#محبت_ہوگئی_آخرقسط نمبر ۳۹از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"نور میری گھڑی کہاں ہے..؟"علی نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بال بناتے ہوئے پوچھا..."ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں ہے.."وُہ تولیے سے بال رگڑتی اُس کے پاس آکر بولی.."مل گئی.."وُہ مسکرا کر بولا..."ویسے خیریت آج اتنا تیار شیار ہوکر جارہے ہیں اور آپ نے تو ایک بجے کا کہا تھا ابھی تو گیارہ بج رہے ہیں..؟"اُس نے تیکھی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا..."ہاں کل تُمہیں بتانا بھول گیا ایک جگہ سے انٹرویو کے لئے کال آئی تھی تو بس وہی جارہا ہوں اُس کے بعد سیدھا برانچ.."علی نے اُس کی طرف مڑ کر کہا..."اچھا.." اُس نے ایک لفظی جواب دیا.."کیا بات ہے تمہارا چہرہ اتنا اُترا ہوا کیوں ہے نور طبیعت ٹھیک ہے تمہاری..؟"علی نے اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر فکرمندی سے پوچھا..."ہاں ٹھیک ہے.."اُس نے علی کے ہاتھ غیر محسوس سے انداز میں ہٹاتے ہوئے کہا..."رات نیند پوری نہیں ہوئی ہوگی شاید تمہاری؟؟"علی اِس نتیجے پر پہنچا.."شاید.." اُس نے علی کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا..."تمہیں کوئی بات پریشان کر رہی ہے؟؟"علی نے دوبارہ اُس کے گال پر اپنا انگوٹھا مس کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔"میرے چہرے کو دیکھ کر آپکو پتا لگا گیا کہ مُجھے کوئی بات پریشان کر رہی ہے مگر آپکو یہ کیوں نہیں دِکھتا کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں میں آپ کو کسی کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتی کیوں نہیں سمجھ آتی آپکو یہ بات علی..."اُس نے علی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوچا..."آپکے ہوتے ہوئے کیسی فکر علی.. کیا ہونی چاہئے..؟"اُس نے آخر میں سوال کیا..."تمہارا یہی یقین تو مُجھے ہمت دیتا ہے آگے بڑھنے کی ورنہ میں تو کب کا ہار مان چُکا ہوتا یہ صرف تُم ہی ہو جس نے مُجھے یکجا کرکے رکھا ہوا ہے.."وُہ اُس کے انداز کو سمجھ نہ سکا..."مُجھے تو اپکے ساتھ رہنا ہی ہے "میرے علی".."اُس نے اپنا حق جتایا..."تُم آجکل بہت شدت پسند نہیں ہورہی.."علی نے اُسے بازو کے حصار میں لے کر کہا..."مطلب.." "مطلب تمہاری ہر وُہ بات جس میں میرا ذکر یا نام آئے تُم "میرے" کا اضافہ ضرور کرتی ہو..""اپنی چیز کو اِنسان اپنا ہی کہتا علی آپ تو میرے شوہر ہیں اور صرف میرے ہیں کیا اِس بات سے اعتراض ہے آپکو..؟"نور نے اُس سے الگ ہوکر سرد نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا..."کس نے کہا اعتراض ہے مُجھے تو بِلکُل نہیں ہے جس طرح میرا رعب جمانا تُمہیں اچھا لگتا ہے ویسے ہی تمہارا مُجھ پر حق جتانا مُجھے اچھا لگتا ہے۔۔"اُس نے تبسم ہونٹوں میں چھپائے کہا..."تو پھر آپ کیوں اُس..."وُہ کہتے کہتے رُکی..."تو پھر میں کیا..؟"علی نے پُر شوق نظریں اُس پر جمائے پوچھا..."کُچھ نہیں آپ جائیں آپکو دیر ہورہی ہے انٹرویو کے لئے لیٹ ہوجائیں گے بہت ضروری ہوگا انٹرویو..."وُہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہورہی تھی جھٹکے سے اُس کے حصار سے نکلی..."مُجھے سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا..؟"وُہ مزید اُس کے اُکھڑے اُکھڑے رویے کو نظرانداز نہیں کر پایا..."آپ نے ایسا کیوں پوچھا..؟""