#محبت_ہوگئی_آخرقسط نمبر ۳۰از قلم #مصطفیٰ_چھیپاچند دِن بعد..."علی کہاں رہ گیا ہے یہ ہزار کام پڑیں ہیں پرسوں مہندی ہے اور اِس نے ابھی تک مینو ہی فائنل نہیں کرکے دیا..."شفق خاتون نے بے چینی سے کہا..."کام سے ہی گیا ہے شفق کیٹرنگ والے کے پاس ہی اور پھر دونوں طرف کا وُہ ہی دیکھ رہا ہے بشیر نے اپنی طرف کی کیٹرنگ کی ذمے داری اُس پر ڈال دی ہے کہ تمہارا جاننے والا اچھا بناتا .."سبحان صاحب نے خفیف سے ناراضگی کا اظہار کیا .."ہاں تو کیا ہوگیا گھر کا ہی کام ہے وُہ ہی کرے گا ناں شعیب کو کیا پتا اتنا چھوٹا ہے ابھی وُہ.."وُہ بُرا مان کر بولیں..."چھوٹا تُم بائیس سال کے جوان پٹھے کو چھوٹا کہہ رہی ہو بی بی جاکر عینک کیا نمبر چیک کرواؤ اپنی.."سبحان صاحب نے باقاعدہ ہنس کر کہا..."علی سے تو چھوٹا ہی ہے ناں اُسے اتنا نہیں پتا اِن چیزوں کا اب اگر علی کر رہا ہے تو کوئی انوکھا نہیں ہے ..."انہوں نے بھی فوراً کہا..."ایک تو تمہیں پتا نہیں علی سے مسئلہ کیا ہے اپنی سب اولادوں کو تُم ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھتی ہو تو پھر یہ فرق اُس کے ساتھ کیوں تمہاری ہی اولاد ہے وُہ اور وُہ بھی سب سے لائق اولاد..."وُہ ہمیشہ اُن کی علی کو لے کر بیزاری سے نالاں رہتے تھے کبھی وجہ نہ جان سکے اُن کے اِس رویے کی اب نور کے آجانے کے بعد سے وُہ مزید دور ہوتی گئیں اُس سے..."میں فرق کرتی ہوں پتا نہیں ایسا کیا دیکھ لیا ہے سب نے جو لگ رہا کہ میں فرق کرتی ہوں میری ہی اولاد ہے وُہ میں نے ہی جنا ہے اُسے اور کسی نے نہیں.."اُنہوں نے تپ کر کہا..."ہاں مگر صرف جننے سے ماں نہیں بن جاتے شفق ذرا اپنا دِل بڑا کرو کبھی خود کا احتساب کرنا کرنا اکیلے میں بیٹھ کر کہ تُم کہاں کہاں غلط ہو..."اُن کا انداز متاسفانہ تھا..."اور یہ ہرگز مت سوچو کے نور تمہیں تمہارے بیٹے سے دور کر رہی ہے ہرگز نہیں یہ تُم ہو جو اُسے خود سے دور کر رہی ہو اپنے رویے سے مرد صرف محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے اُسے وُہ جہاں ملے گا وُہ اُسی طرف جُھکے گا ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اُسے اپنی ممتا کا احساس کرواؤ اپنی ورنہ تُم اُسے کھو دو گی اور اِسے صرف میری باتیں مت سمجھنا یہ حقیقت ہے اور اگر تُم نہیں بدلی تو اِس حقیقت کو تُم خود دیکھو گی..."اُنہوں نے سمجھانا چاہا مگر کُچھ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی کُچھ نہیں سمجھتے نا ہی وُہ سمجھنا چاہتے ہیں شفق خاتون بھی انہی لوگوں میں سے تھیں..."آپ مُجھے مت ہی سکھائیں میں نے کیا کرنا ہے میں بہت اچھے سے جانتی ہوں..."ہر بار طرح اِس بار بھی اُنہوں نے اُس کی کسی بات خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا..."تُم گر کر ہی سنبھلو گی یا شاید تُم جیسے لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے .."وُہ ملامت کرتے ہوئے چلے گئے..."