قسط نمبر ۶

1.3K 82 2
                                    


قسط نمبر ۶


"ہیلو جی درانی صاحب اب کہیں.."
وُہ جو چهت پر جانے کا ارادہ رکھتا تھا سنگنلز آنے کے باعث پہلی منزل پر ہی رُک گیا...
نور نے آہستہ سے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو دائیں طرف راہداری کے کونے پر اجنبی شخص کو کھڑے دیکھ کر بے اختیار ڈر گئی فارس کی اُس کی طرف پیٹھ تھی..
پہلی منزل پر روشنی آنے کا کوئی روزن نہیں اِسی لیے قطار سے بنے تین کمروں کی راہداری ہمیشہ نیم تاریکی میں ڈوبی رہتی تھی نہ ہی وہاں اُس کے علاوہ کوئی رہتا تھا تو کسی نے وہاں کسی قسم کی روشنی کرنی کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہیں کی...
وُہ خراماں خراماں چلتی ہوئی اُس سے کُچھ قدم کے فاصلے پر آ رُکی اور اُنگلیاں مروڑتی مضطرب سی کھڑی ہوگئی..
ابھی وُہ اُسے مخاطب کرنے کے لیے لفظ ہی ڈھونڈھ رہی تھی وُہ شہزادوں سی آن بان رکھنے والے خوش شکل نوجوان نے خود ہی اُس کی جانب رُخ کیا...
اُس کی آنکھوں میں شدید حیرت در آئی..
"میں آپکو تھوڑی دیر میں کال کرتا ہوں درانی صاحب..."
کہہ کر اُس نے رابطہ منقطع کیا نظریں اُس سہمی لڑکی پر مرکوز تھیں...
نیم اندھیرے میں بھی وُہ قُدرت کے اِس شاہکار کو دیکھ سکتا تھا وُہ نیچے سے اوپر آتے زینے اور وہاں سے چھت کو جاتے زینے کر درمیان بنی چھوٹی سی جگہ پر کھڑا تھا اور اوپری منزل سے آتی ہلکی ہلکی روشنی میں وُہ اُس کا سنہرا روپ دیکھ سکتا تھا...

وہ حیرت سے اُس اجنبی کو دیکھ رہی تھی دوسری طرف فارس وارفتگی سے اُس شہزادیوں جیسا حُسن رکھنے والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا وہ حُسن کا مجسمہ تھی خاموش مجسمہ کیونکہ اُس نے ابھی تک اُسے بولتے نہیں سنا تھا وُہ شدید مخمصے کا شکار تھا آیا سامنے کھڑا وجود واقعی گوشت پوشت کی اِنسان بے یا کسی فنکار کے فنکاری کا بے جان مجسمہ...
مومی ناک اور کشادہ پیشانی پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے جو اُسے یقین دلا گئے کہ وُہ زندہ اِنسان ہے ہونٹوں کے درمیان سے جھانکتے موتیوں جیسے دانت اسکے چہرے کے حسن کو دو آتشہ کر رہے تھے۔۔ وہ گربہ چشم، غنچہ دہن، عشوہ طراز و پری تمثال۔۔ وہ سراپا نور تھی۔۔
اخروٹی رنگ کے سیدھے لمبے بال چوٹی میں بندھے تھے۔۔ وہ کسی دیو مالائی داستان کی شہزادی جیسا حسن رکھتی تھی مگر اسکی قسمت شہزادیوں جیسی نہ تھی۔ وہ شہزادی جیسے چہرے والی کسی نوکرانی جیسی زندگی گزار رہی تھی۔
یہ ادراک اُسے نور کی حالت دیکھ کر ہوا تھا...
"آپ کون.."
وُہ اپنی دلکش آواز میں مدھم لہجے میں بولی تو وُہ اپنی محو حالت سے واپس آیا...
"میرا نام فارس ہے.."
وُہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار تھا ...
"میں نیچے آیا ہوں اپنی والدہ کے ساتھ کسی کو دیکھنے.."
وُہ ہنوز اُس کی سوال کرتی نظروں کو دیکھ کر آدھا ادھورا بولا..
"مہمان آجائیں تو اپنی شکل دکھانے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تیری ہڈیاں توڑ دوں گی میں.."
عافیہ کے کہے گئے جملوں نے اُس کی سماعتوں میں پھر سے زہر انڈیلا..
وُہ بغیر کُچھ کہے پلٹ کر جانے لگی..
"بات سنیں.."
وُہ اپنی بے خودی میں اُس کے راستے میں آکھڑا ہوا...
نور نے ہراساں نظروں سے اسے دیکھا...
"آپ یہیں رہتی ہیں..؟"
اپنے احمقانہ سوال کا ادراک اُسے تھا مگر نجانے کیوں وُہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا...
نور نے اُس کے بائیں طرف سے نکلنا چاہا تو فارس نے وُہ راستہ بھی بند کردیا...
"دیکھیے میں کُچھ غلط نہیں کر رہا آپکے ساتھ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ یہیں رہتی ہیں کیا آپ صبا کی بہن نادیہ ہیں..؟"
وُہ سراپا سوال تھا..
نور نے طوعاً و کرہاً گردن کو نفی کرنے والے انداز میں جنبش دی..
"تو پھر آپ کون ہیں کیونکہ ہمیں تو بتایا گیا ہے اِس گھر میں تو صرف تین لوگ رہتے ہیں آپ کون ہیں پھر اور یہاں کیسے.."
وُہ خودر فتگی میں اُسے کے تھوڑا قریب ہوکر بولا تو وُہ قہراً دو قدم پیچھے ہٹی مگر چُپ رہی...
"سوری وُہ بس میں.."
اُسے اپنی مستعدی کا احساس خفت سے دوچار کرگیا اور اُسی سے محاصل چند لمحوں میں وہ سرعت سے دائیں طرف سے نکل کر اُس کی نظروں سے کھو کے راہداری کے اندھیروں میں گُم ہوگئی اور سب سے کونے میں بنے اپنے کمرے میں جا پناہ لی اُس نے جلدی سے دروازہ مقفل کیا تنفس غیر متوازن تھا..
"یا اللہ مُجھے بچانا میں جان بوجھ کر نہیں آئی سامنے مگر امی نے مُجھے نہیں چھوڑنا.."
یہ خیال بھی اُسے ہولائے دے رہا تھا..
وُہ خیر و عافیت کی دُعا کرنے لگی...

محبت ہوگئی آخرحيث تعيش القصص. اكتشف الآن