کیونکہ میں کل رات سے دیکھ رہا ہوں تُم کُچھ کھنچی کھنچی سی ہو مُجھ سے تمہیں ہاتھ لگاتا ہوں تو ہاتھ جھٹک دیتی ہو یہ رویے اور آنکھوں دونوں میں سرد مہری ہے اگر میں غلط نہیں ہوں تو..."علی نے اُس سے دو قدم پیچھے ہٹ کر کہا..."ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپ کو یونہی محسوس ہوا ہوگا..."وُہ اُسے خود سے دور جاتا کیسے دیکھ سکتی تھی جو دو قدم وُہ پیچھے ہٹا تھا اُنہیں طے کرکے وُہ واپس اُس کے قریب تھی..."شاید ایسا ہو مگر میں تمہارا شوہر ہوں اچھے سے سمجھ سکتا ہوں تمہارے بدلے رویے کو میں نے کل بھی نظرانداز کیا تھا مگر مُجھے یوں ہی لگ رہا ہے کہ میری رفاقت تُمہیں تکلیف دے رہی ہے اِن نیلی آنکھوں میں مُجھے کئی سوال دکھائی دے رہے ہیں میں نہیں جانتا کیا ہے؟ کیوں ہے؟ مگر میں اب مزید میں کسی ایسے اِنسان کی آنکھوں میں اپنے لیے بیزاری یا بیگانگی برداشت نہیں کرسکتا جو میرے دِل کے بہت قریب ہو "بہت قریب"..."آخری کے دو لفظ اُس نے اپنے ہونٹ نور کے کان کے پاس لے جاکر بہت مدھم آواز میں کہے..."ایسا کُچھ نہیں ہے "میرے علی"۔۔۔"اُس نے مستحکم انداز میں کہتے ہوئے اُسے کافی حد تک مطمئن کردیا تھا..."مُجھ سے کبھی بدگمان مت ہونا چاہے کُچھ بھی ہوجائے کوئی بھی بات ہو مُجھ سے کوئی غلطی ہے سیدھے مُجھے بتانا مگر بات دِل میں مت رکھنا میں تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے صرف محبت دیکھنا چاہتا ہوں صرف "محبت" نورِ علی.."علی نے اُس کے بالوں سے اُٹھتی خوشبو کو اپنے اندر اُتارا...وُہ خاموش رہی محض سر ہلانے پر اکتفا کیا..."میں چلتا ہوں رات میں بات کروں گا تُم سے مگر پھر کہہ رہا ہوں کبھی مُجھ سے بدگمان مت ہونا تُم نہیں جانتی تُم میرے لئے کیا ہو مگر جلد جان جاؤ گی..."اُس نے نور کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا..."اللہ کامیاب کرے آپکو بہت اچھا ہوگا انٹرویو انشاءاللہ میری دعائیں آپکے ساتھ ہیں..."اُس نے علی کے اپنے ہاتھ میں لے کر مضبوط لہجے میں کہا..."خُدا حافظ.."وُہ کہہ کر جانے لگا..."ٹھیک ہے میں تُم سے کل ملوں گا زونیہ.."اُس کی سماعتوں میں پھر سے آواز گونجی..."علی.." نور بے اختیار ہی اُسے پُکار بیٹھی..."جی علی کی جان..."اُس نے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر محبت سے پوچھا..."آپ صرف میرے ہیں یاد رکھیے گا اِس بات کو میں آپکے بغیر نہیں جی سکتی اور نا ہی اتنا ظرف رکھتی ہوں کہ کسی اور کے ساتھ آپکا نام تک سُن سکوں..."وُہ کہنا تو یہ چاہتی تھی مگر زبان نے ساتھ نہیں دیا..."کُچھ نہیں بس ایسے ہی آپ جائیں فی امان اللہ...""فی امان اللہ..."علی مسکرا کر کہتا ہوا باہر نکل گیا..."اِن کی آنکھوں میں مُجھے صرف اپنے لیے محبت دِکھتی ہے اِن کے لہجے میں نام کی چاشنی ہے یہ صرف میرے لیے ایسے ہیں ،نرم ،آسان ،سہل ورنہ میں نے جس علی کو پسند کیا تھا وُہ تو کوئی اور تھا چُپ،اپنی ذات میں بند،کُچھ نہ کہہ کر یہ اُمید رکھنے والے کے سامنے والا سمجھ جائے،کٹھن ، سخت جان،سنگلاخ لہجہ پھر کیوں مُجھے آپ کے لفظوں پر یقین نہیں آتا کیوں میں مکمل خوش نہیں ہوپاتی کہ میرا جیون ساتھی مُجھے بہت چاہتا مُجھ سے اور صرف مُجھ سے محبت کرتا ہے؟؟ محبت کو اظہار کی حاجت نہیں ہوتی اور ویسے بھی مرد اِس معاملے میں بخیل ہوتے ہیں مُجھے اُن پر اپنا اعتبار قائم رکھنا ہے کسی کے آنے یا جانے سے ہمارے رشتے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا..."