلا تھا..؟"
شفق خاتون نے ترچھی نظروں سے اُسے دیکھا..
"بس وُہ اور اُس کا شوہر مِل گیا تھا سلام دُعا کی بس."
وُہ صاف کترا رہا تھا نور کی موجودگی اُسے اپنی ہی نظروں میں شرمندہ کر رہی تھیں..
"تُو یہ آپکے خراب موڈ اور سردرد کی وجہ..."
نور نے دِل میں کہا...
"میں آتی ہوں ذرا کچن سے.."
نور نے راہِ فرار ڈھونڈی اور جلدی سے چلی گئی...
علی کی نظروں نے اس کا کمرے سے باہر چلے جانے تک پیچھا کیا تھا..
"عقل وقل ہے کہ کون سی بات کہاں کرنی ہے.."
وُہ دانیال اور چراغ پا ہوا..
"اچھا نا بس اور ویسے بھی اُسے کیا پتا تیرے اور اُس زونیہ کا.."
شفق خاتون نے فوراً دانیال کی حمایت کی..
علی کو احساس شرمندگی نے گھیر لیا تھا وُہ فطرتاَ ایک بہت حساس اِنسان تھا اور نور کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کیونکہ وُہ خود اِس درد سے گزر رہا تھا زونیہ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر..._________________________________________
"اب کیوں رنج کرتی ہو نور یہ تمہارا اپنا ہی تو فیصلہ تھا سب تُم شروع سے جانتی تو تھی.."
وُہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی خود سے سوال کناں تھی علی ٹیوشن کے لئے جاچکا تھا...
"آسان نہیں ہے ایسے مرد کے دِل میں جگہ بنانا جس کے دِل میں پہلے سے کوئی اور ہو.."
کہیں اندر سے آواز آئی تھی...
"مشکل بھی نہیں ہے بس تھوڑا وقت لگے گا."
اُس نے خود کو تسلی دی..
وُہ اپنے فیصلوں پر پچھتانے والوں میں سے نہیں تھی ...
"وُہ میرے شوہر ہیں اُس لڑکی سے اُن کا کوئی رشتہ نہیں ہے مگر مُجھ سے ہے... نکاح میں ہوں میں اُن کے سارے اختیارات رکھتی ہوں اُن پر اور اِس رشتے میں تو بہت طاقت ہوتی ہے مُجھے بھی پورا یقین ہے علی کہ آپکو مُجھ سے محبت ضرور ہوگی.."
اُس نے مصمم ارادے سے سوچا...(جاری ہے)