قسط نمبر ۵

1.4K 82 7
                                    


قسط نمبر ۵ 

زندگی کے بارے میں اگر سوچیں تو یہ کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
اِس زندگی کی وجہ سے ہی اس دنیا میں رشتے بنتے ہیں، ماں کا رشتہ ، باپ کا رشتہ، اولاد کا رشتہ اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک سے بندے کا رشتہ۔
دنیا کے یہ رشتے بڑھتے بڑھتے ایک خاندان ایک بڑا خاندان بن جاتا ہے اور وہ خاندان سالوں کے گزرنے سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
جب انسان چھوٹا ہوتا تو اس کے پاس کچھ نہ بھی ہو کم از کم وہ اس دوران وقت کا بادشاہ ہوتا ہے۔
اس کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔ جسے وہ کھیل کود اور کھا پی کر گزارتا ہے۔
انسان کی زندگی تب سے ہی شروع ہوجاتی ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں نفطہ کی شکل میں ہوتا ہے۔
پھر وہ نفطہ گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے ، پھر اس میں روح ڈال دی جاتی ، اس کی ہڈیاں بنتی ہیں اور کچھ ماہ کے بعد وہ مکمل ہوجاتا ہے۔
دنیا میں آنکھ کھلتے ہی وہ حوادث زمانہ سے لڑنا شروع جاتا ہے۔
ہاں نور نے پیدا ہوتے ہی لڑنا تو شروع کردیا تھا ...
بچپن میں بچوں کا کام صرف کھیلنا کودنا اور رونا ہنسنا ہوتا ہے مگر اُس کا یہ دور بھی اُس سے چھین لیا گیا وُہ اپنی ذات پر بڑا گہرا زخم کھا چُکی تھی اور جتنا گہرا زخم اتنی ہی گہری اور جامد خاموشی تھی اُس کے اندر...
وقت بدلتا رہتا ہے مصروفیات اس قدر بڑھ جاتی ہیں۔ یہ مصروفیات تعلیم سے لے کر دوستوں کی محافل تک محدود ہوتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں تعلیم ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہوتی۔ وُہ بھی انہی میں سے تھی..
ایک ایسی بچی جس کی عمر پڑھنے لکھنے اور دوستوں کے ساتھ وقت بیتانے کی تھی مگر معاشرہ کی سختیوں اور حالات کے بے رحم تھپیڑوں نے اسے وقت سے پہلے جوان بنا دیا تھا۔
وہ بچپن سے سیدھی جوانی کی عمر میں آ کھڑی ہوئی تھی۔

انسانی زندگی کی انتہائی مختصر سی یہ جھلک جسے چند لفظوں میں بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر حقیقت سے قریب تر ہے۔ زندگی میں ہر موڑ پر نشیب و فراز آتے ہیں، جسے یا تو بھلا دیا جاتا ہے یا انہیں قبر بھلا دیتی ہے اور حقیقت میں یہیں نشیب و فراز ، دھوپ چھائوں انسان کی زندگی ہوتی ہیں۔
اگر ہمیں ہر وقت خوشیاں ہی خوشیاں ملتی رہیں تو شاید ہمیں وہ خوشی کبھی خوشی نہ لگے جب تک ہمیں کوئی دکھ یا تکلیف نہ پہنچے۔

