قسط نمبر ۳۵

1.2K 77 6
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"آپکے سارے ڈاکومنٹس میں نے سنبھال کر اِس بیگ میں رکھ دیے ہیں.."
اُس نے ایک فائل علی کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"اِس کی کیا ضرورت..؟"
"کیوں آپ انٹرویو کے لئے جارہے ہیں ضرورت کیوں نہیں..؟"
اُس نے جواب کے بجائے اُلٹا سوال کیا...
"ارے میری بھلی مانس بیوی جو جاب میں کر رہا ہوں اُس کے لیے ان ڈگریوں کی ضرورت نہیں ہے کوئی میٹرک یہ انٹر پاس لڑکا بھی کرسکتا ہے.."
اُس نے ہنس کر کہا...
"کیا بہت ویسی جاب ہے؟.."
وُہ پریشان ہوکر بولی..
"ویسی کیسی..؟"
وُہ اُس کے بالوں کے جوڑے کو کھولتے ہوئے بولا...
"مطلب کہ آپکے حساب کی نہیں ہے کیا..؟"
وُہ حیرت انگیز طور پر اُس کی اِس حرکت پر چڑی نہیں تھی...
"میرے حساب کی مطلب..؟"
وُہ انجان بن کر بولا..
"ارے میرا مطلب کہ بہت زیادہ کم رُتبے والی جاب ہے؟؟"
"یہ کم اور زیادہ رُتبہ کیا ہوتا ہے نور؟؟"
اُس نے سوال کا..
"میرا مطلب اپک ایک سافٹ ویئر انجینئر اور پھر ریسٹورینٹ کی فیلڈ میں آپکا کیا کام.."
اُس نے اُلجھ کر کہا...
"تُم نے مُجھ پر یقین ہے ناں کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا مگر تُمہیں بھوکا نہیں سونے دوں گا..؟"
"ہاں یقین تو پورا ہے.."
اُس نے اٹل لہجے میں کہا..
"تو بس میں وہی کر رہا ہوں اور یہ کم زیادہ کُچھ نہیں ہوتا اب ضروری تھوڑی ہے اگر آپ نے بڑی بڑی ڈگریاں لے لیں ہیں تو کسی سولہا سترہ ہزار کی نوکری کو حقارت سے دیکھو اور لاکھوں کی نوکری نہ ملنے تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو ایسے تو ہم ناشکرے ہوئے ناں پھر جو خُدا آپکو یہ نوکری دلوا رہا ہے وہی آگے بھی مدد کرے گا یقیناً کرے گا اُس کے سوا کون ہے؟ کوئی بھی تو نہیں... رزق کمانا اور حلال رزق کمانا دو الگ باتیں ہیں ہم بھلے جتنا بھی کما لیں محلوں کے محل کھڑے کردیں کھانے میں سونا چاندی،ہیرے وغیرہ تو نہیں کھا سکتے ناں کھائیں گے تو وہی جو سولہا سترہ ہزار کمانے والا کھائے گا فرق صرف کھانے کی قسم کا ہوگا بھرنا پیٹ ہے سب نے آخر کو..."
علی نے متانت سے کہتے ہوئے بات مکمل کی...
"آپکی بات بالکل ٹھیک ہے.."
نور نے سراہتی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"تو بس مت سوچوں اتنا مُجھ پر بھروسہ رکھو۔۔"
اُس نے نور کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا...
"اور تُم ناں دوپہر میں سوجایا کرو ورنہ نیچے نہیں جاسکتی تو لگی رہتی ہے یہ کپڑا اُدھیڑ وہاں جوڑا.. چھت دھو لی تو بلا فضول کی الماری صاف کرنے بیٹھ گئی.."
"مُجھ سے فارغ نہیں بیٹھا جاتا نیچے تو میں آپکی وجہ سے جا نہیں سکتی تو کیا کروں میں؟؟"
اُس نے کوفت سے کہا...
"اور سوچنا بھی مت جانے کا.."
اُس نے دوبارہ وارن کرنا ضروری سمجھا...
"ٹی وی دیکھ لیا کرو.."
"مُجھے نہیں شوق ٹی وی دیکھنے کا اور دیکھوں کیا ہر چینل پر ایک ڈھونگی آرہا ہوتا سارے کے سارے رمضان میں ہی حاجی ثناء اللہ بن جاتے اور ایسے لیپڑی چلاتے جیسے یہ ہی تو ہیں اسلام کے علم بردار گھول کر پی لیا انہوں نے اسلام کو..."
اُس نے تپ کر کہا...
"اتنی کتابیں پڑی ہیں تمہارے پاس جو تُم نے پڑھی بھی نہیں ہوئی وُہ پڑھ لیا کرو.."
علی نے جھنجھلا کر کہا..
"میرا ذرا موڈ نہیں ہوتا آجکل کُچھ بھی پڑھنے کا.."
اُس نے یہ بات بھی رد کی..
"پھر ایک کام کرو ٹائم نکال کر نا مرجاؤ.."
وُہ سخت تپے ہوئے انداز میں بولا...
"آہاں میں اب اتنی سخی اور ڈبو بھی نہیں کے اپنے بندے  کو یوں کھلا آزاد چھوڑ دوں تو یہ تو بھول ہی جائیں .."
اُس نے علی کے بال بگاڑ کر کہا..
"تمہارا کوئی حال نہیں ہے بیوقوف لڑکی.."
"اور آپکا بھی نہیں..."
برجستہ کہا گیا..
"اچھا میں جارہا ہوں دعا کرنا کام ہوجائے.."
اُس نے چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا..
"انشاءاللہ.."
اُس نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیا...

محبت ہوگئی آخرDonde viven las historias. Descúbrelo ahora