یہ علی کہاں رہ گیا ہے ابھی تک نہیں آیا.."اُنہوں نے دوبارہ والا کلاک پر نظر دوڑاتے ہوئے خود سے کہا..."امی ماموں کی کال آئی تھی وُہ لوگ اسٹیشن سے نکل گئے ہیں گھر آرہے ہیں بس.."نمرہ نے کمرے میں داخل ہوکر اطلاع دی۔۔۔"نکل گئے ہیں مگر علی اُنہیں ہی تو لینے گئے ہیں اسٹیشن ...؟"نور نے حیران کُن انکشاف کیا..."کیا وہ صداقت کو لینے گیا ہے مگر اُن کے ساتھ تو نہیں ہے پھر کہاں ہے علی..."اب شفق خاتون کو فکر ہونے لگی..."نمرہ کال لگا بھائی کو..."اُنہوں نے ہونقوں کی طرح منہ کھولے کھڑی نمرہ کو گھرکا..."امی نمبر بند جارہا ہے بھائی کا..."نمرہ نے فون کان سے ہٹا کر کہا..."یا اللہ کہاں رہ گیا میرا بچہ..."اُن کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی سنائی دی..."امی بیٹری ختم ہوگئی ہوگی شاید آپ پریشان مت ہوں آجائیں گے علی..."نور کی خود کی حالت خراب تھی مگر اُس نے خود کو مضبوط کیا اور اسے مضبوط بننا بھی تھا...."سبحان صاحب .. ذرا پتا کرکے آئیں کہاں رہ گیا ہے میرا بیٹا..."اُنہوں نے کمرے میں داخل ہوتے سبحان صاحب سے کہا..."کہاں رہ گیا مطلب.."؟اُنہوں نے اُلٹا سوال کیا..."ابو اُن کا نمبر بند جارہا ہے مسلسل..."نمرہ نے متفکر انداز میں بتایا..."ہاں تو ہوسکتا ہے بیٹری ختم ہوگئی ہو..؟"اُنہوں نے اب تک معاملے کی سنگینی کو نا جانا..."تُم اپنے بھائی کو کال کرو ناں اُسے ہی تو لینے گیا ہے وُہ فالتو میں پریشان ہونے کی عادت ہے تمہیں...""آیا تھا اُسی کا فون اُسی سے تو پتا چلا کہ علی تو اُنہیں لینے ہی نہیں گیا یہاں سے بھی صبح کا نکلا ہوا کہ کُچھ کارڈ دینا رہ گئے ہیں وہ کرکے صداقت کو اسٹیشن سے لے لے گا مگر اب شام کے سات بج گئے ہیں وُہ لوگ دو گھنٹے اسٹیشن پر انتظار کرکے خود ہی آرہے ہیں مگر علی نہیں آیا میرا دِل ہولا جارہا ہے سبحان صاحب پتا کریں..."شفق خاتون کو کسی طور قرار نہ آرہا تھا..."یہ تو واقعی پریشانی کی بات ہے..؟"اُنہوں نے آہستہ سے خود سے کہا اور دانیال کو آواز دینے لگے.."یا اللہ علی بلکل ٹھیک ہوں.."نور کا خود کا دِل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا مگر اُس نے ہی تو سب کو سنبھالنا تھا ورنہ شفق خاتون کے تو ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے تھے...چند گھنٹے مزید گزر گئے مگر علی کا پتا نہیں چلا شادی والے گھر میں عجیب خطرناک خاموشی سی چھا گئی تھی..."کُچھ پتا چلا ابو اِن کا۔۔"نور نے سبحان صاحب کو اندر آتے دیکھ کر لپک کر پوچھا...اُنہوں نے بس نفی میں گردن ہلا کر اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا..."ہائے کہاں ہے میرا بچہ آپ علی کو ڈھونڈ کیوں نہیں رہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں..؟"شفق خاتون بولائی سی اُن کے سر ہوئی..."میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا ہوں ہر جگہ معلوم کرچکا ہوں جہاں جہاں اُس کے ہونے کی اُمید تھی مگر وہ کہیں نہیں ہے..."