"نور میرا ڈریس استری کردیا تھا تو نے.."
صبا نےاپنے کمرے میں بیٹھے ہی آواز لگائی تو وہ جو رات سردرد کی زیادتی کے باعث سو نہ سکی تھی ابھی کچن میں بیٹھی اُونگھ ہی رہی تھی اُس کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھی....
"کہاں مرگئی ہے سنائی نہیں دے رہا کب سے چلا رہی ہوں.."
اُس نے مزید زور سے آواز لگائی...
"جی آپی رات کو ہی استری کرکے آپکی الماری میں لٹکا دیے تھی.."
اُس نے اپنی آواز کو حتیٰ الامکان بلند اور نرم رکھتے ہوئے کہا کیونکہ وُہ جانتی تھی ذرا بھی آواز اونچی ہوئی اُس پر نیا اِلزام لگ جانا بدتمیزی کا...
"لڑکے والے دوپہر تین بجے تک آجائیں گے جب تک سارے کام نپٹا کر اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے اوپر دفع ہوجانا اور خبردار خبردار اگر اُن لوگوں کے جانے ڈر سے پہلے نیچے اُتری تیری ٹانگیں توڑ دوں گی میں.."
عافیہ نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا تو وُہ محض سر ہلا کر رہ گئی...
"امی پیٹیز،مٹھائی،سموسے اور بوتل لانے کے لئے پیسے اور تیل بھی ختم ہوگیا ہے.."
اُس نے اٹک اٹک کر کہا...
"ہاں چل میرے ساتھ کمرے میں آکر پیسے لے لے.."
خلافِ توقع اُنہوں نے نرمی سے کہا....
"یہ لے اور گرم گرم سموسے لانا مائکروویو میں ہی رکھ دینا لا کر..."
ہزار ہزار کے تین نوٹ اُسے پکڑاتے ہوئے کہا...
"اور ہاں سارے پیسوں کا حساب لوں گی میں مارنے کی سوچیو بھی مت.."
انداز تنبیہ والا تھا...
"جی امی..."
وہ کہہ کر اپنے کمرے میں آگئی اور برقع پہن کر اُس نے سیاہ چادر لے لی اور نقاب کرکے باہر نکل گئی...
موسم آج کُچھ گرم تھا کراچی میں سردی کے موسم میں بھی گرمی کی آنکھ مچولی چلتی رہتی تھی...
"بھائی دو کلو مکس مٹھائی دے دیں ایک ایک درجن آلو،چکن کے سموسے،آدھا درجن بیف سموسے اور ایک درجن چکن، آدھا درجن بیف اور آدھا درجن ویجی پیٹیز بھی دے دیں اور ڈیڑھ لیٹر كوک اور سیون اپ کی بوتل اور چھ آئس اور چاکلیٹ پیسٹری دے دیں.."
""باجی ایک ہزار نو سو پینتالیس روپے ہوگئے.."
اُس نے بل بناکر کر کہا..
اُس نے بیکری والے کو پیسے دیئے اور خود گرما گرم سموسوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے محظوظ ہوتی کڑاہی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی جہاں گرم گرم سموسے کچوریاں اور رول اُسے منہ چڑاتے محسوس ہوئے...
اُس کا دِل للچانے لگا تھا اور سموسے یوں بھی اُسے مرغوب تھے...
"آپکا کیا ہے باجی..."
سموسے غصے سے اُبلتے تیل میں ڈالتا وُہ پنجابی انداز میں گویا ہوا...
