#محبت_ہوگئی_آخر
آخری قسط
(آخری حصہ)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"نمرہ بھائیوں کو فون کر جلدی..."
سبحان صاحب نے شفق خاتون کو ہوش میں لانے کی۔کوششیں کرتے ہوئے کہا...
"ابو دونوں میں سے کوئی فون نہیں اُٹھا رہے.."
اُس نے روتے ہوئے کہا..
"بھابھی کو کرتی ہوں.."
نمرہ نے خود سے کہا اور نور کو فون لگانے لگی مگر وہ تو اپنا موبائل کمرے میں ہی چھوڑ کر گئی تھی نمرہ دوبارہ علی کو کال ملانے لگی....
"علی کب سے آپکا فون بج رہا ہے..."
نور نے تیز بائک چلاتے علی سے کہا مگر وُہ ایسے بن گیا جیسے سُنا ہی نہیں فون بچ بج کر بند ہوگیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد پھر بجنے لگا...
"روکیں بائک میں نے کہا علی روکیں ورنہ میں چلتی بائک سے اُتر جاؤں گی..."
اُس نے دھمکی دی جو کارگر ثابت ہوئی علی نے چار نا چار بائک سائڈ میں روک دی اور اُسکی جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگالیا...
"دوسری طرف کون تھا کیا کہہ رہا تھا علی کو نہیں پتا تھا مگر اُس کا چہرے پر پھیلتا کرب علی کو بے چین کرنے لگا...
"ہم ابھی آرہے ہیں نمرہ تُم رو مت کُچھ نہیں ہوگا امی کو..."
وُہ خود بھی روتے ہوئے بولی...
"کیا ہوا امی کو نور..."
علی کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی....
"امی کی طبیعت بہت خراب ہوگئے ہے وُہ بےہوش ہوگئیں ہیں مسلسل کوشش کرنے کے باوجود ہوش میں نہیں آرہی ہیں.."
وُہ کانپتی آواز میں بولی تو علی کو اپنے پیروں سے جان نکلتی محسوس ہونے لگی....
"اِس سے اچھا تو بن ماں کے ہوتے..."
اپنے کہے الفاظ گونجتے سنائی دے رہے تھے اُس میں اتنی ہمت تک نہ تھی کے بائک چلا سکتا...
"علی کو خود کو سنبھالیں آپ امی کو کُچھ نہیں ہوگا پلیز خود کو سنبھالیں گھر چلیں..."
اُس نے علی کا ہاتھ تھام کر کہا تو وہ جیسے ہوش میں آیا اپنی تمام تر ہمت متجمع کرکے اُس نے بائک اسٹارٹ کرکے واپسی کے راستے پر ڈال دی...
"میں نے دِل سے نہیں کہا تھا اللہ تو جانتا ہوں.."
وُہ دِل میں بولا....
اگلے پانچ منٹ میں علی نے بائک گھر کے سامنے روکی دانیال بھی اُسی وقت پہنچا تھا وُہ تینوں اُوپر کی طرف بھاگے....
جہاں منظر ہی الگ تھا سبحان صاحب شفق خاتون سے کُچھ دور بیٹھے بے یقینی کے عالم میں اُنہیں دیکھ رہے تھے نمرہ شفق خاتون کے ساتھ بیٹھے رو رہی تھی...
"بھائی امی کی سانسیں نہیں چل رہیں امی ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں...
"نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.."
علی فوراً زمین پر بیٹھتے ہوئے شفق خاتون کو اُٹھایا...
"امی آنکھیں کھولیں مُجھے معاف کردیں میں نے دل سے نہیں کہا تھا امی مُجھے معاف کردیں.۔۔"
دانیال نے اُن کو چہرہ تھپکتے ہوئے کہا...
علی نے اُن کی نبض اور سانسیں چیک کی تو وہ نہیں چل رہیں تھی...
"امی نہیں امی نہیں ہمیں آپکی ضرورت ہے ہم آپ کے بغیر کُچھ نہیں ہیں ہمیں ماریں بہت ماریں چھوڑ کر مت جائیں امی..."
علی نے شفق خاتون کے چہرے کو دیوانہ وار چومتے ہوئے کہا...
"بھائی امی کو ہسپتال لے کر چلیں اِنہیں کُچھ نہیں ہوگا امی ایسے نہیں جاسکتی ہم سے ناراض ہوکر نہیں جاسکتیں نہیں جا سکتیں.."
وُہ دونوں اُن کے بے جان وجود کو حرکت میں لانے کی مسلسل کوششیں کر رہے تھے...
"میں نے ایمبولینس کو فون کردیا ہے بھائی۔۔"
نمرہ نے بمشکل کہا..
"مرگئی تُم لیکن میں کیوں زندہ ہوں شفق کیوں..؟"
سبحان صاحب خالی الذہنی کی کیفیت میں خود سے بولے...
"اللہ ایسا نہیں کرسکتا جب میں نے کہا تھا کہ ہم بن ماں کا ٹھیک تھے وُہ وقت دوبارہ لے آ اللہ میں اپنے الفاظ واپس لے لوں گا مُجھے میری ماں چاہئے واپس بھائی امی چلی گئیں بھائی..."
دانیال نے علی کے گلے لگ کر بُری طرح روتے ہوئے کہا مگر وقت تو گزر چُکا تھا اب اُنہیں صرف پچھتانا تھا شاید ...
"نور نے اُن کے سینے پر سر رکھ کر دھڑکنیں سنیں تو اُسے خود کا دل پھر دھڑکتا پھر محسوس ہونے لگا....
"علی امی کی دھڑکنیں چل رہی ہیں ( جو بہت مدھم تھیں)۔۔۔"
نور نے سب کو زندگی کی نوید سنائی..
"امی کی نبض بھی چل رہی ہے اب.."
علی نے روتے ہوئے کہا..
"بھائی ایمبولنس آگئی ہے.."
سائرن کی آواز سُن کر نمرہ نے کہا...
علی نے شفق خاتون کو گود میں اُٹھایا اور تیز تیز سیڑھیاں اُترنے لگا...
"بھائی آپ امی کے ساتھ جائیں میں پیسے لے کر آتا ہوں..."
"ٹھیک ہے.."
علی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا...
"کُچھ نہیں ہوگا امی کو بھائی آپ حوصلہ رکھیں.."
نور نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور وُہ سبحان صاحب علی ایمبولنس میں بیٹھ کر چلے گئے..
"دانیال اپنے کمرے میں آیا تو تانیہ اپنا سامان باندھ رہی تھی...
اُس نے پیسے نکالتے وقت ایک ترحم بھری نگاہ اُس پر ڈالی اور باہر جانے لگا مگر پھر رُک کر پلٹا اور دھیمی آواز میں بولا...
"جو چاہو لے کر جاسکتی ہو..."
بس اتنا کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا...
"کاش آپکو لے کر جاسکتی..."
تانیہ نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے خود سے کہا اور اپنے گھر کال ملانے لگی..