#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۶ (2nd last episode)
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"نور نور..."
علی نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اُسے اُٹھایا...
"علی میرا بچہ..."
وُہ بُری طرح چلائی...
"کُچھ نہیں ہوگا ،کُچھ نہیں ہوگا تُم رُکو میں ٹیکسی... تُمہیں چھوڑ کر کیسے جاؤں..."
اُسے کُچھ نہیں سمجھ آرہا تھا کیا کرے نور کی نکسیر پھوٹ گئی تھی سر سے بھی خون بہہ رہا تھا....
"علی بہت درد ہورہاہے علی..."
درد کی شدت کے باعث نور نے اُس کے ہاتھ کو اتنی زور سے پکڑا کے ناخنوں سے علی کے ہاتھ پر خراشیں پڑ گئیں...
"کُچھ نہیں ہوگا ہمت کرو میں ٹیکسی لے کر آتا ہوں تُم ہمت کرو..."
علی نے اُس کا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے کہا...
"علی نہیں جائیں بہت درد ہورہاہے...... اللہ.. اُس نے اپنا پورا زور لگا کر علی کو پکڑ لیا....
"دانیال...دانیال.. امی.."
اُس نے وہی بیٹھے بیٹھے زور سے آواز لگائی...
"آواز بند کرو ٹی وی کی نمرہ مُجھے لگ رہا ہے کوئی آواز دے رہا ہے مُجھے .."
دانیال نے نمرہ سے کہا..
"علی چیخ رہا ہے..."
شفق خاتون بھاگی بھاگی اندرونی کمرے سے باہر نکلیں..
"امی..امی..."
علی کی دوبارہ آواز پر وُہ حواس باختہ سیڑھیوں کی طرف بھاگیں...
"نہیں برداشت ہورہا علی..."
وُہ بُری طرح رونے لگی...
"کیا ہوا علی ..؟"
شفق خاتون نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا...
"کیا ہوا نور کو.."
اُسے یوں خون میں دیکھ کر اُن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے...
"دانیال ٹیکسی لے کر آؤ جلدی.."
علی نے چیخ کر کہا تو وہ سرعت سے نیچے بھاگا...
"علی میرا بچہ کُچھ نہیں ہونا چاہیے اُسے.."
نور مسلسل روتے ہوئے ایک ہی بات کہہ رہی تھی...
"کچھ نہیں ہوگا ہم ہاسپٹل جارہے ہیں تُم ہمت کرو بس ہوش میں رہو میری جان..."
علی نے اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بہت ضبط سے کام لے رہا تھا...
"گر گئی...امی نور پریگننٹ ہے.."
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اُس نے شفق خاتون سے کہا...
"نور بچے کُچھ نہیں ہوگا گہری سانسیں لو کُچھ نہیں ہوگا بس ہوش میں رہو.."
شفق خاتون نے فوراً آگے بڑھ کر اُس کا سر اپنی گود میں رکھا اور محبت سے کہا...
"بھائی آپ سنبھالیں خود کو کُچھ نہیں ہوگا ہمت سے کام لیں آپ نے تو بلکل ہاتھ پیر ہی چھوڑ دیے ہیں.."
نمرہ نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو اُس نے اُسے گلے سے لگالیا...
"سب ٹھیک ہوجائے گا نور بیٹا تھوڑی ہمت کرو بس ہم سب تمہارے پاس ہیں.."
شفق خاتون نے اُسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا مگر وہ بےہوش ہوچکی تھی...
"علی اِس کو نیچے لے کر چلو..."
علی نے آگے بڑھ کر اُسّے اُٹھایا اور جلدی جلدی سیڑھیاں اُترنے لگا...
"آرام سے علی..."
سبحان نے اُسے ٹوکا...
"نور آنکھیں کھولو..."
علی نے اُسّے صحن میں پڑے تخت پر لٹایا...
"یہ تو بےہوش ہوچکی ہے.."
وُہ گھبرا کر بولا...
"کُچھ نہیں ہوا بیٹا کُچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوگا سب تُم اتنے کمزور نہیں ہو...."
شفق خاتون نے اُسے بُری طرح جھڑک دیا...
"بھائی ٹیکسی آگئی ہے..."
علی اُسّے اُٹھائے باہر کی طرف بھاگا شفق خاتون اور سبحان صاحب اُس کے ساتھ تھے...
"ابو آپ لوگ نکلیں میں بائک پر آرہا ہوں پیچھے.."
دانیال نے سبحان صاحب سے کہا اور واپسی گھر کے اندر بھاگا اور اپنے کمرے میں آیا...
"یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ...؟"
تانیہ نے اُسے الماری سے پیسے نکالتے ہوئے دیکھا تو تنک کر بولی...
"ہاسپٹل لے کر بھابھی کو وہاں ضرورت ہوگی..."
"ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا کیا سارے پیسے لے کر جارہے ہیں آپ.."
"تمہارے اندر انسانیت ہے کہ نہیں..."
اُسے تانیہ سے ہرگز بھی اتنی سفاکی کی اُمید نہ تھی...
"ہاں ہاں لے جائیں آپکی محبوبہ جو ہے تکلیف میں..."
وُہ چلائی...
"میں کیا کروں تمہارا کتنی گندی عورت ہو تُم تمہارا فیصلہ میں آکر کرتا ہوں ابھی مُجھے جانا ہے.."
"ہاں جائیں اپنی محبوبہ کے پاس.."
وُہ پیچھے سے پھنکاری...
"بھائی میں چلوں گی آپکی ساتھ..."
نمرہ برقع پہن کر صحن میں کھڑی تھی..
"چلو..."
اُس نے بائک باہر نکالتے ہوئے کہا...
"مرا جارہا ہے اپنی بھابھی کے پیچھے..."
تانیہ نے الماری کا دروازہ پوری شدت بند کرتے ہوئے کہا اُس کی آنکھوں میں نفرت اُتری ہوئی تھی...