نور نے واضح محسوس کیا تھا اپنے منہ میں پانی مگر اپنی بے بسی اور کم مائیگی کے احساس نے اُسے حلق تک کڑوا کردیا وُہ اکثر یوں ہی بددل ہوجایا کرتی تھی زندگی سے اُس کا بھی دِل کرتا تھا وُہ صبا اور نادیہ کی طرح اچھے کپڑے پہنے اچھا کھائے پڑھے مگر اپنے بے وقعت ہونے کا احساس بڑی شدت سے ہوتا تھا اِس سے بڑی کیا ستم ظریفی ہوگی وُہ ایک سموسے کو حسرت بھری نگاہوں سے تک ربی تھی...
اُس نے کاؤنٹر سے ملی پرچی اُسے دے دی..
"شیدے باجی درجن درجن آلو چکن اور آدھ درجن بیف سموسے پیک کر چھیتی..."
وُہ دوسرے کسٹمروں کو براؤن لفافوں میں سموسے رول پیک کرکے دیتے ہوئے لڑکے سے بولا...
"بھائی آپ جب تک ڈال کر رکھیں میں دوسرا سامان لے آتی ہوں سامنے پرچون کی دکان سے.."
"جلدی آنا باجی ورنہ سموسے ٹھنڈے ہوجائیں گے تو آپ نے ہی کہنا.."
وُہ بُرا سا منہ بناکر بولا...
"اُس نے سامنے دکان سے تیل لیا اور بقایا پیسے گننے لگی اُس کے پاس تین ہزار میں سے کُل ملا کر چار سو پچپن روپے بچے تھے...
"لائیں بھائی میرا سامان دے دیں.."
اُس نے دو شاپر اُسے پکڑا دیے جنہیں لے کر وُہ بیکری کے اندرونی حصے میں چلی گئی وہاں سے اُس نے پیسٹری پیٹیز اور کولڈ ڈرنکس کی شاپر بمشکل سنبھالی اور سامان سے لدی پھندی واپس گھر جانے لگی بیکری سے باہر نکلتے وقت دوبارہ سموسوں کی خوشبو اُس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اب کی بار وُہ رُک گی ایک نگاہ مُٹھی میں بند چار سو پچپن روپیوں پر ڈالی اُس کا دِل ڈانواں ڈول ہونے لگا ..
"امی کو کہہ دوں گی تیل چھ سو تیس کا آگیا دو سموسے تو کھا ہی لوں گی.."
بالآخر اُس نے اپنے نفس کے آگے ہار مان لی آخر اِنسان تھی وُہ بھی فرشتہ تو نہیں تھی...
بھائی دو سموسے اور دے دیں الگ سے.."
اُس نے تیس روپے دے کر کہا اندر کہیں احساسِ جُرم سرزنش کر رہا تھا مگر اُس نے نہیں سنی...
چار شاپرز ایک ہاتھ میں پکڑے اور تین ایک ہاتھ میں پکڑے وُہ بری طرح ہانپنے لگی تھی گلے کے کونے پر پہنچ کر اُس نے ہاتھ اٹھا کر بمشکل نقاب کھینچ کر نیچے کیا گلی میں کوئی نہیں تھا اُس کا چہرہ عرق آلود تھا....
من من قدم ا اٹھاتی اُس نے ابھی نصف گلی بھی عبور نہیں کی تھی کہ یکدم پیچھے سے ون ٹو فائیو کی بھیانک آواز نے اُسے بے طرح دہلا دیا بائک چلانے والا بھی بیلنس برقرار نہیں رکھ سکا تھا گڈھے کے باعث وُہ جو کوئی بھی تھا اُسے بچانے کے چکر میں کٹ مارتے ہوئے وُہ بائک سمیت نیچے جاگرا تھا....
مگر اسے پرواہ تھی تو تھیلی پھٹ کر پانی کی طرح بہتے اپنے تیل کی تھی..
علی نے کھڑے ہوکر اپنے کپڑے جھاڑے اور بائک سنگل اسٹینڈ پر کھڑی کرتا اُس کی طرف متوجہ ہوا...
