#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"ہمیں شادی ایک ڈیڑھ ہفتہ آگے بڑھا دینی چاہئے..."
سبحان صاحب نے شفق خاتون سے کہا...
"ساری تیاریاں ہوچکی ہیں ہال بک ہیں اِس طرح تو نقصان ہوجائے گا امی..."
دانیال فوراً بولا...
"تمہارے پلے سے تو ویسے بھی کُچھ نہیں جارہا تو اتنا غوں غاں مت کرو.."
فرح نے اُسے بری طرح جھڑک دیا...
"یہ کیا تُم ہر وقت مُجھے طعنہ دیتی رہتی ہو تیرے شوہر سے تو ایک ڈھیلا نہیں لیا ناں پھر کیوں اتنی پُھدک رہی ہے..."
دانیال نے سخت تپے ہوئے لہجے میں کہا...
"اے تمیز سے بات کرو بدتمیزی ہرگز برداشت نہیں کروں گی میں تمہارا نہیں کھا رہی جو سنوں گی البتہ تُم ضرور دوسروں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہو اور اب لا رہے ہو ایک اور کو بوجھ بنا کر...'"
فرح نے ہاتھ اُسی کے انداز میں جواب دیا...
"یہ آتی ہی کیوں ہے جب سے آئی ہے اِدھر ہی مری پڑی ہے سسرالیوں نے نکال دفع کیا ہے کیا؟..."
دانیال پھر بھی باز نہ آیا۔۔
"یہ کس طرح بات کر رہے ہو تُم بہن سے.."
سبحان صاحب نے غصّے سے کہا...
"اِسے بھی تو بولیں اپنی حد میں رہے اپنے گھر کے مسئلے دیکھے یہاں آگے لگانے کا کام نہ کرے.."
وُہ متنفر انداز میں بولا...
"میں یہاں اِس کی یہ بکواس سننے نہیں آئی ہوں اِس کا گھر نہیں ہے یہ میرے باپ کا گھر ہے میں سو بار آؤں گی تُم ہوتے کون ہو مُجھے روکنے والے..."
فرح نے تضحیک آمیز انداز میں کہا...
"کیا مچھلی بازار بنا کر رکھا ہے گھر کو جو بات ہورہی تھی وُہ تو ادھوری رہ گئی تُم لوگ اپنی اپنی شروع ہوگئے..."
سبحان نے بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع کروانا چاہا...
"اِسے سمجھائے کہ اپنی چونچ بند رکھے..."
دانیال نے تنک کر کہا...
"میرا یہی کہنا ہے شادی کی تاریخ آگے بڑھائیں ورنہ پرسوں شادی ہے اور بھائی شرکت نہیں کر پائیں گے اور ایک بات اور سُن لیں آپ اگر علی بھائی شادی میں شریک نہیں ہوئے تو میں بھی نہیں آؤں گی کیونکہ اِس خود غرضی کا حصہ کم از کم میں تو ہرگز نہیں بننا چاہوں گی.."
فرح کا انداز قطعی تھا...
"تمہارے آنے یا نہ آنے سے فرق پڑتا ہی کسے ہے اچھا ہے سُکون سے ہوجائے گی میری شادی.."
دانیال نے اُس کی دھمکی کے جواب میں بے فکری سے کہا...
"کُچھ تو شرم کرلو بے غیرتوں..."
شفق خاتون اپنے بھائی کے سامنے شرمندہ ہوکر بولیں...
"میرا بھی یہی کہنا ہے سبحان بھائی کہ شادی کی تاریخ آگے بڑھا دیں علی ہی شرکت نہیں کر پائے گا تو کیا فائدہ ویسے بھی ہم کون سا مہینہ آگے بڑھا رہے ہیں ہفتہ ڈیڑھ تو بڑھا رہے جب تک وُہ مزید بہتر ہوجائے گا..."
صداقت ماموں نے سنجیدگی سے کہا...
"میں نہیں مانتی اِس بات کو بھئی سب تیاریاں ہوچکی ہیں اب یوں عین موقعے پر تاریخ آگے بڑھانا مُجھے نہیں ٹھیک لگ رہا علی کا تھوڑی مسئلہ ہے اُس کی شادی تھوڑی ہے جو وُہ نہیں ہوگا تو شادی نہیں ہوگی..."