سبحان صاحب نے اُنہی کے انداز میں جواب دیا..."بس اب ایک ہی جگہ رہ گئی ہے میں نے دانیال کو بھیجا ہے وہاں معلوم کرنے..."وُہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے..."کونسی جگہ..؟"نور کی آنکھوں میں اُمید در آئی..."ہاسپٹلز میں جس آخری گھر میں وُہ کارڈ دے کر نکلا تھا اُس کے قریب کے سارے ہاسپٹل میں..""اِس بات کا کیا مطلب ہے.."شفق خاتون نے دہل کر کہا..."ہمت سے کام لو شفق انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا.."سبحان صاحب اُن کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر فوراً ہمت بندھاتے ہوئے بولے..."ابو علی کو کُچھ نہیں ہوا ہوگا وُہ کسی کام میں پھنس گئے ہوں گے.."وُہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی جو بات سبحان صاحب نے کی تھی..."انشاءاللہ انشاءاللہ مگر ہمیں ڈھونڈنا تو ہے نا اُسے تُم بس اللہ سے دعا کرو وُہ سب ٹھیک کرے گا.."سبحان صاحب نے نور کو دیکھتے ہوئے تسلی آمیز انداز سے کہا... "آپا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے علی بالکل ٹھیک ہو گا.."کُچھ دیر پہلے ہو گھر پہنچے صداقت ماموں نے اپنی بہن کو سنبھالتے ہوئے کہا..."دوپہر سے اُس کا کُچھ نہیں پتا اب رات کے گیارہ بج رہے ہیں پریشان کیسے نہیں ہوں میں...."اُنہوں نے اپنا رونا جاری رکھتے ہوئے کہا..."امی امی علی بھائی کا نمبر آن ہوگیا ہے بیل جارہی ہے.."متواتر علی کا نمبر ٹرائی کرتی فرح نے چیخ کر سب کو بتایا.."ہیلو علی بھائی آپ کہاں ہیں..؟"فون لگتے ہی اُس نے پہلا سوال کیا مگر دوسری طرف سے اجنبی آواز سن کر ٹھٹھک گئی..."جی آپ کون..؟"فرح نے فوراً پوچھا..."ایکسڈنٹ کیسے؟؟ میرے بھائی کیسے ہیں اب..؟"وُہ رودینے کے قریب تھی..."کیا ہوا کیسا ایکسڈنٹ میرا بچہ کیسا ہے..؟"شفق خاتون نے اُسے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا....دوسری طرف نور کی حالت یوں تھی کاٹو تو بدن میں لہو نہیں..."ٹھیک ہے ہم آرہے ہیں.."اُس نے جلدی سے فون رکھا..."بتاتی کیوں نہیں کُچھ کیسا ہے میرا علی..؟""امی بھائی کا ایکسڈنٹ ہوا ہے جس سے اُن کا ہاتھ فریکچر ہوا وُہ ہوش میں آگئے ہیں عباسی ہاسپٹل میں ہیں ہمیں چلنا ہوگا ابو.."اُس نے سب کو بتایا..."علی..." نور کو اپنا دِل ڈوبتا محسوس ہونے لگا یہ سوچ سوچ کر اُسے ہول آرہے تھے کہ وُہ کتنی تکلیف میں ہوگا... "الٰہی خیر.."سبحان صاحب کو بھی شدید دھچکا لگا تھا..."بھائی صاحب ہم لوگ چلتے ہیں ہسپتال.."صداقت ماموں نے سبحان صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں ہمت دی..."میں بھی چلوں گی.."شفق خاتون نے فوراً کھڑے ہوکر کہا.."عورتیں گھر پر ہی رہیں گی ہم جا رہے ہیں علی کو لے کر گھر آئیں گے.."سبحان صاحب نے دو ٹوک انداز میں کہا اور اُن کی اگلی بات سنے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے..."یا اللہ میرے علی کو اپنی حفظ و امان میں رکھیے گا..."