#محبت_ہوگئی_آخر
آخری قسط
(حصہ دوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"اِس بیہودہ لڑکی کی وجہ سے تمہارے اور علی کے بیچ لڑائی ہوئی تھی نور.."
شفق خاتون اور وُہ کمرے میں داخل ہوئے تو پوچھا...
"غلط فہمی ہوگئی تھی امی میری عقل پر پتھر پڑ گئے تھے مُجھے دکھا ہی نہیں کُچھ بھی ذہن ماؤف ہوگیا تھا بلکل..."
اُس نے برقعے کے بٹن کھولتے ہوئے کہا...
"جس سے محبت ہوتی ہے اُسے لے کر اِنسان اتنا ہی جنونی ہوتا ہے ہونا بھی چاہیے اپنے حق کے لئے بولنا چاہئے.."
شفق خاتون نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"ہر رشتے کی اساس اعتبار ہے محبت کو اگر اعتبار کا آب نہ ملے تو وہ مر جاتی ہے
محبت کو بار بار تذلیل ملے تو وہ مرجاتی ہے
نور جسے آپ چاہتے ہوں اُس پر بھروسہ پورا رکھنا چاہیے یہ سوچے بغیر وفا ملے گی یا دغا ہمیں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں رکھنی چاہئے ہر شخص کے نزدیک محبت کی تعریف مختلف ہوتی ہے۔۔۔ جب ہم محبت کو 'رشتوں' سے جوڑتے ہیں تو میرے خیال میں محبت کی بجائے 'خلوص' کو بنیاد کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔جس پر محبت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔۔۔۔
کسی بھی رشتے کے جڑنے میں 'خلوص' بنیاد ہے تو 'تحمل، برداشت ، باہمی تعاون اور سمجھداری' اس کی کامیابی کے ضامن۔۔۔ اور یہی محبت کی عمارت میں اینٹ گارے کا کام دیتے ہیں۔۔۔ اور رشتوں کو برقرار رکھتے ہیں۔۔۔
بے جا انانیت پسندی اور ضد مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈالتے ہیں۔۔"
اُنہوں نے نور کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا...
"میں نے غلطی کی تھی امی مُجھے اعتراف ہے میں ابھی تک شرمندہ ہوں خود سے انہوں نے تو مُجھے معافی مانگنے کا موقع تک دیے بغیر معاف کردیا مگر میں بہت شرمندہ ہوں خود سے جب بھی میں اپنے الفاظ یاد کرتی ہوں مُجھے مرنے کو دِل کرتا ہے مگر انہوں نے مُجھ سے کوئی شکایت نہیں کی زبان بھی حرف تک نہیں لائے اور یہ بات مُجھے اذیت دے رہی ہے..."
نور نے بہتے آنسوؤں کو روکا نہیں...
"میرا علی ایسا ہی ہے جن سے وُہ محبت کرتا ہو اگر وُہ اُسے مار بھی دے تب بھی کُچھ نہیں کہے گا اُس نے صرف محبت کرنا سیکھا ہے نفرت اُسے کبھی نہیں کرنی آئی وُہ کر ہی نہیں سکتا کسی سے نفرت..."
شفق خاتون کے ہونٹ کانپ رہے تھے چہرہ بھیگا ہوا تھا نور حیرت سے اُنہیں دیکھ رہی تھی...
"میں نے جتنی نفرت اُس سے کی ہے اور اُسے ظاہر بھی کیا ہے وُہ میری شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں ہوتا مگر میری ہر زیادتی پر وُہ چُپ رہا کبھی میرے احترام میں کمی نہیں آنے دی میرے سب بچوں میں سب سے زیادہ محبت اور عزت وہی کرتا ہے میری میں جانتی ہوں یہ بات مگر پھر بھی جب جب میں اُسے دیکھتی ہوں مُجھے..."
اُن کے ہاتھ کانپ رہے تھے نور نے اپنے جواں ہاتھوں میں اُن ضعیف احساسات کو نرمی سے تھام لیا...