نور نے گہری سانس اندر اُتار کر پھر ہوا کے سپرد کی اب وہ کافی حد تک مطمئن ہوچکی تھی..._________________________________________"مُجھے یقین تھا تُم ضرور آؤ گے مُجھ سے ناراض رہ ہی نہیں سکتے.."وُہ اُسے اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کر قطعیت سے بولی..."تُم چاہتی کیا ہو مُجھے ایک بار بتادو مگر خدا کے واسطے میری زندگی میں پھر زبردستی شامل ہونے کی کوشش مت کرو تمہاری اب کوئی جگہ نہیں ہے ناں میری زندگی میں نہ ہی دِل میں..."اُس نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے غصے سے کہا..."میں تمہیں چاہتی ہوں علی بہت چاہتی ہوں مُجھے دیر سے سمجھ آئی یہ بات کہ میں تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی وُہ شخص بھلے سے امیر ترین تھا مگر وفادار نہیں تھا اُس کے غیر عورتوں سے مراسم تھے اور مُجھے پھر احساس ہوا کہ بھلے آپکا جیون ساتھی دولتمند ہو یا نہ ہو مگر وفادار ضرور ہونا چاہئے مُجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کھو دیا..."اُس نے علی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا تو علی نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا..."مُجھے تُمہاری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور میں تُمہیں آج آخری بار بول رہا ہوں آئندہ غلطی سے بھی مُجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا..."علی نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا..."چھوڑ بھی دو اب غصّہ میں آج بھی تمہاری محبت ہوں جانتی ہوں مُجھے اب احساس ہوگیا ہے مُجھ سے تُم سے زیادہ محبت کوئی نہیں کرسکتا اب تُم بھی اُس زبردستی کے رشتے سے خود کو آزاد کرلو طلاق دے دو نور کو...""اپنی بکواس بند کرو زونیہ میں یہاں صرف تمہاری منتیں کرنے پر آیا ہوں خبردار میری بیوی کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا..."علی نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے وارننگ دی.."میں جانتی ہوں تُم اُس گنوار کے ساتھ خوش نہیں ہو تُم تو مُجھ سے ...""میں اُس سے محبت کرتا ہوں سمجھ آئی تُمہیں "محبت" ہمارے بیچ تو پتا نہیں کیا تھا جس کے نا ملنے کا غم صرف وقتی تھا مگر نور میرا سب کُچھ ہے "سب کُچھ.."یہ اعتراف زبان سے اُس نے خود سے بھی پہلی بار کیا تھا کیونکہ اب سب آئینے کی طرح صاف تھا..."ایسا نہیں ہوسکتا.."وُہ بے یقینی سے بولی..."ایسا ہی ہے اور یہ میری زندگی کا خوبصورت سچ ہے سب سے خوبصورت میں اُسے دیوانوں کی طرح چاہتا ہوں اُس پر پڑنے والی ہر نظر کے ساتھ میری محبت میں شدت آتی ہے پہلے سے زیادہ مُجھے یہ اعتراف تمہارے سامنے کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نور کی محبت کا اسیر ہوں میں اُس کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں وُہ میری روح کا سکون ہے...."نور کا چہرہ اُس کی آنکھوں کے پردے پر آ ٹہرا تھا اور وُہ سب کہہ گیا جو اُس کے دِل میں تھا مگر کس کے سامنے...علی نے زونیہ کے زرد پڑتے چہرے کو دیکھا اور سوچا ہاں محبتیں مرجاتی ہیں ختم ہوجاتی ہیں رویوں سے جو کہتے ہیں ایسا نہیں ہوتا وہ جو کہتے ہیں محبت کبھی نہیں مرتی وہ جھوٹ کہتے ہیں وُہ اُس کے سامنے بیٹھی تھی وُہ لڑکی جسے دیکھ کر کبھی اُس کا دِل دیوانہ ہوا کرتا تھا بے اختیار مچلتا تھا مگر آج وُہ اُس مقام پر پہنچ چکا تھا کہ وہ اگر اُس کی آنکھوں کے سامنے مر بھی جاتی تو اُسے صرف اتنا ہی دُکھ ہوتا جتنا ایک اِنسان کو دوسرے اِنسان کو مرتے دیکھ کر ہوتا اُس کا دِل اب اُس کی بے رُخی پر ٹوٹتا نہیں تھا نہ ہی اُس کی چاہت کے فریب میں بہلتا تھا زونیہ حامد اُس کے دِل سے اُتر چُکی تھی کب کی جو کبھی اُس کے دِل کی بے تاج ملکہ تھی اُس کا تخت اُلٹ چکا تھا اور اپنی بادشاہت سے بغاوت کرنے والی بھی وُہ خود ہی تھی خود کی رقیب تھی وُہ خود کی دُشمن تھی نادان نہیں جانتی تھی کہ ایک وقت تھا علی سبحان نے اُس سے دیوانگی کی حد تک محبت کی تھی وُہ اُس کے لیے لازم و ملزوم تھی مگر وہ اپنی اہمیت نہ جان سکی افسوس صد افسوس اُسے اعتراف تھا پوری شدت سے کہ نور اُس کی دائمی محبت ہے اُس کے دِل کی ملکہ جس نے اُس کے دِل تہس نہس سلطنت کو خاموشی سے آباد کیا تھا اُس نے تو اتنی خاموشی سے اپنی جگہ بنائی کے علی کو تو احساس بھی نہیں ہوا کہ وُہ دِل کے راستے روح میں اُتر چُکی تھی وُہ اُس کی روح کا سکون تھی اور وُہ اُس کا اسیر...""تُم نے تو مُجھ سے بھی محبت کی تھی.."زونیہ کو اپنی ہی آواز اجنبی لگی...."مر گئی وُہ محبت یا شاید وُہ محبت تھی ہی نہیں میں نے صرف نور سے محبت کی ہے تُم سے وابستگی تھی محض.."اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا..."ایسا کیا اُس میں..."وُہ طنزیہ بولی..."وُہ وفادار ہے اپنی محبت سے وُہ " وفا اور محبت" کی مٹی سے گُندھی ہوئی ہے اور وفا نبھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے استطاعت صرف اہلِ دِل رکھتے ہیں۔۔۔"علی کی آنکھیں پُر نور تھیں اُس پر تو خود اپنی محبت کی شدت کے نئے انکشاف ہورہے تھے.."میری دعا ہے کہ تُم خوش رہو کوئی ایسا تمہارے نصیب میں آئے جو تمہیں چاہتا ہو کیونکہ چاہے جانے کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے بنسبت چاہنے کے میں تو چاروں خانے چت ہوچکا ہوں اُس کی محبت میں...""بس کرو مُجھے تمہاری محبت کی داستانیں سُننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بھاڑ میں جاؤ تُم اور وُہ گنوار...."اُس نے سخت غصّے سے کہا..."تُم نے بلکل ٹھیک کہا تھا کہ مُجھ جیسے قدامت پرست مرد کے ساتھ نور جیسی ہی جچتی ہے ہاں میں ہوں قدامت پرست مرد مُجھے چاہیے کہ میری بیوی جب باہر نکلے تو کوئی نا محرم اُسے میلی نگاہ سے نہ دیکھے وُہ خود کو ڈھانپے نکلے باہر کیونکہ اُسے دیکھنے کا حق کسی مرد کو حاصل نہیں میرے علاوہ...تُم کہتی تھی کے میرے سارے دوست میری تعریف کرتے ہیں کہ مُجھے تُم جیسی خوبصورت لڑکی کی رفاقت نصیب ہوئی مگر مُجھے اُن لفظوں سے کبھی خوشی نہیں ہوئی جتنی اِس سے ہوتی ہے کوئی میری بیوی کی تعریف نہیں کرتا پتا ہے کیوں؟؟؟ کیونکہ اُس نے اپنی خوبصورتی کو صرف مُجھ تک میری ذات تک میرے وجود تک محدود رکھا اُسے لوگوں سے تعریفیں سننے کی طمع نہیں ہے... وُہ جب بے نقاب بھی ہوتی ہے تو اُس کی آنکھوں حیا کا پانی ہوتا ہے اُس کی ذات میں ایک طنطنہ ہے.. غیر مرد کے تعریف کرنے پر اُسے خوشی نہیں ہوتی اُسے خوشی میرے منہ سے صرف "اچھی" سننے میں ہوتی ہے...ایسی بیوی مرد کا غرور ہوتی ہے اور وُہ میرا غرور ہے...اگر یہ قدامت پرستی ہے تو مُجھے دِل و جان سے اپنی اِس خوبی کا اعتراف ہے ..."وُہ تقریباً بھول چُکا تھا وہ کہاں ہے کس کے ساتھ ہے اب تو بس ہر جگہ نور تھی..."بھاڑ میں جاؤ تُم اور تُمہاری...""