قسط نمبر ۳"نور نور..."
صبا چیختی ہوئی اُسے پورے گھر میں ڈھونڈھ رہی تھی..
وُہ اپنے اسٹور نما کمرے میں ذرا دیر کو کمر سیدھی کرنے کے لئے آکر لیٹی ہی تھے کہ صبا کی آواز نے اُسے دہلا دیا...
"الٰہی خیر.."
اُس نے دِل ہی دل میں کہا اور ساتھ پڑا دوپٹہ سینے پر پھیلاتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی..
"جی آئی آپی.."
وُہ دھڑا دھڑ سیڑھیاں اُترنے لگی..
"جی آپی کی بچی یہ کیا کِیا میری قمیض کے ساتھ گنوار کہیں کی..."
صبا ج جارحانہ تیور لیے اُس کی طرف بڑھی تو وُہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی...
"رنگ چڑھا دیا میری قمیض پر اتنی مہنگی ہے جتنے کی تو نہیں ہے اُس سے کہیں زیادہ کی میری قمیض ہے۔۔"
اُس نے شدید غصّے میں کہتے ہوئے اُس کے بال پکڑ لیے...
"آپی بہت درد ہورہاہے.."
اُس نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔۔۔
"میری اتنی مہنگی قمیض کا بیڑہ غرق کردیا اب محترمہ کے ڈرامے ختم نہیں ہورہے جب تُجھے ہم سے نفرت اِسی طرح نکالنی ہوتی ہے تو اتنی بھولی بھالی بننے کا ڈرامہ مت کیا کر میسنی کہیں کی.."
اُس نے نور کے بالوں پر گرفت مزید سخت کرتے ہوئے تند لہجے میں کہا...
"آپی قسم لے لیں میں نے کُچھ نہیں کیا میں نہیں جانتی کیسے رنگ چڑھ گیا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا مُجھے معاف کردیں آپی..."
وُہ جتنا اُس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتی صبا مزید مضبوطی سے پکڑ لیتی...
"آپی بہت درد ہورہاہے پلیز معاف کردیں آئندہ غلطی نہیں ہوگی پلیز آپی.."
وُہ اب اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی...
"حرام خور کہیں کی سارے کام بگڑوا لو تُجھ سے میری قمیض کا تو ہوگیا نا ستیا ناس منحوس کہیں کی.."
صبا نے اُس کے بال چھوڑ کر چٹاخ چٹاخ اُسے دو طمانچے رسید کردئیے...
وُہ اپنے ناتواں وجود کے ساتھ زمین پر جاگری..
"آئندہ میری چیزوں کو خراب مت کرنا ورنہ تیرا وُہ حشر کروں گی اگلی نسلیں یاد رکھیں گی تیری ہڈ حرام کہیں کی ٹھونس ٹھونس کر گپا ہوتی جارہی ہے.."
اُس نے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گئی...
کتنے ہی خاموش لمحے یوں ہی سرک گئے وُہ یوں ہی گٹھری بنی یخ فرش پر پڑی رہی..
یہ ایک دِن کی کہانی نہیں تھی وُہ بچپن سے یہ سب سہتی آرہی تھی اُس کے باپ سلیم کی اُس کی ماں کے ساتھ دوسری شادی تھی جو اُنہوں نے اپنی مرضی سے اور چاہت سے کی تھی عافیہ اُن کی پہلی بیوی تھی..اُس کی ماں فریدہ تو اُسے پیدا کرتے ہی اِس دُنیا سے چلی گئی تو سلیم نے لاکر اُسے عافیہ کی گود میں ڈال دیا جس پر پہلے تو اُس نے ہنگامہ کھڑا کردیا مگر سلیم نے جب اُسے طلاق دینے کی دھمکی دی تو طوعاً و کرہاً اُنہوں نے اُسے برداشت کیا مگر صرف تب تک جب تک سلیم حیات رہے اُس نے بارہ جماعتیں بھی پڑھ لیں مگر جیسے ہو سلیم کی نظریں بند ہوئی اُس پر پھر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے سب سے پہلے اُس کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوا پورے گھر کی ذمےداری پہلے بھی اُس پر تھی مگر اب اُس پر ظلموں کی انتہا کردی گئی تھی چھوٹی سی چھوٹی بات پر بھی دونوں میں سے کوئی بھی اُس پر ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتا تھا البتہ نادیہ کو اُس سے بہت ہمدری تھی اور وہ اکثر اُسے اُن دونوں کے ظلم سے بچا لیتی تھی وُہ اُن لوگوں کی بے دام غلام تھی بے مول اور بے وقعت مگر بیک وقت سب سے ضروری بھی...
اُس نے اپنی تمام تر ہمت جمع کرکے خود کو کھڑا کیا سر مزید دُکھنے لگا تھا وُہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی...