قسط نمبر ۴۱

1.4K 86 14
                                    

Mega Episode
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"میں تُمہیں طلاق..."
"ابو یہ کیا کر رہے ہیں آپ..."
علی نے مزید کوئی لفظ سبحان صاحب کے منہ سے نکلنے سے پہلے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...
"ابو آپکو خُدا کا واسطہ ہے چُپ ہوجائیں.."
دانیال نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ دیے...
"آپ اندر چلیں باجی..."
زرینہ نے شفق خاتون کو شانوں سے پکڑ کر کہا...
"سُنا تُم نے یہ مُجھے طلاق دے رہے ہیں صرف تیری وجہ سے..."
وُہ نور کو دیکھ کر نفرت سے بولیں...
"اِسے لے جاؤ میرے سامنے سے علی ورنہ پھر مُجھے کوئی نہیں روک پائے گا لے جاؤ اِسے..."
وُہ علی کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا کر چلائے...
"اندر جائیں آپ سنائی نہیں دے رہا آپکو کیا کیوں نقصان کرنا چاہتی ہیں اپنا بھی اور ہمارا بھی دانیال تُم ابو کو سنبھالو..."
علی نے سبحان صاحب کو چھوڑ کر اب شفق خاتون کو پکڑا اور تقریباً کھینچتے ہوئے لے جا کر کمرے میں جاکر بند کردیا مگر اُن کی زبان مسلسل زہر اُگلتی رہی...
"میں تھک گیا ہوں ساری عمر میں نے اِس عورت کے پیچھے خوار کردی مگر اِس نے کبھی میری قدر نہیں کی..."
وُہ گرنے کے سے انداز میں صحن میں پڑے تخت پر بیٹھتے چلے گئے...
"ابو یہ بہت انتہائی قدم ہے وُہ ہماری ماں ہے اور اِس حرکت کی مُجھے آپ سے ہرگز اُمید نہیں تھی.."
علی نے سبحان صاحب کو ملامت کی...
"تُم کُچھ نہیں جانتے کُچھ نہیں..."
اُنہوں نے افسوس سے کہا...
"تو پھر بتائیں اگر بات آپ دونوں میاں بیوی کے بیچ کی ہوتی تو میں کبھی نہیں پوچھتا مگر پورا حق ہے یہ مُجھے جاننے کا کہ کیوں میری ماں مُجھ سے نفرت کرتی ہے اپنی سگی اولاد سے..."
علی نے تیز آواز میں کہا...
"میں نہیں بتاسکتا کُچھ بھی..."
"ابو میری تکلیف سمجھنے کی کوشش کریں آپ..."
وُہ اُن کے سامنے دو زانوں بیٹھ کر اُن  دونوں ہاتھ پکڑ کر گڑگڑا کر بولا مگر سبحان صاحب نے اپنا رُخ پھیر لیا...
"تو پھر ٹھیک ہے میں بھی آپکی کوئی بات نہیں سنوں گا میں اِس گھر میں نہیں رہ سکتا اتنی نفرت کے ساتھ آپ چاہیں ہاتھ جوڑیں یا کُچھ بھی کریں جیسے آپکے برداشت کی حد ہے میری بھی برداشت کی حد ہے جب سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا ہوں میں یہ سب برداشت کرتا آرہا ہوں کبھی کسی سے شکایت نہیں کی میں نے مگر آج جو ہوا ہے وُہ بس ہے وُہ اخیر ہے جب دِلوں میں جگہ نہیں تو ایک ساتھ رہنے سے مکان گھر نہیں بن جاتا فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے یا تو سچ بتائیں یا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ گھر چھوڑ کر جارہا ہوں اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا زندگی میں کبھی آپکو اپنی شکل دوبارہ نہیں دکھاؤں گا سمجھ لیجئے گا علی مرگیا..."
وُہ اُن کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتا ہوا کھڑا ہوگیا...
"یہ مت کرنا علی تُمہیں میری قسم ہے..."
"تو پھر سچ بتائیں مُجھے..."
اُن کی خاموشی نے اُسے مشتعل کردیا وُہ اضطرابی کیفیت میں اپنے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا صحن میں اِدھر سے اُدھر گھومنے لگا...
"تو پھر آج مُجھے بھی آپکی کوئی قسم نہیں روک سکتی سُن لیں آپ یہ بات..."
وُہ اُنہیں اُنگلی دکھا کر بولا لہجہ کسی بھی قسم کی رعایت سے عاری تھا..
"جاکر سامان باندھو.."
وُہ اب نور سے بولا...
"علی آپ ابھی بہت غصّے میں.."
"نور جاکر سامان باندھو مُجھے تمہارے منہ سے دوسری کوئی بات نہیں سننی..."
اُس نے قطعی انداز میں کہا...
"نور اِس گھر کی بہو ہے یہ کہی نہیں جائے گی.."
سبحان صاحب نے نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے پیچھے کیا...
"یہ صرف میری بیوی ہے گھر کی بہو پر گھر کے بیٹے ہاتھ نہیں اُٹھاتے..."
اُس نے دانیال کی طرف دیکھ کر نخوت سے کہا...
"تُمہیں جو کہنا ہے کہہ لو..."
وُہ ڈھیٹ ہوئے...
"میں ہی جاکر کہیں مرجاتا ہوں سب کو مُجھ سے ہی مسئلہ ہے بھاڑ میں جائے سارے میں بھی اِنسان ہوں میرا بھی دِل ہے پتھر نہیں مُجھے بھی تکلیف ہوتی ہے..."
وُہ کسی طور ماننے کو تیار نہ تھا...
"علی میرے بیٹے..."
"مُجھے بات بتائیں ورنہ مُجھ سے کوئی بات نہیں کریں..."
وُہ ہرگز مصالحت پر راضی نہ تھا...
سبحان صاحب پھر چُپ ہوگئے..
"میری طرف سے بھاڑ میں جائیں سارے پھر..."
اُس نے گملے کو ٹھوکر مار کر کہا جس سے وہ ٹوٹ کر بکھر گیا...
وُہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا مگر نور نے اُسے بیچ میں جا لیا...
"علی میری بات سنیں..."
"تُم میری بات سنو ابھی جاکر تُم سامان باندھ رہی ہو ورنہ میرا اور تمہارا رشتہ بھی ختم..."
اُس نے نور کو بازو سے سختی سے پکڑ کر کہا...
"علی مُجھے بہت درد ہورہاہے..."
اُس کی آنکھیں بہنے لگی تھیں...
"مُجھے بھی ہوتا ہوگا جب تُم میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہی کام کرتی ہو..."
اُس کی آنکھیں دہک رہی تھیں...
"میں بھی چل رہی ہوں آپکے ساتھ جیسا آپ بولیں گے ویسا کروں گی میں بس صرف ایک بار میری بات سُن لیں.."
"کُچھ سننا سنانا نہیں ہے میں واپس آؤں تب تک تیار رہو..."
وُہ اُس کا بازو جھٹکے سے چھوڑتا دروازہ بچھیڑتا باہر نکل گیا....

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now