#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۱۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"امی میں ایک بات بولوں.."
صبا نے اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگاتے ہوئے کہا..
"ہاں بول.."
"امّاں میرا خیال ہے یوں کُچھ غلط بھی نہیں ہے اگر اِس کرم جلی نور کی شادی شفق آنٹی کے بیٹے سے ہوجائے ہماری جان تو چھوٹے گی اور وہاں کون سا اِس نے عیش کرنا ہے صرف ایک شکل کا ہی اچھا ہے وُہ باقی ہے تو كنگلا اور اوپر سے ماں باپ چھوٹے بہن بھائی تیس کا ہونے والا ہے مگر ابھی تک شادی نہیں کی اِسی وجہ سے شاید بس اگر وہ لوگ رشتہ مانگنے آئی تو آپ نے کُچھ نہیں کہنا بس ہاں کردینی ہے ہمارے سروں سے کم از کم یہ بلا تو اُترے گی.."
اُس نے اپنی تئین میں ایک بہترین مشورہ دیا تھا جو عافیہ کو ٹھیک بھی لگا...
"ہاں کہتی تو تُو بلکل ٹھیک ہے یہ نری تو عذاب بن گئی ہے مگر لڑکا بڑا پیارا ہے وُہ میرا دِل نہیں کر رہا کہ اِس کو بیاہ دوں یہی تو ایک موقع ہے کہ اِس کی ماں کے کیے کانڈوں کا بدلہ لے سکوں اِس سے.."
وُہ تاسف سے بولی..
"تو یہ کیا کم ہے یہ وہاں بھی سسکتی ہوئی زندگی ہی گزارے گی ایک تو عُمر میں تقریباً کوئی دس گیارہ سال بڑا پھر کماتا کُچھ خاص نہیں پورے گھر کی زمے داری اُس کے سر پر وہاں بھی اُن لوگوں کی نوکرانی ہی بنے رہنا اِس نے.."
وُہ نخوت سے بولی...
"مگر میرا دِل نہیں مانتا.."
آہستہ سے کہا گیا..
"میری بات مان لیں ورنہ اِسی طرح ہوتا رہے گا جب تک یہ حور پری اِس گھر میں رہے گی..."
وُہ کینہ پروری سے بولی...________________________________________
"کیسی ہے اب نور.."
زبیر نے فروٹس،جوس کے ڈبوں،میڈسنز اور ربڑی کی شاپرز نادیہ کو پکڑاتے ہوئے پوچھا..
"اللہ کا شکر ہے پہلے سے بہتر ہے مگر بہت تکلیف میں ہے وُہ.."
رنجیدگی سے بولی..
"واقعی تمہاری ماں اور بہن نے ظلم کی انتہا کردی ہے مُجھے تو سوچ سوچ کر ہول آرہے ہیں کتنی تکلیف میں ہوگی وُہ اُس کے لیے ہر سانس لینا کتنا مشکل ہوگا..."
زبیر نے باقائدہ جھرجھری لے کر کہا...
"ہاں اور کہیں نہ کہیں اِس میں میری بھی غلطی ہے میں اُس کے ساتھ لاکھ اچھی اُس کا بہت خیال رکھنے والی مگر میں نے بڑی بہن ہونا کا فرض پوری طرح نہیں نبھایا میں نے اُسے وہ تحفظ دیا ہی نہیں جس کی وہ حقدار تھی .."
اُس کا گلا رندھنے لگا تھا...
"انسان سے ہی ہوتی ہیں غلطیاں کوئی بڑی بات نہیں یہ اچھی بات ہے کہ تمہیں احساس ہوگیا ہے اور تُم نے اُس کے لئے اسٹینڈ لیا یہ بڑی بات ہے..."
زبیر نے رسان سے کہتے ہوئے اُس کی ندامت دور کرنی چاہی...
"تُم سے کُچھ بات بھی کرنی ہے.."
زبیر نے اُس کے ساتھ کچن میں داخل ہوتے کہا..
" جی کہیں.."
"ذیشان کو تو جانتی ہو تُم..؟"
اُس نے تصدیق چاہی..
"ذیشان...غالباً یہ وہی ذیشان ہے ہمارے آفس والا مارکیٹنگ منیجر ہیڈ اور آپکا بہترین دوست..؟"
اُس نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"ہاں وہی ذیشان اُس نے کل مُجھ سے نور کے لیے بات کی ہے وُہ نور سے شادی کرنا چاہتا ہے.."
"نور...مگر اُس نے کب نور کو دیکھا میرا مطلب ہے..."
وُہ انگشت بدنداں سی اُسے دیکھتے ہوئے بولی تو زبیر نے اُس کی بات کاٹی..
"ہمارے نکاح والے دن دیکھا تھا اُس نے نور کو اور ذیشان نے مُجھے یہ بھی بتایا وُہ اُسے پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی بس وُہ مُجھ سے بات کرنے میں کترا رہا تھا مگر جب میں نے اسے نور کے ساتھ ہوئے حادثے کا اور اُس کے پیچھے کی وجہ بتائی تو اُس نے مُجھ سے صاف بات کی۔۔۔"
اُس نے تفصیل سے ساری بات اُسے بتادی..
"ذیشان اچھا لڑکا ہے زبیر ہر لحاظ سے شریف ہے، سیٹلڈ ہے ، گڈ لوکنگ ہے اپنا اپارٹمنٹ ہے کلفٹن میں کوئی فیملی کا چکر نہیں ہے پیچھے اور آپکا بہت اچھا دوست بھی ہے اور سب سے بڑی بات وُہ نور کو پسند بھی کرتا ہے اگر آپ مطمئن ہیں تو اُسے ہاں کردیں اور امی کی فکر مت کریں اُنہیں سمجھانا میرا کام ہے.."
نادیہ نے متانت سے کہا..
"ہاں یہاں سے اُس کے گھر ہی جاتا ہوں بس جلد از جلد اِس بچی کی جان چھوٹے یہاں سے.."
وُہ درد مندی سے بولا۔۔۔
"اگر بالفرض یہاں بات نہیں بھی بنی تو دو تین رشتے اور ہیں میری نظر میں بہت اچھے.."
وُہ ہموار لہجے میں بولا..
"ہاں آپکو میں بتانا بھول گئی ہمارے برابر والی آنٹی نے بھی نور کے رشتے کی بات کی ہے اپنے بیٹے سے وہی جو نور کو ہسپتال بھی لے کر گئی تھی آپ ملے بھی ہیں اُس لڑکے سے ہسپتال میں."
اُس نے سیب کی قاشیں پلیٹ میں سجاتے ہوئے کہا..
"میرے خیال سے علی نام ہے اُس کا.."
اُس نے یاد کرنے کی کوشش کی..
"ہاں علی.." نادیہ نے فوراً کہا..
"مگر وُہ تو نور سے کافی بڑا لگتا ہے میرے برابر ہوگا.."
"ہاں یہ تو ہے دس گیارہ سال کا فرق تو ہوگا مگر وُہ لڑکا بہت اچھا ہے نیک، شریف پڑھا لکھا شکل و صورت میں بھی بہترین ہے بس تھوڑی عمر زیادہ ہے اٹھائیس اُنتیس کے قریب ..."
اُس نے زبیر کی بات کی تائید کرتے ہوئے علی کی خوبیاں بھی گنوا دی..
"بس اللہ نصیب اچھے کرے بچی کے جتنی دُکھ تکلیفیں دیکھ لی ہیں اللہ دوگنی خوشی اور سُکھ دے آمین .."
وُہ صدقِ دل سے بولا...
"ثم آمین یارب العالمین..."
نادیہ نے برجستہ کہا...
"نور اُٹھ گئی ہوگی آپ جائیں اُس سے مِل لیں میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں.."
اُس نے جوس نکالنے کے لئے مشین کا تار ساکٹ میں لگاتے ہوئے کہا زبیر سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا...
"السلامُ علیکم بیٹا.."
زبیر نے کمرے میں داخل ہوکر گُم سُم سی بیٹھی نور سے کہا تو اپنی سوچوں میں بہت دور نکل چُکی نور یکدم حال میں لوٹ آئی..
"وعلیکم اسلام زبیر بھائی.."
اُس نے جلدی سے دوپٹہ سے پر اچھی طرح جماتے ہوئے جواب دیا اور سر جُھکا لیا..
زبیر کو اُس کا یہی احترام تو بھاتا تھا ورنہ مجال ہے کہ صبا نے اُسے دیکھ کر کبھی دوپٹہ تک لیا ہو...
زبیر نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیا..
"کیسی طبیعت ہے اب بچے.."
"ٹھیک ہوں بھائی.."
اُس نے نظریں جھکائے ہی کہا..
"اچھی بات ہے اور فکر تو کرنی ہی نہیں ہے تُم نے بہت جلد ٹھیک ہوجاؤ گی.."
زبیر نے رسان سے کہا...
"لو جی آگئی ٹھنڈی ٹھنڈی ربڑی ساتھ میں کینو کا جوس اور سیب.."
نادیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے مسکرا کر کہا..
حقیقتاً اُس کے چہرے پر ربڑی سنتے ہی ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی سموسوں کے بعد واحد وُہ چیز تھی جو اُسے بے حد پسند تھی..
""چلو شاباش پہلے جوس ختم کرو اور یہ سب کھاؤ پھر آرام سے کھاتی رہنا ربڑی میں نے باقی فریج میں رکھ دی ہے.."
اُس نے ٹرے نور کے سامنے رکھتے ہوئے ملائمت سے کہا تو وہ اُس نے چُپ چاپ گلاس اُٹھا کر منہ سے لگا تھا..