#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۱۶
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"محبت میں ناکامی مُجھے ہوئی ہے مگر اِس کا غصّہ میں اُس پر کیوں نکال رہا ہوں نہ تو وہ میری زندگی میں زبردستی آئی ہے نا ہی کسی مجبوری کے تحت میں نے اُسے اپنایا ہے .. اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنی مرضی سے اُسے اپنے نکاح میں لیا ہے.."
سڑک کے کنارے کنارے چلتے چلتے وُہ بحرِ ندامت میں ڈوبا ہوا تھا...
"اپنی ناکامیوں کا بدلہ دوسروں سے لینے والے لوگ بُزدل ہوتے ہیں..."
اُس کے اندر سے آواز آئی تھی..
"میں اُس کے کسی فرض میں کوتاہی نہیں برت رہا بحیثیت بیوی کے اُس کے جو جو حقوق ہیں میں وُہ سب پورے کر رہا ہوں اِس زیادہ کیا کروں اپنے دِل کو کیسے سمجھاؤں.."
وُہ خود سے سوال کر رہا تھا مگر جواب ندراد تھا...
اُس نے ایک گہری سانس لے اور فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا وُہ شدید پریشان تھا اور کیوں تھا اِس سوال کا جواب وُہ نہیں جانتا تھا اِن دس دنوں میں اُن دونوں کے بیچ کوئی تلخ کلامی نہیں ہوئی سب بہت اچھا جارہا تھا مگر آج زونیہ کو دیکھ کر وُہ پھر سے اُسی فیز میں جا پہنچا تھا...
"یا اللہ میری مدد کر تُو بھی جانتا ہے میں کوئی حق تلفی نہیں کر رہا مگر پھر کیوں میں مطمئن نہیں ہوں کیوں مُجھے اُس کی نظریں شکایت کرتی محسوس ہوتی ہیں کیوں..؟
سوال ہزاروں تھے مگر جواب کسی کا نہیں اِسی طرح اُلجھا ہوا وُہ گھر کی جانب چل دیا....
"بھائی گجرے لے لو صرف تیس کے ہیں بھائی میں اور میری بہنوں نے کھانا نہیں کھایا صبح سے..."
دس بارہ سالہ بچہ ایک لکڑی میں گجرے لٹکائے اُس کے سامنے کھڑا تھا...
"نہیں چاہیے بیٹا.."
وُہ نرمی سے کہہ کر آگے بڑھ گیا بچہ بھی مایوس شکل لے کر دوسری سمت چلنے لگا...
"نور کے لئے لے لوں؟.."
اُس نے خود سے پوچھا اور پھر سرعت سے پیچھے مڑ کر بچے کو پکارا ..
"بچے ادھر آؤ.."
لڑکے کے اُداس چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ..
"بیٹا دو ہاتھ میں پہننے والے دے دو اور ایک بالوں میں لگانے والا.."
وُہ والٹ سے سو روپے کا نوٹ نکالتے ہوئے بولا...
لڑکے نے جلدی جلدی ایک اخبار کے ٹکڑے میں تینوں گجرے لپیٹ کر اُسے دے دیے...
علی نے پیسے اُس کی طرف بڑھائے...
"بھائی کُھلے نہیں ہے دس روپے میرے پاس.."
اُس نے نوٹ لیتے ہوئے کہا..
علی اُس کے جھوٹ پر مسکرادیا کیونکہ وُہ اُس کے دوسرے ہاتھ کی مُٹھی میں مقید دس روپے کے جھانکتے نوٹ کو دیکھ چُکا تھا...
"کوئی بات نہیں تُم رکھ لو اور دیکھو جھوٹ نہیں بولتے یہ غلط بات ہے ...."
اُس نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا..
"بہت شکریہ بھائی اللہ آپکو اور بھابھی کو بہت خوش رکھے بھائی آپ دونوں کی جوڑی سلامت رہے.."
وُہ اُس کی نصیحت کو یکسر نظرانداز کیے خوشی کے مارے رٹے ہوئے جملے دہرانے لگا..
"وے فضل ویکھ میرے پاس پورے بیس روپے ہیں ابھی ابھی ایک گاڑی والے نے دیے شیشے صاف کرنے پر ورنہ اتنے کوئی بخیل ہوتے ہیں یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے شیشے بھی صاف کروا لیتے ہیں اور گالیاں دے کر بغیر پیسے دیے آگے بڑھ جاتے.."
"میرے پاس بھی تیس روپے ہیں تین پیکٹ بک گئے کھٹی میٹھی گولیوں کے تیرے پاس کتنے ہے میں تو آج چاول کھاؤں گا سامنے والی دکان کے.."
چودہ پندرہ سولہ سال کی دو لڑکیاں اُس لڑکے کے پاس آکر بولیں...
"میرے پاس تُم دونوں سے زیادہ ہیں پورا سو روپیہ بھائی نے دیا ہے دس روپے تحفے میں.."
وُہ اُن دونوں کی آنکھوں کے سامنے لال پتی نچا کر بولا...
"کیوں زیادہ کیوں دیا کیا کہا بھائی نے تُجھے کرنے کو.."
اُن میں سے ایک لڑکی نے ترچھی نظروں میں اُسے دیکھ کر پوچھا..
علی کا ہاتھ دوبارہ والٹ کے اندر گیا اور سو سو کو دو نوٹ مزید نکال کر اُن دونوں لڑکیوں کو دیتے ہوئے کہا...
