قسط نمبر ۱۳

1.4K 101 23
                                    



قسط نمبر ۱۳


"آپ نے اپنی بڑی بہو سے اب تک ملوایا نہیں شفق بہن.."
تسلیم نے مصنوئی خفگی سے کہا...
"ابھی لے کر چلتی ہوں دراصل یہاں بھی نکاح ہورہا تھا تو وہاں میں گئی ہی نہیں علی کے ابو اور دو تین گھر کی بڑی عورتیں چلی گئیں.."
اُنہوں نے ایک مہمان سے مبارک باد وصول کرتے ہوئے جواب دیا...
"دانیال کی کال آئی تھی بتا رہا تھا نکاح تو ہوگیا ہے.."
اُنہوں نے چپل پاؤں میں ڈالتے ہوئے کہا..
"مُجھے بڑا اشتیاق ہے آپکی بہو کو دیکھنے کا آپ نے علی جیسے ہیرے کے لیے کیا نگینہ تلاش کیا ہے.."
اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور شفق خاتون کے ساتھ باہر نکل گئیں...
"السلامُ علیکم آنٹی بہت بہت مبارک ہو آپکو.."
نادیہ نے شفق خاتون کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور قریب جاکر اُن سے بغل گیر ہوگئی..
"علی کی بیوی یہاں رہتی ہے.."
تسلیم نے حیرت سے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا..
"ہاں..بیٹا نور کہاں ہے.."
اُنہوں نے تسلیم کو جواب دے کر نادیہ سے پوچھا...
"آنٹی وُہ اندر ہے آئیں میں آپکو لے کر چلتی ہوں.."
نادیہ نے رسان سے کہا اور اندر کی طرف چلنے لگی..
"نور...اچھا تو علی سے شادی طے تھی اُس کی مُجھے لگا اُس کی ماں نے ہمیں ٹرخایا تھا.."
اُنہوں نے سر کو خفیف سی جنبش دی..
آسمانی رنگ کی خوبصورت کرتی جس پر سفید دھاگوں سے نفیس سی کڑاھی ہوئی تھی ،سفید چوڑی دار پاجامہ اور سفید اور آسمانی ہی رنگ کا امتزاجی بڑا سا دوپٹہ اچھی طرح سینے اور سر پر پھیلائے میک اپ اور ہر قسم کی تصنع سے پاک اُجلا اور کھلا کھلا چہرہ لیے وُہ نور ہی تھی اُسے کسی قسم کے بناؤ سنگھار کی ضرورت ہی نہیں تھی وُہ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال جو تھی آبشار کی مانند گرتے اخروٹی بال جو ہر وقت چوٹی میں بندھے رہتے تھے آج نادیہ کے کہنے پر اُس نے کمر پر کھلے چھوڑ رکھے تھے کانوں میں ہم رنگ آویزے اور گلے میں باریک سی سونے کی چین پہنے وُہ حور وش دکھائی پڑتی تھی اُس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ رقصاں تھی ہاں پہلی بار وُہ دِل سے مسکرا رہی تھی علی جیسے اِنسان کی ہمراہی کا احساس اُس کے لیے تھا ہی اتنا خوبصورت..
ازرق چشم مزید خوبصورت دِکھ رہے تھے..
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہے .."
تسلیم کے منہ سے بے اختیار نکلا جبکہ کُچھ فاصلے پر کھڑی عافیہ نے نخوت سے اُس کی طرف دیکھا..
"اتفاق دیکھیں شفق بہن میں اِس گھر میں پہلے بھی آچکی ہوں اور نور کو تو میں نے فارس کے لیے پسند کیا تھا پہلے مگر مجھے عافیہ بہن نے کہا اُس کی بات پہلے سے طے ہے اور دیکھیں کہاں طے ہے.."
اُنہوں نے محبت سے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا...
"بیٹا بہت خوبصورت لگ رہی ہو.."
وُہ اُس کے صبیح چہرے کو دیکھتے ہوئے بولیں..
"نصیب کی بات ہے بہن بس یہ میرے علی کی قسمت میں لکھی تھی.."
شفق خاتون نے محبت سے نور کو دیکھا...
"علی اور اِس کی جوڑی بہت اچھی لگے گی بہت پیاری..."
تسلیم نے پوری سچائی سے کہا تو اُس کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر گئے...
"بہت خوش قسمت ہو بہن اتنی حسین اور شریف بہو مِلی ہے تمہیں گھر کی یقیناً جنت بنادے گی.."
وُہ مسلسل نور کی تعریف کناں تھیں...
"انشاءاللہ.."
شفق خاتون نے مسکرا کر کہا...
"السلامُ علیکم۔۔"
زبیر نے دروازے پر کھڑے ہوکر سلام کیا...
"وعلیکم اسلام بیٹا علی آگیا..؟"
شفق خاتون اُس سے مخاطب ہوئیں..