نور نے دعا کی... ________________________________________صبح پانچ بجے کے قریب وُہ لوگ علی کو لے کر گھر آئے تو پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا کچھ مہمان پہلے سے رُکے ہوئے تھے کُچھ لوگوں کو ٹھہرے ہوئے لوگوں نے ہی اطلاع کردی تھی زرینہ خالہ کا تو پورا گھر موجود تھا ماسوائے تانیہ اور شعیب کے..."امّاں آپ اتنا پریشان مت ہوں میں بلکل ٹھیک ہوں معمولی سا فریکچر ہے بس ڈاکٹر نے کہا ہے دو تین ہفتے میں بلکل ٹھیک ہوجاؤں گا..."علی نے مسلسل روتی شفق خاتون کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا..."شفق اللہ نے کرم کیا ہے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا مصیبت چھوٹے میں ٹل گئی ورنہ بائک کا جو حشر ہوا ہے اُسے دیکھ کر تو میں بھی ڈر گیا تھا بہت..."سبحان صاحب نے اُنہیں چُپ کروانے کی کوشش کی..."نور کہاں ہے؟.."اُس کی نظریں کب سے اُسے ہی ڈھونڈھ رہی تھیں مگر وہ نہ دکھی..."یہی تھیں ابھی تھوڑی دیر پہلے تو شاید نماز پڑھنے گئی ہیں بھابھی نے بھی رو رو کر خود کو ہلکان کیا ہوا ہے..."فرح نے تاسف سے کہا..."جاؤ بھائی کو کمرے میں لے جاؤ آرام کرے تاکہ اور اپنی بیوی کو بھی سنبھالے..."سبحان صاحب نے دانیال اور فرح سے کہا..."چلیں بھائی.."فرح نے اُس کا دایاں ہاتھ اپنی گردن میں ڈالتے ہوئے کہا جبکہ دانیال نے اُسے کمر سے پکڑ لیا..."میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہے یار ریڑھ کا یا پیر کی نہیں میں چل سکتا ہوں..."اُسے یوں کسی کے سہارے ہونا ویسے بھی پسند نہ تھا۔۔۔"استغفر اللہ ایک ماروں گی اب میں غضب خُدا کا جو منہ میں آرہا بک رہا نجانے کونسی گھڑی ہو ..."شفق خاتون نے اُسے بری طرح گھرکا..."آپکے پاؤں میں بھی کافی چوٹیں لگی ہیں بھائی اور چُپ چاپ چلیں بے فکر ہوکر میں سیڑھیوں سے گراؤں گی نہیں آپکو..."فرح نے مسکرا کر کہا..."ویسے امی دیکھیں آپ نے بھائی کا کمرہ پہلی منزل پر شفٹ کروا دیا دانیال بھائی کے لئے اب انہیں چڑھنے اُترنے میں کتنی مشکل ہوگی..."نمرہ نے فکر مند ہوکر کہا..."ہاں بھائی میں کل ہی اپنے دوستوں کو بلا کر سامان نیچے شفٹ کرواتا ہوں آپکا میں اور تانیہ اُوپر چلے جائیں گے.."دانیال نے بھی برجستہ کہا..."نہیں کوئی ضرورت نہیں یار کُچھ دنوں کی ہی بات ہے ویسے بھی نیچے والا کمرہ اچھے سے سیٹ ہوگیا ہے اب کیوں اُسے خراب کرنا..."اُس نے فوراً منع کردیا..."اب چلیں بھائی میری گردن دبی جارہی ہوں آپکے بھاری ہاتھ کے نیچے..."فرح نے ازراہِ مذاق کہا..."تمہیں ہی شوق ہے میں تو کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک ہوں.."علی نے مزید زور ڈالتے ہوئے کہا.."میں آپ کے لئے یخنی لاتی ہوں.."نمرہ نے علی سے کہا اور لاؤنج سے باہر چلی گئی.."بھائی کیا جان بنا رکھی ہے پہلوانوں جیسی میری تو گردن ہی درد کرنے لگ گئی ہے.."ابھی آدھی سیڑھیاں بھی نہ ہوئی تھی کہ فرح ہانپنے لگی..."