"یا اللہ امی مُجھے چھوڑیں گی نہیں پورے چھ سو روپے.."
اُسے سوچ سوچ کر ہی ہول آرہے تھے...
"معاف کیجئے گا میری وجہ سے آپکا نقصان ہوا.."
وُہ جھجھکتے ہوئے بولا مگر نور نے سُنا نہیں...
"پورا چار کلو تیل تھا یا اللہ.."
جھک کر کولڈ ڈرنک اُٹھاتے ہوئے وُہ مسلسل خود کلام تھی..
"میں معذرت چاہتا ہوں.."
وُہ واقعی شرمندہ تھا..
نور کو اب اُس کی موجودگی کا احساس ہوا تو فوراً اپنی غیر حالت پر قابو پاتے ہوئے بولی۔۔۔
"کوئی بات نہیں غلطی میری بھی تھی میں ہی گلی کے بیچ میں چل رہی تھی.."
اُس کی متاسفانہ نظریں ہنوز مٹی میں جذب ہوچکے تیل پر مرکوز تھیں..
"آپ پیسے رکھ لیں.."
وُہ اتنا بھی بے خبر نہیں تھا ایک محلے میں چند گھروں کے فاصلے پر رہتے ہوئے اُسے نور اور اس کی سوتیلی ماں کے کارناموں کا بہر طور علم تھا..
نور کو گویا کسی نے زندگی کی نوید سُنا دی ہو...
وُہ بغیر کُچھ کہے اُس کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنے لگی...
علی نے اپنی جیب سے پانچ سو روپے نکال کر اُس کی طرف بڑھائے...
"ابھی میرے پاس صرف اتنے ہی ہیں.."
اُس نے خفت آمیز انداز میں کہا..
"بلکہ آپ بس دو منٹ یہی رُکیں میں آپکا تیل لاکر دیتا ہوں آپ کہاں اتنا سامان اٹھائے دوبارہ مارکیٹ جائیں گی یا آپ اپنے گھر چلی جائیں میں وہاں دے دوں گا.."
اُس نے معقول پیش کش کی تھی...
"نہیں آپ یہی لا دیں جلدی گھر پر نہیں.."
اُس نے بے اختیار کہا وُہ اُسے کسی چیز کے لیے انکار نہیں کرسکتی تھی یہ اُس کا احسان ہی تھا جو وُہ پیسے بھی دے رہا تھا اور لاکر بھی...
علی نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور بھگاتا ہوا لے گیا..
اُس نے ساری تھیلیاں چبوترے پر رکھیں اُس کے سپید ہاتھ خطرنک حد تک سرخ ہورہے تھے گویا ابھی خون چھلکا دیں گے...
اُس نے تاسف سے زمین بوس اپنے دو سموسوں کو دیکھا اُس کے نصیب میں تھا ہی نہیں آج سموسے کھانا...
پانچ منٹ بعد علی کی واپسی ہوئی ہینڈل سے ایک بڑا شاپر لٹک رہا تھا...
اُس نے بائک نور سے کُچھ فاصلے پر روکی اور شاپر اُٹھا کر اُس کے پاس آیا..
"یہ لیں چار کلو ہی ہے.."
اُس نے شاپر اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے متانت سے کہا۔۔
"مگر یہ تو چھ سو.."
"وُہ آپ چھوڑیں.."
اُس نے اپنی بھاری آواز میں کہا تو وُہ جو کُچھ مزید کہنے کا ارادہ رکھتی تھی چُپ ہوگئی...
"بہت شکریہ..."
اُس نے علی کے ہاتھوں سے شاپر تھامتے ہوئے تشکر سے کہا اور باقی چیزیں اُٹھا کر خفتہ پا گھر کی جانب چل دی...
علی نے اپنی بائک اسٹارٹ کی اور دھواں اُڑاتا ہوا گلی سے باہر نکل گیا....

_________________________________________

وُہ سارا انتظام کرکے اور ٹرالی سجا کر عافیہ کے حکم کے مطابق اپنے کمرے میں آکر بند ہوگئی...

"السلامُ علیکم..."عافیہ نے دروازہ کھول کر سلام کیا اور مہمانوں کو اندر آنے کا راستہ دیا..."آئیے بیٹھئے.."
انتہائی نرمی اور شائستگی سے کہتی وُہ اُس جاہل عافیہ کا سایہ ہی لگتی تھی جو نور کے ساتھ ہوتی تھی۔۔۔
"گھر ڈھونڈنے میں کوئی مُشکل تو نہیں ہوئی آپکو..؟"
"نہیں بہت آسانی سے مِل گیا.."
مہمان خاتون نے نرمی سے کہا...
"کتنے لوگ ہیں آپکے گھر میں..؟"
اُنہوں نے متانت سے پوچھا...
"میں اور میری دو بیٹیاں نادیہ اور صبا بس جی اِن کے ابو بھری جوانی میں ہی چھوڑ کر چلے گئے بہت مشکلوں سے دو دو تین تین نوکریاں کر کے اپنی بیٹیوں کو پالا ہے اور پڑھایا ہے..."
وُہ دُکھ سے بولیں..
"بہت اچھی بات ہے یہ تو بہت ہمت والی خاتون ہیں آپ.."
تسلیم نے عزت افزا انداز میں کہا..
"میں صبا کو بلا کر لاتی ہوں.."
وُہ مسکرا کر کہتی ہوئیں اُٹھ کھڑی ہوئیں..
"چل صبا لڑکے والے آگئے ہیں اور تُو ابھی تو تیار ہی نہیں ہوئی.."
اُنہوں نے آئینے کے سامنے کھڑی لپ گلو لگاتی صبا سے کہا..
"کیسی لگ رہی ہوں میں .."
اپنی تیاری مکمل کرکے اُس نے ایک نظر درپن میں اپنے سراپے پر ڈالتے ہوئے عافیہ سے پوچھا...
"نورِ نظر چشمِ بدور بہت خوبصورت لگ رہی ہے میری بیٹی تو.."
اُنہوں نے سرتاپا اُسے دیکھ کر کہا...
ہلکے آسمانی رنگ کے شلوار قمیض میں ہم رنگ چھوٹے ٹاپس اور سونے کی باریک سے چین اور مہنگی میک اپ کٹس کی بدولت اُس کا چہرہ نظر انداز کیے جانے کے قابل ہرگز نہ تھا اُس کا صرف رنگ سانولا تھا نقوش پُر کشش تھے..
"اب چل جلدی کچن سے چائے اور دیگر چیزوں کی ٹرالی لے کر ڈرائنگ روم میں آجا..."
وُہ اُس کا کندھا تھپتھپا کر کہتی ہوئیں واپس چلی گئیں..
اُس نے دائیں بازو پر دوپٹہ اچھے سے سے کیا اور اپنے کرل بالوں کو آگے کرکے خود پر کلون کے اسپرے کیے اور باہر چلی آئی..
"ایکسکیوز می میری بہت ضروری کال ہے میں بات کرکے آتا ہوں.."
فارس معذرت کرتا ہوا اُٹھ گیا...
تب ہی صبا ٹرالی گھسیٹی اندر داخل ہوئی تھی مگر وُہ باہر نکل گیا..
"ہیلو درانی صاحب جی کیا کہہ رہے ہیں آپ.."
دوسری طرف سے آواز نہ آنے کی شکایت کے باعث وُہ کُچھ اُونچا بول رہا تھا..
"مُجھے آپ کی بات بلکل نہیں سمجھ آرہی ہے میں آپکو کال بیک کرتا ہوں.."
اُس نے کہہ کر فون بند کرکے سگنل بار کو دیکھا تو وہاں سنگلز تقریباً ختم تھے وہ صحن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر سگنلز کیچ کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر قریب ہی چیمبرز لگے ہونے کے باعث اُس علاقے میں سنگلز کا ایشو رہا کرتا تھا..
"شاید چھت پر سگنلز آجائیں.."
وُہ اوپر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگا...
"اگر علی تیل کے لئے پیسے نہ دیتے تو امی نے تو میری درگت ہی بنا دینی تھی.."
وُہ بیٹھی ہوئی سوچ ہی رہی تھی کہ باہر سے کُچھ کھٹ پٹ کی آواز سنائی دینے لگی..
"یہ اوپر کون آیا ہے اگر امی یہ نادیہ صبا آپی ہوتیں تو وہ تو آواز لگاتی پہلے.."
اُس نے خود سے کہا۔۔۔

(جاری ہے)

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now