قسط نمبر ۲۲"بیٹا تُم بھی بیٹھ جاؤ..."
سبحان صاحب نے روٹی نکالتے ہوئے نور سے کہا...
"نہیں ابو بھوک نہیں ہے بِلکُل بھی ایسا لگ رہا ہے کُچھ بھی کھاؤں یا پیوں گی تو اُلٹی ہوجائے گی.."
اُس نے سہولت سے اِنکار کیا...
"تُم نے غالباً صبح ناشتہ بھی نہیں کیا..؟"
اب کی بار شفق خاتون نے پوچھا...
"نہیں صبح میں نے کھا لیا تھا.."
واقعی اُس نے صبح دو توس کے ساتھ رات کی بچی ہوئی دال کھائی تھی...
"آپ سب کو بتانے کے لئے میرے پاس ایک اچھی خبر ہے.."
وُہ دزدیدہ نظروں سے مسلسل نور کو دیکھ رہا تھا...
"میری پرموشن ہوگئی ہے اور اب میں اپنے آفس میں سافٹ وئیر ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہوں.."
اُس نے خوشی سے کہا...
"اللہ کا شکر ہے دیکھا شفق اپنے بل بوتے پر اپنی محنت سے بھی میرا بیٹا اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں پہنچنے کے لئے تُم اُسے رشوت دینے پر مجبور کرتی تھی.."
اُنہوں نے علی کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا...
"بھائی پھر تو اپنی تنخواہ بھی بڑھی ہوگی.."
"ہاں ظاہر بڑھی ہے ماشاءاللہ سے ڈیڑھ کے قریب ہوگی باقی پیر کو پتا چلے گا جب باقائدہ میں اپنی پوسٹ سنبھالوں گا..."
اُس نے اپنی بات کہتے ہوئے نور کو دیکھا جو خود بھی مسکرا رہی تھی مگر اُس کی نظروں کا ارتکاز پاکر چہرے پر پھر سے لاتعلقی سجا لی...
"بھئی نور علی کے لئے خوش قسمتی لے کر آئی ہے کیونکہ مرد کو رزق تو عورت کے نصیب کا ہی ملتا ہے اور نور نے علی کی قسمت بدل دی.."
سبحان صاحب نے پُر جوش ہوکر کہا جس پر شفق خاتون کی مسکراہٹ سُکڑی تھی...
"ہاں واقعی نور میرے لئے خوش قسمتی لے کر آئی ہے مگر یہ میری ماں کی دعاؤں کا بھی صلہ ہے.."
وُہ انصاف کرنا جانتا تھا جیسے اُس نے شفق خاتون کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ سجا دی تھی..
"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی بیٹا تُم جاکر آرام کرو یہ سب نمرہ سمیٹ لے گی.."
شفق خاتون نے شفقت بھرے انداز میں کہا...
"ہاں بھابھی میں کرلوں گی آپ جائیں.."
نمرہ نے فوراً کہا...
"ٹھیک ہے امی..."
اُس نے بنا کسی مزید تعرض کی زحمت کرتے ہوئے کہا اُسے واقعی آرام کی ضرورت تھی...
علی کی نظروں نے اُس کا پیچھا کمرے سے چلے جانے تک کیا تھا.._________________________________________
وُہ کمرے میں آیا تو لائٹس آف تھیں ڈیمر کی مدھم روشنی میں اُس نے دیکھا نور سورہی ہے یا سوتی بنی ہوئی ہے...
"نور تُم جاگ رہی ہو.."
اُس نے اپنی سائڈ پر بیٹھتے ہوئے ہلکے سے پوچھا..
مگر کوئی جواب نہیں آیا...
"اِسے تو بخار بھی ہورہاہے پتا نہیں دوائی لی بھی یا ایسے ہی سو گئی رات کا کھانا بھی نہیں کھایا عجیب پاگل لڑکی ہے جس پر غصّہ ہے جس سے ناراض ہے اُسے کُچھ نہیں کہتی خود کو اذیت دیتی ہے.."
وُہ خود سے بولا...
اُس نے گھڑی اور موبائل نکال کر سائڈ ٹیبل پر رکھا اور کپڑے بدلنے چلا گیا...
کپڑے بدل کر وُہ لیٹ گیا اور موبائل یوز کرنے لگا صبح اتوار تھا اِس لیے جلدی سونے کا اُس کا کوئی ارداہ نہ تھا..