ہرگز نہیں مُجھے جو کہنا ہے کہہ لو مگر میری بیوی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا.."علی نے اُسے ڈپٹ دیا...وُہ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی..."تُم نے کیا کردیا ہے مُجھے نور پاگل کردیا ہے٬ انتہا کا شدت پسند بنادیا ہے٬ بِلکُل مفلوج کردیا ہے اپنی محبت میں.."وُہ لاچارگی سے کہتا ہوا جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا...._________________________________________"تانیہ تانیہ.."وُہ اُس کے کمرے میں کے باہر کھڑی آوازیں دینے لگیں..."جی خالہ.."اُس نے بمشکل اپنی نظریں ٹی وی سے ہٹا کر کہا..."نمرہ کی کال آئی تھی کہہ رہی تھی اُس کی کسی دوست کی طرف افطار پارٹی تھی اور وُہ اُسے ضد کرکے اپنے ساتھ لے گئی ہیں...""کیا مطلب چلی گئی ہے یہاں افطاری کی تیاری کون کرے گا..؟"وُہ جھٹکا کھا کر اُٹھی۔۔۔"اب چلی گئی تو چلی گئی میں کیا کروں اور جلدی سے اُٹھ بیٹا شاباش تین بج رہے ہیں تیاری شروع کر دے افطاری کی گھر بھی دیکھ گندا پڑا ہے..."اُنہوں نے اُسے پچکارتے ہوئے کہا..."کیا مطلب میں یہ سب اکیلے کروں گی.."وُہ چیخنے کے در پر تھی .."تو کوئی مضائقہ نہیں اِس میں نور بھی تو کرتی تھی..."اُن کے منہ سے بے اختیار نور کا نام نکلا..."پر میں نور نہیں ہوں جو کولہو کے کے بیل کی طرح جتی رہوں میں ہرگز بھی یہ سارا کام اکیلے نہیں کروں گی.."اُس نے تیز آواز میں کہا..."پھر کون کرے گا کیا میں کروں.."شفق خاتون نے چیخ کر کہا..."اچھا خالہ ناراض نہ ہو آپ کیوں کریں گے کرتی ہوں میں جیسے تیسے اب اِس عُمر میں آپ یہ سب کرتی اچھی لگیں گی میرے ہوتے ہوئے..."اُس نے فوراً خود کو سنبھالا وُہ ابھی اُن سے بگاڑنے کی پوزیشن میں نہ تھیں..."میری بچی خالہ صدقے.."اُنہوں نے محبت سے کہا اور چلی گئیں.."نمرہ کی بچی مُجھ سے ہوشیاری بہت مہنگی پڑے گی کام تو میں ایک نہیں کروں گی کرے گی خالہ ہی پھر پتا چلے گا تُجھے.."اُس نے نخوت سے سوچا اور پھر یکدم ہی بری طرح چلائی..."ہائے کیا ہوگیا میری بچی.."شفق خاتون بھاگتی ہوئی اُس کے کمرے کی طرف آئیں دوبارہ تو وُہ زمین بوس تھی..."اللہ جی ہائے امی.."وُہ اپنا پیر پکڑکر زور زور سے بولی..."ہائے کیا ہوا بیٹا..""خالہ پیر بری طرح مڑ گیا بہت درد ہورہاہے.."اُس نے نقلی ٹسوے بھی بہانا شروع کردیے..."ہائے میری بچی آ مُجھ میں سہارا کر میں تُجھے بیڈ پر لٹاتی ہوں..."اُنہیں نے پریشانی سے کہا.."نہیں خالہ میں ٹھیک ہوں بس تھوڑی سی موچ ہے ابھی ڈھیروں کام پڑے ہیں مُجھے وُہ کرنے ہیں آپ میری فکر مت کریں..."اُس نے بہترین اداکاری کرتے ہوئے کہا..."کوئی کام نہیں کرنا غضب خُدا کا اِس حالت میں تُجھ سے کام کرواؤں گی اتنی بے حس تو نہیں ہوں میں.."اُنہوں نے اُسّے ڈانٹ کر کہا..."پر خالہ آپ اکیلے کیسے..""میں کرلوں گی ویسے ہی کونسا اتنا بڑا گھر ہے تُو آرام کر.."شفق خاتون نے اُس کا گال تھپتھپا کر کہا اور کمرے سے باہر آگئیں... "مُجھے سے ہوشیاری کی تھی ناں اب جب پتا چلے گا تمہاری ہی ماں کو کام کرنا پڑا ہے تو چہرہ دیکھنے لائق ہوگا..."تانیہ نے مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے خود سے کہا..._________________________________________"امی یہ کیا کر رہی ہیں آپ..؟"اُس نے شفق خاتون کو صحن کی جھاڑو دیتے دیکھا تو فوراً سے نیچے آکر اُن کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی.."صفائی کر رہی ہوں..."اُن کا لہجہ نرم تھا۔۔۔"