"یہ لو اور اچھے سے کھانا.."
"بہت شکریہ صاحب.."
پھر اُسی لڑکی نے فوراً پیسوں پر جھپٹتا مارکر کہا..
اُن لوگوں کو وہی چھوڑ کر علی آگے بڑھ گیا...
ابھی کچھ قدم ہی چلا تھا کہ اُسے محسوس ہوا کوئی اُس کے پیچھے آرہا ہے...
اُس نے اپنے خیال کی تصدیق کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ وہی لڑکی تھی...
"کیا ہوا بیٹا.."
اُس نے حیرت سے پوچھا..
"تمہاری اپنی جگہ ہے یا پیچھے جھاڑیوں میں چلنا ہے.."
اُس لڑکی کی بات پر علی کا دماغ بھک سے اڑ گیا وُہ فوراً سمجھ گیا تھا وُہ کیا کہنا چاہ رہی تھی...
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے کس قسم کی باتیں کر رہی ہو.." وُہ شدید غصے میں کہتے ہوئے دو قدم آگے بڑھا...
لڑکی سہم کر پیچھے ہٹی...
"غصہ کیوں کرتا ہے اچھا چل میرے پاس ہے جگہ.."
کُچھ دیر بعد سنبھل کر دوبارہ بے باکی سے بولی تو علی کو مزید طیش آیا مگر اب کی بار ضبط کرکے بولا...
"تُم کیا ہر پیسے دینے والے کے پیچھے ایسے ہی چلی آتی ہو۔۔"
تلخ لہجے میں بولا..
"کوئی بغیر مطلب کا ایک ڈھیلا نہیں دیتا صاحب یہ تو پھر بھی دو سو روپے ہیں تُمہیں نہیں جانا تو سیدھا بولو میں پیسہ واپس نہیں کروں گی.."
اُس نے قطعی انداز میں کہا..
"مت کرو بیٹا میں نہیں مانگ رہا مگر اِس طرح کسی کے بھی پیچھے مت جایا کرو وُہ آپکو نقصان پہنچا سکتا ہے اپنے ماں باپ کو بتاؤ جو بھی تُمہیں کُچھ غلط کہے.."
وُہ بہت ڈھکے چھپے لفظوں میں بات کر رہا تھا...
"میری ماں نے ہی تو بتایا ہے یہ کیا کر اور باپ بھی میرا سڑک کنارے کسی درخت کے نیچے یا اندھیری جگہ پر بیٹھا آدمیوں کی مالش کرتا ہے اب تم اتنا تو سمجھدار ہے کہ وُہ کیا کرتا ہے بغیر مطلب کہ کوئی کُچھ نہیں دیتا میرا باپ کہتا ہے لوگوں کی ضرورتوں سے کھیلو..."
وُہ اپنی بات مکمل کرکے واپسی جانے کے لئے مُڑ گئی علی نے اُسے نہیں روکا بلکہ وُہ کنگ تھا معاشرے کے اِس روپ کو دیکھ کر اپنی اٹھائیس سالہ زندگی میں ایسے کئی واقعات وُہ سُن چُکا تھا مگر جب خود پر گُزری تو وُہ معاشرے کا احتساب کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
ہم جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی کے ذریعے یا دوسروں کے حقوق غضب کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ آخر ہم ان معاشرتی برائیوں کو کیوں اپناتے ہیں اور اپنے کارناموں پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ۔ حقیقت تو یہ ہے ہمارے اردگرد ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں کہ جنہوں نے اِنہی غیر اخلاقی معاشرتی رویوں کو پسِ پشت ڈال کر دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اور ایسے لوگوں کو ہمارا معاشرہ بھی سر آنکھوں پر بیٹھاتا ہے ۔
ایسے ہی لوگوں کا معاشرے میں مقام ہے جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے۔
پیسہ فی زمانہ عزت وقار کی علامت بن چکا ہے، راتوں رات امیر ہونے والوں کا مطمع نظر صرف پیسہ کمانا اور خود کو ایک بڑا آدمی ثابت کرنا ہوتا ہے اپنے اِنہی مقاصد کےلئے وہ اپنے ضمیر تک کا سودا کرنے سے گریز نہیں کرتا ،یہی منافقانہ طرز عمل اور پیسہ کمانے کی سوچ ایک دولت مند انسان کی حیثیت سے اُس کا قد کاٹھ تو بڑھا دیتی ہے مگر وہ لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کر پاتا ۔ ضمیر فروشی ، سے لے کر جسم فروشی منافقت اور مکر و فریب یہی اصول عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور عام آدمی کے ذہنوں میں نقش ہو جاتے ہیں وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ یہی رویئے مِن حیث القوم پوری قوم میں سرایت کر چکے ہیں، ہم کسی بھی برائی کو برائی سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم خود اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے مسائل کےلئے حکومتی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں،چاہے ہمارے گھر کے سامنے ایک گٹر کا ڈھکنا ہی کیوں نہ ہو ۔
"بغیر مطلب کے کوئی کُچھ نہیں دیتا.."
وُہ سخت رنجیدہ تھا اُس لڑکی کی ہر بات سچ تھی...
وُہ تاسف سے سر جھٹکتا ہوا واپسی کے راستے پر چل دیا...