انٹرنیٹ سرفنگ کرتے کرتے ایک پوسٹ نے اُس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی جو کُچھ یوں تھی...
"مرد چاہتا ہے جب شام کو وُہ پورے دِن کا تھکا ہارا گھر آئے تو بیوی سجی سنوری ہوئی مِلے اُسے اُجڈ حال بیوی سے کوفت ہونے لگتی ہے وُہ باہر رنگینیاں تلاش کرنے لگ جاتا ہے مگر کیا کبھی مرد نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے وُہ اپنے شوہر کو کیسے دیکھنے چاہتی ہے کیا کبھی کسی مرد نے اپنی بیوی کی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنا حلیہ بنایا ہے کبھی بال اپنی بیوی کی پسند کے کٹوائے ہیں کبھی داڑھی کی تراش خراش اپنی بیوی کی مرضی کے مطابق کروائی ہے کیا کبھی اُس کی پسند کے مطابق کپڑے پہنے ہیں... مرد کو عورت کے وجود سے اُٹھتی لہسن پیاز کی بو سے کراہت آتی ہے کیا کبھی بیوی نے آپ سے پسینے کے بو آنے کی شکایت کی ہے کیا کبھی اپنی بیوی کے قریب جاتے وقت خود کو معطّر کیا ہے جبکہ بیوی کا وجود آپکو خوشبوؤں کا مسکن بنا چاہیے ورنہ تو آپ اُسے اپنا قرب بخشنا بھی گوارہ نہیں کرتے بیوی کی نظریں آپکو دوسرے مرد کے سامنے جُھکی ہوئی چاہیے کیا آپ نے خود کبھی غیر عورت کی دیکھ کر ٹکٹکی باندھنے سے خود کو روکا ہے...عورت کی آواز آپکو ہلکی چاہیے تو کیا مرد کی اونچی آواز کو وُہ آپکی مردانگی سمجھتی ہے؟؟ نہیں ہرگز نہیں وُہ جبر کرتی ہے خود پر وُہ ظُلم کرتی ہے خود پر... آپکی بہن پر جب اُس کا شوہر چیخے چلائے تو خون کھول اُٹھتا ہے کیا کبھی سوچا ہے آپکی بیوی بھی کسی کی بہن ،بیٹی ہے...
عورت کو پیر کی جوتی سمجھنے والے مردوں یہ خیال مت کرو وُہ تُمہیں سر کا تاج سمجھتی ہوگی کیونکہ عزتِ نفس ہر عورت میں ہوتی ہے مگر وہ اُسے غیر متحرک رکھتی ہے اُسے وُہ جبر کرتی ہے خود پر وُہ ظُلم کرتی ہے... یہ چند چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر عمل کرکے ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزاری جاسکتی ہے زندگی قطعی اتنی مُشکل نہیں بس کُچھ اُصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے..."
"واقعی زندگی اتنی بھی مشکل نہیں.."
اُس نے گہری سانس لے کر سوچا اور ٹائم دیکھا تو رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے..
نیند سے اُس کی آنکھیں بھی بند ہونے لگی تھیں...
وُہ موبائل بند کرکے سونے ہی لگا تھا اچانک ہی اُسے خیال آیا نور کو بخار چیک کرلے جوں ہی اُس نے بخار چیک کرنے کے لئے اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وُہ بُری طرح سے تپ رہا تھا وُہ یکدم اُٹھ کر بیٹھا اور سائڈ لیمپ آن کیے...
"نور نور.."
علی نے اُس کا گال تھپتھپایا مگر وُہ بے سُدھ پڑی رہی...
"یا اللہ اِس لڑکی کا میں کیا کروں خود کو اذیت دیتی ہیں یہ صبح سے کُچھ نہیں کھایا ہوگا اِس نے ابھی بھی ایسے ہی سوگئی رات بھی اتنی ہورہی ہے اور یہ اِس حالت میں بھی نہیں ہے کہیں لے کر جا سکوں.."
اُس نے خود کلامی کی...
"بخار کیسے اُترے گا اِس کا کہیں دِماغ پر نہ چڑھ جائے..."
"ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتا ہوں اُس سے ضرور فرق پڑے گا.."
سوچنے کے ساتھ ہی وہ اُٹھ کھڑا ہوا کچن میں جاکر فریج سے آئس کیوب نکال کر ایک پیالے میں ڈالی اور پانی ڈال کر اپنے کمرے میں آگیا..