"میں نے سوچا تھا علی کی تمہارے ساتھ شادی کروا کر میں اپنی ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لے لوں گی اُس سے یہ مت پوچھنا کون سی زیادتی سالوں کی نفرت چند دن پہلے چھوڑ چُکی ہوں پھر یاد نہیں کرنا چاہتی یہ سوال بھی مت کرنا میں ماں ہوکر کیسے نفرت کرسکتی ہوں مُجھ سے کُچھ مت پوچھنا بس مُجھے سننا آج صرف مُجھے سننا تُم میرے جیسی ہو بلکل دانستہ میں تُمہیں تکلیف دے کر سترہ سالہ شفق کو سکون پہنچاتی تھی مگر یہ شفق ہر لمحہ اذیت میں رہی ہے میں نے تُم سے نفرت کی کیونکہ مُجھے خود سے نفرت تھی میں نے اپنی تسکین کے لیے تُمہیں بہت دُکھ دیے بیٹا...."
آخری لفظ پر وُہ رُکی تھیں پُر اُمید نظروں سے نور کو دیکھا وُہ جانتی تھیں نور علی کی محبت ہے اُسی کے جیسی معافی مانگنے کا موقع اُس نے بھی نہیں دیا بس اُن کے سینے سے لگ کر بُری طرح رونے لگی....
"پھر سے بولیں..."
نور نے روتے ہوئے فرمائش کی..
"بیٹا.." بس اتنا کہہ کر اُنہوں نے بھی سختی سے نور کو اپنے سینے سے بھینچ لیا....
"میں بُری نہیں ہوں نہ ہی پتھر دِل ہوں نہ ظالم ہوں نہ جابر نہ سفاک نہ بے رحم میں ایک عورت ہوں پھر میں ماں ہوں میرے اندر کی عورت ہمیشہ میری مامتا پر حاوی رہی ہے وُہ رہے گی..."
"میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا مگر ہمیشہ آپ میں اپنی ماں ڈھونڈی ہے آپ نے میرے ساتھ بھلے جو کیا میں آپ سے کبھی بدظن نہیں ہوئی پتا ہے کیوں؟؟ کیونکہ میں آپکو سمجھ چُکی تھی آپ وہ نہیں ہیں جو آپ ظاہر کرتی ہیں اور اِس بات کا یقین مُجھے تب ہوا تھا جب میں آپ سے نادیہ آپی کے گھر جانے کی اجازت لینے آئی تھی میں نے آپکو روتے ہوئے دیکھ لیا تھا خود کو کوستے ہوئے بھی سُن لیا تھا اِس میں چاہ کر بھی آپ سے بدگمان نہیں ہوسکی امی.."
نور نے اُن کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا تو اُن کے آنسوؤں میں مزید روانی آتی گئی...
"ہو ناں میرے علی کی محبت نہ وُہ معاف کرنے میں دیر لگاتا ہے نہ تُم نے لمحہ بھر سوچا..."
اُنہوں نے ہلکے سے مسکرا کر کہا...
"علی کو سمجھنے کا صرف ایک طریقہ ہے اسکے لہجے سمجھ لو وہ اپنی ذات میں گم انسان ہے اپنی ذات سے باہر نکل کر وہ صرف اس کے ساتھ بات کرتا ہے جو اسے سمجھ لے اسکے ساتھ رہنے والے کو اپنی ایک الگ دنیا بنانی پڑتی ہے تاکہ وہ تنہا نہ پڑے علی ایک احساس ہے خوبصورت احساس مگر کل وقتی ساتھ نہیں
ایک اور بات ہے اسمیں وہ بہت بہت شدت پسند ہے مگر ظاہر نہیں کرتا وہ چاہتا ہے کہ جو اسکا ہے اس پہ کسی کہ نظر نہ پڑے مگر یہ بات وہ کہے گا کبھی نہیں بس یہ چاہے گا کہ سامنے والا سمجھ جائے..."
شفق خاتون نے سنجیدگی سے کہا...
"ٹھیک کہا آپ نے اپنی ذات سے نکل کر وُہ صرف خود کو سمجھنے والے سے بات کرتے ہیں اپنی شدت پسندی بھی اُسی پر ظاہر کرتے ہیں غیر محسوس انداز میں.."