آپ کیوں کر رہی ہیں نمرہ اور تانیہ کہاں ہیں..""نمرہ یونیورسٹی سے ہی اپنی کسی دوست کی افطار پارٹی میں چلی گئی ہے اور تانیہ کا پیر مڑ گیا ہے بیچاری سے چلا بھی نہیں جارہا.."وُہ اپنے لہجے میں تانیہ کے لئے ہمدردی لیے بولیں..."پھر بھی آپ کیوں کر رہی ہیں میں ہوں ناں میرے ہوتے ہوئے آپ کوئی کام نہیں کریں گے اور وُہ بھی روزے میں پتا نہیں ہے آپکو کے آپکا بی پی کتنا لو ہوجاتا ہے آپ آرام کریم جاکر میں کرلوں گی سارے کام.."اُس نے شفق خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا..."آج ولید اور زرینہ بھی افطار پر آرہے ہیں..""تو کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ بلکل بے فکر رہیں میں سارے کام کرلوں گی آپ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گی بلکہ میں پہلے آپکے کمرے سے جھاڑو نکال دیتی ہوں تاکہ آپ سکون سے سوجائیں..."اُس نے جلدی سے جھاڑو اٹھائی اور اندر جانے لگی..."رہنے دو بی بی تمہارا شوہر ہم پر آکر برسے گا.."اُن کی زبان سخت کہنے سے باز پھر بھی نہ رہی..."یہ نو دس بجے تک آئیں گے تب تک سب کام ہوجائیں گے اب آپ آرام سے بیٹھ جائیں جاکر..."نور نے تسلی بخش جواب دیا تو وُہ مزید مطمئن ہوگئیں..."ٹھیک ہے تمہاری مرضی ہے ورنہ میں تو خود بھی کرلیتی کوئی اتنا کام تھوڑی ہے..""جی بالکل بہت تھوڑا کام ہے میں آرام سے کرلوں گی امی.."اُس نے متانت سے جواب دیا..."مرضی ہے.."اُنہوں نے بے نیازی سے کہا اور اندر چلی گئیں جبکہ وُہ جھاڑو اٹھائے اُن کے پیچھے پیچھے..._________________________________________"گنجو بھابھی کیسی ہیں اب.."علی نے سنک میں ہاتھ دھوتے ہوئے پوچھا.."پہلے سے کافی بہتر ہیں میں نے اُسے نور بھابھی کے بارے میں بتایا کہ وُہ تُم سے ملنے آئیں گی تو وُہ خوش ہوئی اکیلی اکیلی رہتی ہے سارا دِن کوئی بات کرنے والا نہیں تو خوش ہوگئی سُن کر.."عُمر نے اسٹیک مایو کے ایم آر ڈی کنٹینر پر لگاتے ہوئے جواب دیا.."ویسے مبارک ہو آج تُم کاؤنٹر پر کھڑے ہو گے..""ہاں شکر ہے.."علی نے گہری سانس لے کر کہا..."آج تو ویسے بھی ہفتہ ہے تو پبلک بھی زیادہ ہو گی شفٹ مینجر کہہ رہا تھا کہ آج ساڑھے پانچ بجے ہی کاؤنٹر آن ہوجائے گا..""اچھا مُجھے نہیں پتا تھا.."علی نے حیرانی سے کہا..."علی آجاؤ کاؤنٹر آن کر رہے ہیں ہم.."نظیر نے اُسے آواز لگائی وُہ خود بھی کیشیر تھا..."اچھا چل گنجو میں جارہا ہوں تُو پیچھے سڑ.."اُس نے مذاق سے کہا..."کمینے.."عُمر نے اُس کی پیٹھ پر پیچھے سے ہلکا سا دھموکا جڑتے ہوئے کہا.."اچھا علی یہ ہے ہمارا سافٹ ویئر...""ارے یہ تو حلوہ ہے زوارقا نام ہے اِس سافٹ ویئر کا ہے ناں..؟"علی نے دیکھتے ہی کہا..."نام تو نہیں پتا ہمیں خیر چلانا آتا ہے مطلب بل پنچنگ ،آئٹم سرچنگ وغیرہ سب کیسے ہوتی ہے..؟"نظیر نے اپنے فون پر کسی نظریں کیے ہی اُس سے پوچھا..."ہاں آسان ہے بہت.."علی نے ہے فکری سے کہا..."ٹھیک ہے اور اِس ٹیب پر فوڈ پانڈا سے آرڈر آتے ہیں اِس والے کمپیوٹر پر سائے برڈ اور ایٹ مبارک سے.."نظیر نے اُسے کاؤنٹر پر رکھے ٹیبلٹ اور ایک اور دیسکٹاپ کے بارے میں بتایا...."لو پہلا آرڈر بھی آگیا تُمہیں ہر آرڈر کی تین سلپ نکالنی ہے ایک جو کسٹمر سلپ ہوگی دوسری جو رائڈر کو دیں گے ہم اور تیسری جو ہمارے پاس رہے گی اب ایڈریس دیکھ کر کنفرم کرو اگر آؤٹ آف ریڈیس ہوا تو دوسری برانچ کو ٹرانسفر کردینا اور ہر آرڈر کے آئٹم ضرور چیک کرلینا اور پیچھے کنفرم کرلو کسی چیز کی شارٹج تو نہیں ہے تاکہ ہم کسٹمر کو کال کرکے بتا سکیں اور ہے آرڈر کی کال کرنی ہے جب تک پیچھے سے ورکنگ کی آواز نہ آجائے اوکے.."