"جی وُہ مسجد سے سیدھا گھر گیا ہے فارس کے ساتھ .."
اُس نے متانت سے جواب دیا..
"آنٹی یہ میرے شوہر ہیں زبیر.."
نادیہ نے تسلیم کی سوال کرتی نظروں کو دیکھتے ہوئے اُسے متعارف کروایا..
"اچھا! ماشاللہ بہت اچھی جوڑی ہے اللہ ساتھ بنائے رکھے محبت قائم رکھے.."
تسلیم نے دونوں کے سر پر باری باری ہاتھ پھیرتے ہوئے دُعا دی..
"آمین ثم آمین.." زبیر نے بے ساختہ کہا تھا...
"آنٹی کھانا کھا کر جائے گا.."
نادیہ نے اُن دونوں سے کہا..
"ضرور رُکتے مگر گھر میں سارے مہمان آئے ہوئے ہیں کم کم کرتے بھی پچاس کے قریب مہمان ہوگئے حالانکہ صرف قریبی عزیزوں کو بلایا تھا اب گھر میں جم غفیر لگا ہوا ہے تو اُنہیں بھی دیکھنا ہے جاکر۔۔"
شفق خاتون نے سہولت سے اِنکار کرتے ہوئے وجہ بھی بتائی..
"ٹھیک ہے آنٹی میں سمجھ سکتی ہوں.."
نادیہ نے نرمی سے کہا..
وُہ دونوں چلی گئیں..
"بہت بہت مبارک ہو میری بہن اللہ اِس نئے سفر میں تمہاری راہ میں خوشیاں ہی خوشیاں بکھیر دے کسی دُکھ یا تکلیف کا شائبہ تک نہ ہو ہمیشہ اسی طرح مسکراتی رہو آباد رہو اللہ نصیب اچھے کرے..."
زبیر نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...
نور کی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں ...
"ارے چندا ایسے موقع پر روتے تھوڑی ہیں پاگل.."
نادیہ نے اُسے اپنے سینے سے لگالیا...
"آپی ابو کی بہت یار آرہی ہے اگر وہ آج ہوتے تو کتنے خوش ہوتے..."
اُس نے ہچکیوں کے درمیان کہا..
"ہاں ماں باپ کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا کبھی بھی میں نے بھی بہت یاد کیا تھا ابو کو اِس موقع پر کاش ابو ہوتے.."
اُسے چُپ کرواتے کرواتے وُہ خود بھی رونے لگی۔۔۔
"اچھا بس اِس طرح روکر تُم دونوں اُن کی روح کو تکلیف تو مت پہنچاؤ ویسے تُم لڑکیوں کو بہانہ چاہیے آنسو بہانے کا.."
زبیر نے پیار بھری سرزنش کی تھی...
"ہاں کیونکہ ہم لڑکیاں حساس ہوتی ہیں بہت آپ مردوں کی طرح بے حس تھوڑی پتھر جیسی.."
نادیہ نے جملہ کسا...
"اچھا جی اب ہم بے حس اسی بے حس اِنسان پر آپ اپنا دِل ہار گئی ہیں .."
زبیر نے نادیہ کو شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا..
"آپ.." وُہ بے طرح جھینپ گئی تھی..
نور اُن کا نوک جھوک دیکھ کر ہنس دی...
"ہنستے ہوئے بہت پیاری لگتی ہو اللہ یہ مسکراہٹ دائمی کرے آمین۔"
زبیر نے سچے دِل سے کہا..
"اچھا زبیر فرنیچر کے لئے کب جانا ہے؟.."
"کل شام میں.."
"چلیں ٹھیک ہے نور تُم بھی چلنا آخر کو تمہارا فرنیچر تمہاری پسند کا ہونا چاہیے.."
نادیہ دوبارہ اُس سے مخاطب ہوئی...
"آپ دونوں کتنا کر رہے ہیں میرے لیے.."
وُہ نظریں جھکائے ہی بولی..
"بس چُپ ہم کیا انوکھا کر رہے ہیں سب بیٹیوں کو دیا جاتا ہے ویسے تمہاری شوہر نے سختی سے ممانعت کی کسی بھی قسم کے جہیز کی مگر گُڑیا یہ دُنیا داری ہے یہ رسمیں تو نبھانی ہوں گی نا اور تُم کیوں اِن چیزوں کی فکر کرتی ہوں میں اور تمہارے بھائی ہیں اِن سب کے لیے تُم بس خوش رہو.."
نادیہ نے اُس کے چہرے کو محبت سے چھو کر آنسو صاف کرتے ہوئے کہا...
"مگر زبیر بھائی آپ کی خود کی بھی شادی ہے میری شادی پر اتنا.."
"ششش... تمہیں بہن بناکر رخصت کر رہا ہوں اور بھلا بھائی اپنی بہنوں پر احسان کرتے ہیں بس اب چُپ بلکل.."
زبیر نے ذرا سختی سے کہا تو وُہ چُپ ہوگئی...
"بہت شکریہ بھائی آپکے ہوتے ہوئے مُجھے بڑے بھائی کی کمی محسوس نہیں ہورہی.."
"ہو گی بھی نہیں میں ہوں نا.."
زبیر نے شفقت سے کہا تو وُہ آسودگی سے مسکرا دی.....

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now