نور نے دِل میں کہا...
"امی ایک بات بولوں.."
اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا...
"بولو بیٹا اب تُمہیں مُجھ سے کُچھ بھی کہنے کے لیے جھجھکنے کی ضرورت نہیں ہے.."
"آپ اِنہیں بھی اسی طرح اپنے سینے سے لگالیں ایک بار بس وُہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں آپ ماں ہیں اُن کی اُس دُنیا میں سب سے زیادہ محبت وُہ آپ سے کرتے ہیں مُجھ سے بھی زیادہ میں گواہ ہوں اُن کی آنکھوں کی اُس چمک کو جو آپ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں اُبھرتی ہے وُہ آپ ہی کے بیٹے ہیں پہل نہیں کریں گے کبھی بس اُمید رکھیں گے کہ سامنے والا سمجھ جائے.. "
نور نے ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھ کر کہا..
شفق خاتون نے آہستہ سے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے....
"نمرہ آگئی ہوگی میں دیکھتی ہوں نیچے جاکر دوائیاں بھی ختم ہوگئی ہیں کُچھ دانیال کو کال کردوں گی آتے ہوئے لے آئے گا..."
واپسی جانے کے لئے کھڑے ہوکر بولیں...
"میری بات پر ضرور غور کیجئے گا امی..."
نور نے اُن کا گریز صاف محسوس کیا تھا..
"خیال رکھنا اپنا..."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چلی گئیں...
اُن کے جانے کے بعد نور نے ایک گہری سانس لے کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگالیا اُس کا سر درد کر رہا تھا اتنے میں ہی اُسکا فون بجنے لگا اُس نے بغیر دیکھے کال یس کرکے موبائل کان سے لگالیا....
"ہیلو کون.."
"کون.. توبہ استغفار تم نے کیا غصّے میں میرا نمبر بھی ڈیلیٹ کردیا تھا..."
علی کی حیرانی سے بھرپور آواز سُن کر وُہ بھی چونک گئی...
"علی آپ..؟"
"جی "میں" جس کا موبائل آپ قبضے میں لیے بیٹھی ہیں اور تینتیس دس استعمال کر رہا .."
وُہ "میں" پر زور دیتے ہوئے بولا...
"وُہ میں نے دیکھا نہیں تھا کس کی کال ہے ایسے ہی اُٹھا لی آپ بتائیں کیسے کال کی...؟"
"تُمہیں کال کرنے کے لئے وجہ کی ضرورت ہے مُجھے...؟"
دوسری طرف سے سوال کیا گیا...
"نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا بس ایسے ہی پوچھ لیا..."
"کُچھ ہوا ہے کیا نور.."
علی نے اب کی بار سنجیدگی سے پوچھا...
"نہیں کُچھ نہیں ہوا میں سونے ہی لگی تھی بس اور آپکی کال آگئی اِس وجہ سے شاید..."
"اچھا.. ٹھیک ہے تُم آرام کرو شام کو گھر پر بات ہوتی ہے اپنا خیال رکھنا اور میری بیٹی کا بھی..."
علی نے شوخ لہجے میں کہا...
"بیٹی..؟" نور نے نا سمجھی سے کہا..
"ہاں ہماری ہونے والی بیٹی..."
علی نے نرمی سے کہا...
"آپکو کیسے پتا بیٹی ہوگی..."
"کیونکہ مُجھے اپنی پہلی اولاد بیٹی چاہئے بلکہ چار پانچ بیٹیاں ہی چاہیے بیٹیوں کے بعد بیٹا ہوجائے تو ٹھیک..."
علی نے ہنستے ہوئے کہا...
"افف حد کرتے ہیں آپ علی خُدا حافظ..."
"ارے نورِ علی بات تو سنو..."
نور نے اُس کی بات سنے بغیر فون رکھ دیا...
"پاگل لڑکی..."
وُہ مسکرا کر خود سے بولا اور کام میں مصروف ہوگیا...
_________________________________________