نظیر نے اُسے ساری بات تفصیل سے سمجھا دی...'"ٹھیک ہے.." اُس نے صرف اتنا کہا اور آرڈر چیک کرنے لگا...اب آرڈر لگوا دو سارے چھ سے اوپر ہوگئے ہیں ریڈی ہونے میں بھی ٹائم لگے گا پھر رائڈر کو نکلنا بھی ہوگا.."نظیر نے علی سے کہا اور پھر اپنے کاؤنٹر مصروف ہوگیا..."two jalapeno double stack 2 jumbo cheese fries one with only salt and other one will be lots of spice and 1 Chicken cheese salad without Croton.."اُس نے باقی سارے آرڈرز کی کال کرکے اب کاؤنٹر پر ڈائن اور ٹیک اوے کے کسٹمرز سے ڈیل کرنا شروع کردیا تھا..."واہ لمبو تُو تو پہلے ہی دِن جم گیا.."کاؤنٹر کے بیک سے عُمر کی شوخ آواز نے اُسے ہنسنے پر مجبور کردیا.."Asalam u alikum sir how may i help you..."علی نے ایک ادھیڑ عُمر کے آدمی سے پوچھا جو ٹیڑھی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا اُس کی آواز پر علی کی طرف متوجہ ہوا..."کون کون سے برگرز ہیں آئی مین ورایئٹی..."اُس آدمی کا انداز کافی روکھا تھا.."جی سر ہمارے چکن برگرز ہیں فش برگرز ہیں بیف برگرز ہیں.."علی نے پروفیشنل انداز میں کہا۔۔"چکن میں کون کون سے برگرز ہیں؟؟""سر جی ایم سی برگر،اسپائسی برگر،زنگر برگر ہے.""جی ایم سی میں کیا کیا جاتا ہے۔""سر جی ایم سی مطلب گارلک مایو چکن برگر اور..""میں نے آپ سے کیا کیا جاتا ہے وُہ پوچھا ہے I don't ask what does GMC stands for..."اُس آدمی نے انتہائی تضحیک آمیز انداز میں علی کی بات کاٹ کر کہا علی نے ضبط کیا..."جی سر میں آپکو وہی بتا رہا تھا اِس میں لیٹس جاتا ہے..""کیا مطلب بتا رہا تھا میں نے جب آپ سے سیدھا سا ایک سوال پوچھا تھا تو کیوں ایکسٹرا بات کی آپ نے..."وُہ اب چلایا تھا...علی نے پھر ضبط سے کام لیا..."سوری سر پر میں آپکو بتا ہی رہا تھا...""کہاں ہے تمہارا منیجر پتا نہیں کیسے کیسے نمونوں کو لا کھڑا کردیا ہے کسٹمر ڈیلینگ نہیں آتی جنہیں..."وُہ آدمی کہیں کا غصّہ شاید اُس پر اُتار رہا تھا ورنہ بات ہرگز بھی اتنی بڑی نہ تھی بلکہ کوئی بات تھی ہی نہیں..."جی سر کیا ہوا ہے.."شفٹ مینجر کو جاکر کوئی بلا لایا..."یہ کیسا لڑکا کھڑا کرکے رکھ دیا ہے آپ نے جسے بات تک کرنے کی تمیز نہیں ہے..."وُہ بلاوجہ کا چلا رہا تھا..."دیکھیں سر میں نے آپ سے کوئی بدتمیزی نہیں کی ہے آپ بلاوجہ بات بڑھا رہے ہیں اور شفٹ منیجر آپ کسی سے بھی پوچھ لیں میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی..""ہوا کیا ہے..؟"عمر نے فوراً آگے آکر پوچھا..."یہ لڑکا بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے میں یہاں کھڑا ہوں اِس نے کوئی بدتمیزی نہیں کی.."ایک کسٹمر خاتون نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا..."میں جھوٹ بول رہا ہوں مطلب...""جی بالکل آپ جھوٹ بول رہے ہیں جو میں نے کیا ہی نہیں اُس کا الزام لگا رہے ہیں مُجھ پر آپ.."علی نے مضبوط لہجے میں کہا..."ہاؤ ڈیر ہی میں ابھی آپکے اؤنر کو کال کرتا ہوں وُہ میرے بہت اچھے دوست ہیں ذرا اُنہیں بھی تو پتا چلے کیسے کیسے نمونوں کو بھرتی کر رکھا ہے اُس نے۔۔۔""علی سوری بول دو بات ختم کرو.."نظیر نے اُسے آہستہ سے کہا..."کس بات کی معافی مانگوں میں نے کُچھ نہیں کیا ہے ایسا جس کی میں معافی مانگوں.."علی نے تیز آواز میں کہا۔۔۔"یہ سائیکو آدمی ہے اِس سے پہلے بھی دو تین لوگوں سے اُلجھ چُکا ہے تُم اپنی نوکری بچاؤ..."کہنے والا تھرڈ کاؤنٹر کا تبریز تھا..."ہوتا ہوگا پاگل میں کسی کی بھی غلط بات برداشت نہیں کروں گا کسی صورت بھی.."علی نے قطعیت سے کہا..."ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے جب اُس کی غلطی نہیں ہے تو کیوں معافی مانگے..."پورے اسٹاف میں سے صرف عُمر نے ببانگِ دہل اُس کی حمایت کی اُس نے اپنی آنکھوں سے سب دیکھا تھا....."sir I am extremely sorry on behalf of him.."مینجر نے بات سنبھالنے کی اپنی سی کوشش کی مگر اُسے نہ سمجھنا تھا وُہ نہ سمجھا..."علی سوری بول دو.."مینجر نے دانت پیستے ہوئے کہا.."قطعی نہیں اور اِن جیسوں سے تو ہرگز نہیں چند پیسے کیا آگئے خود کو فرعون سمجھنے لگے ہیں...."علی نے نفرت سے کہا..."you're fired get off your shirt and cap and go.."مینجر کسی صورت بھی اس کسٹمر کو ناراض نہیں کرسکتا تھا حالانکہ وہاں موجود کسٹمرز بھی علی کی حمایت کر رہے تھے.."پر سر علی نے کوئی بدتمیزی نہیں کی..."عُمر نے سخت لہجے میں کہا..."آپ بھی جاسکتے ہیں عُمر سہیل..."مینیجر نے دوسرا فیصلہ سنایا..."پر سر۔۔""you both are fired"اُس نے بے لچک انداز میں دوبارہ دہرایا...وُہ آدمی چُپ چاپ کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا سکون سے..."ٹھیک ہے ہم نے جتنے دِن کام کیا ہے اُس کے پیسے دے دیں..."عُمر نے فوراً کہا..."کون سے پیسے آپکو لگتا ہے اِس حرکت کے بعد آپکو کمپنی کُچھ بھی دینا الاؤ کرے گی..."مینیجر نے بے شرمی سے کہا..."مگر ہم نے یہاں پورے پانچ دِن کام کیا ہے اِس حساب سے ڈھائی ہزار ہوتے ہیں ہمارے...""آپ دونوں جاسکتے ہیں.."مینیجر نے پھر اپنی بات بے شرمی سے دہرائی...علی نے غصے میں کاؤنٹر پر رکھی چیزیں نیچے گرائیں اور پیچھے کچن میں آکر شرٹ چینج کرنے لگا..."حقدار کا حق مارنے والے کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا یہ بات رکھیے گا اور تُم مُجھے باہر مِل مت جانا سنگل پیس میں واپس نہیں جاؤ گے.."عُمر نے اُس آدمی کو وارننگ دیتے ہوئے کہا اُس کا بس چلتا تو وُہ اُسے بری طرح دھو ڈالتا..."کیسے لوگ ہیں یہ یار کوئی بات نہیں تھی کوئی بات تھی ہی نہیں مگر پھر بھی اُس آدمی نے پتا نہیں کس چیز کی بھڑاس نکالی ہے مُجھ پر..."علی نے برانچ سے باہر آکر عُمر سے کہا..."یہ چند پیسے آنے کے بعد پتا نہیں خود کو کیا سمجھ لیتے ہیں جیسے خُدا ہیں اور سنی بھی انہی کی جاتی ہیں..."عمر نے زہر خند ہوکر کہا۔۔۔"تُم نے میرے پیچھے اپنی جاب گنوا دی یار کیا ضرورت تھی بولنے باقیوں کی طرح چُپ رہتے...""میں بے ضمیر اِنسان نہیں ہوں علی جو سب کُچھ دیکھ کر بھی چُپ رہوں..."عمر نے قطعی انداز میں کہا..."ابھی گھر چلتے ہیں رات میں یا کل صبح ملتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے آگے..."عمر نے ہموار لہجے میں کہا..."شکریہ عُمر...""ایک ماروں گا تُجھے بھائی ہے اپنا یار تُو.."عمر نے اُسے گلے لگا کر کہا..."چل اب خُدا حافظ ملتے ہیں پھر لمبو..."عمر نے مسکرا کر کہا..."ہاں اللہ حافظ گنجو۔۔۔"علی نے اُس سینے پر مکا مار کر کہا...(جاری ہے)نوٹ: ایپی سوڈ تھوڑی لمبی تھی اِس لیے ٹائم لگ گیا بلکل ابھی فارغ ہوا ہوں لکھ کر تو معذرت قبول کیجئے اور لمبی قسط ہے تو ریویو بھی اچھا دیجئے گا... 😂😂😂