"نور آنکھیں کھولو..."
اُس نے بہت محبت سے اُسے پُکارا اب کی بار اُس نے کُچھ بولنے کے لئے اپنے لبوں کو جنبش دی..
"علی.."
"ہاں نورِ علی میں یہیں ہوں تمہارے پاس.."
"علی.."
اُس کے کپکپاتے ہونٹوں سے بس ایک اُسی کا نام خراج پا رہا تھا...
اُسے نے پٹی گيلی کر کر کے اُس کے سر پر رکھنی شروع کردی....
"علی میری بات سنیں میں نے ایسا کُچھ نہیں کہا.."
اٹک اٹک کر بولتے ہوئے وُہ اُس کے دِل پر ندامت کا بوجھ مزید بڑھا رہی تھی...
"نورِ علی میں سب جانتا ہوں میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے میں مانتا ہوں میں تُم سے معافی بھی مانگوں گا آئندہ کے لئے یقین دہانی کرواؤں گا کہ اب تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کروں گا کیونکہ میں اپنی زندگی میں تمہاری اہمیت جان چُکا ہوں تُم میری زندگی کا لازمی جزو ہو نورِ حیات نورِ علی میں اسے محبت نہیں کہہ سکتا ابھی مگر میں جانتا ہوں تُم اب لازم و ملزوم ہو میرے لئے..."
اُس نے اپنے دِل میں پنپنے لگی اُس کی محبت کو محبت ماننے سے اب بھی اِنکار ہی کیا...
وُہ ایک گھنٹے تک اُس کے سر پر پٹیاں رکھتا رہا کتنی ہی بار جا جا کر پانی بدل کر لاتا رہا بلا آخر صبح ہونے سے کُچھ دیر پہلے اُس کا بخار کافی اُتر چُکا تھا...
"نور اُٹھو شاباش اور آرام سے بیٹھو میں آتا ہوں.."
اُس نے نور کو سہارا دے کر اُسے نرمی سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بٹھایا اور خود کمرے سے باہر چلا گیا...
اُس پر نقاہت طاری تھی ذہن بِلکُل ماؤف تھا کُچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا وُہ آنکھیں نیم وا کیے بیٹھی رہی...
تقریباً پندرہ منٹ بعد اُس کی واپسی ہوئی ہاتھ میں ٹرے تھی..
اُس نے ٹرے بیڈ پر رکھی اور گلاس کا پانی ذرا سا اپنے ہاتھ میں لے کر اُس کے منہ پر پھیرا جس سے کافی حد تک وُہ ہوش میں آگئی تھی...
اُس نے نوالہ توڑ کر اُس کی طرف بڑھایا تو نور نے منہ دوسری طرف کرلیا جس پر علی کو غصّہ آیا..
"چُپ چاپ کھاؤ ایک لفظ نہ سنوں میں تمہارے منہ سے جتنا ناراض ہونا ہے بعد میں ہوجانا ابھی بنا چوں چراں کے کھاؤ ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا.."
وُہ جانتا تھا اُسے کب سختی کرنی ہے اور نتیجہ اُس کے سامنے تھا وہ بُرا سا منہ بناکر اُس کے ہاتھ سے کھانے لگی...
"تُم جتنی ہی بڑی بڑی باتیں کرلو عُمر کا اثر کہیں نا کہیں دِکھ ہی جاتا ہے اور تُم جس عُمر میں ہو وہاں یہ جذباتی پن عام بات ہے.."
اُس نے رسان سے کہا...
وُہ کُچھ نہ بولی بس وُہ ہی بولتا رہا اُس نے ہوں ہاں کرنے تک کی زحمت نہیں کی یا اُس کے اندر ہمت نہیں تھی...
"یہ لو دوائی کھاؤ اور آرام سے سوجاؤ۔۔"
اُس نے دوائی اُس کے ہاتھ میں پکڑا کر گلاس بھی اُس کی طرف بڑھایا...
جسے اُس نے بنا کسی تعرض کے لے لیا اور دوائی لے کر دوبارہ لیٹ گئی...
علی نے ٹرے واپس لے جاکر کچن میں رکھی اور کمرے میں آکر لائٹ بند کی اور ایک بار پھر اُس کا بخار چیک کرکے مطمئن ہوکر لیٹ گیا کُچھ ہی دیر میں اُسے نیند نے آ لیا...