شفق خاتون نے اُن کی بات کی نفی کی...
نور کے سہارے لاؤنج میں داخل ہوتا علی اندر سے آتی شفق خاتون کے الفاظ سُن کر شدید حیرت کا شکار ہوا...
"علی کا تھوڑی مسئلہ ہے اُس کی شادی تھوڑی ہے جو وُہ نہیں ہوگا تو شادی نہیں ہوگی.."
اُس نے بے اختیار نور کی طرف دیکھا جو پہلے سے ہی اُسے دیکھ رہی تھی..
اُسے اپنی طرف دیکھتا پاکر نور نے اُسے گردن کے اشارے سے بات نظرانداز کرنے کا کہا جس پر وہ محض سر ہلا کر رہ گیا...
"امی بِلکُل ٹھیک کہہ رہی ہیں ماموں یہ میرا دِن تھوڑی ہے یہ تو دانیال کا دِن ہے اور اِس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہی ہوگی ابو شادی کی تاریخ آگے بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.."
علی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے متانت سے کہا جبکہ شفق خاتون نے نظریں چُرائی...
"تُم اکیلے کیسے رہو گے گھر اور علی..."
سبحان صاحب نے ہار مانتے ہوئے کہا کیونکہ وُہ جانتے تھے ہوگا وہی جو شفق خاتون نے سوچ لیا ہے...
"چند گھنٹوں کی تو بات ہے ابو بس۔۔"
علی نے بے فکری سے کہا...
"میں اِن کے ساتھ رُکوں گی ابو.."
نور نے سرعت سے کہا...
"کیا مطلب تُم بھی شادی میں شریک نہیں ہوگی..."
پوچھنے والی شفق خاتون ہی تھیں جن کے انداز سے نور سمجھ نہ سکی وُہ حیرت زدہ تھیں یا خوش...
"تُم کیوں نہیں جاؤ ہی بڑی بھابھی ہو تُم.."
سبحان نے سختی سے کہا...
"ٹھیک کہہ رہے ہیں ابو بالکل..."
علی نے بھی اُن کی تائید کی..
"مگر میں آپکو اکیلا چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں ٹھیک سے آپ سے چلا نہیں جارہا اور پھنے خان بننا ہے.."
وُہ سب کی موجودگی کو یکسر نظرانداز کرتی غصّے سے بولی جس پر سبحان صاحب سمیت دانیال اور فرح کی بھی دبی دبی ہنسی نکلی تھی علی شدید خفت سے دوچار ہوا...
"تو ٹھیک ہے ناں بیوی ہے اُس کی وہی خیال رکھے گی فرض ہے اُس کا..."
شفق خاتون کو نور کے لیے بحث ذرا پسند نہ آئی...
"تُم صحیح ہو جب دِل کیا بہو کی ذمےداریاں لاد دیا بڑی بہو بڑی بہو کہہ کر جب مطلب پورا ہوگیا تو جا بن صرف بیوی..."
سبحان نے ازراہِ مذاق کہا مگر وُہ ہضم نا کرسکیں...
"ہاں آپکا تو کام ہی یہی ہے سب کے سامنے مُجھے ذلیل کرکے رکھنا.."
وُہ دوپٹہ منہ پر رکھ کر رونے کی اداکاری کرتے ہوئے بولیں۔۔
"حد کرتے ہیں ابو آپ نے بھی امّاں کے اندر کی نشو کو جگا دیا اب روتی رہیں گی یہ..."
یہ چُٹکلہ چھوڑنے والا اُن کا چہیتا دانیال تھا...
"تمہیں اوور ہونے کی ضرورت نہیں ہے دانیال.."
علی نے فوراً تنبہیی انداز میں اُس سے کہا..
"چل چھوڑ ناں مذاق کر رہا تھا.."
اُنہیں کہاں برداشت تھا دانیال کو کوئی کُچھ کہے...
"علی گہری سانس لے کر رہ گیا.....