تُم چھٹانگ بھر کی ہو اِس میں میرا کیا قصور.."علی نے اُس کی صحت کو نشانہ بنایا..."دانیال یار تُم آجاؤ یہ مر ہی نہ جائے..."علی نے دیوار کا سہارا لے کر اُسے آزاد کیا دانیال نے پھرتی سے اُس کا ہاتھ اپنی گردن میں ڈال لیا اور فرح نے دانیال کی جگہ سنبھال لی۔۔۔وُہ کمرے میں داخل ہوئے تو نور نماز پڑھ رہی تھی دانیال اور فرح نے آرام سے اُسے بیڈ پر بٹھا دیا اور کمرے سے چلے گئے...وُہ اطمینان سے بیٹھا اُسے نماز پڑتا دیکھ رہا تھا ایک عجیب سکون سا تھا اُس کے چہرے پر....سلام پھیرنے کے بعد اُس نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے مگر ایک دفعہ بھی اُس کی طرف نہیں دیکھا ایسا ہرگز نہیں تھا وُہ اُس کی موجودگی سے واقف نہ تھی...علی نے دیکھا اُس کی آنکھیں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وُہ رو رو کر اللہ سے کیا مانگ رہی تھی یہ اُسے بھی بہت اچھے سے پتا تھا..."آپ آگئے میں یخنی بنا کر لاتی ہوں آپکے لئے طاقت ملے گی اُس سے..."اُس نے جائے نماز سمیٹتے ہوئے کہا مگر اُس کی طرف دیکھا تک نہیں..."نمرہ بنا رہی ہے تُم اِدھر میرے پاس آؤ.."علی نے نرمی سے کہا..."میں آپکے کپڑے نکال دیتی ہوں یہ تو سارے خراب ہورہے ہیں ..."اُس نے علی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا..علی چُپ رہا بس اُس کی بوکھلاہٹ دیکھتا رہا..."نکال دیے کپڑے اب کوئی اور کام ڈھونڈو.."اُس نے مضطرب سی کھڑی نور کو شرمندہ کرنا چاہا...ہاں نہا تو آپ سکتے نہیں ہیں میں پانی لے آتی ہوں بالٹی میں اُس نے کپڑا بھگو بھگو کر یہ مٹی وغیرہ صاف کردوں گی سینے اور کندھے سے..."اُس نے علی کی بات کو اب بھی کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا..."نور اِدھر آؤ..."اب کی بار وُہ ذرا اونچی آواز میں بولا تو اُس کے قدم تھم گئے ہار مان کر وُہ اُس کے برابر میں جاکر بیٹھ گئی...."میری طرف دیکھو..."علی نے رسان سے کہا...اُس نے نفی میں اپنی گردن ہلائی..."نورِ حیات.."اُس نے تھوڑی کے نیچے اپنی اُنگلی رکھ کر اُس کا چہرہ اونچا کیا تو وہ پورا بھیگا ہوا تھا..."چڑیا جتنا دِل ہے تمہارا یار..."علی نے فوراً اُسے اپنے سینے سے لگا کر کہا اُس کا لمس پاکر نور سارے بندھ توڑتی رو دی..."اتنی سی بات پر تُم نے کیا حال بناکر رکھ دیا ہے خود کا یار اِس طرح اذیت مت دو مُجھے میں ٹھیک ہوں بلکل چندا.."اُس نے نور کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔"میں بہت ڈر گئی تھی علی اگر آپکو کُچھ بھی ہوجاتا تو میں مرجاتی میں آپکے بغیر نہیں رہ سکتی... نہیں جانتے آپ میں نے یہ گھنٹے کس اذیت میں گزارے ہیں بظاھر خود کو میں نے بہت مضبوط رکھا مگر اندر سے میرا دِل بری طرح کانپ رہا تھا..."اُس نے ہچکیوں کے درمیان کہا..."کُچھ نہیں ہوا مُجھے میں یہی ہوں تمہارے پاس٬تمہارے ساتھ بس اب رونا بند کرو پلیز یار.."اُس نے ذرا سختی سے کہا تو وُہ ہچکیاں لیتی اُس سے الگ ہوئی..."پانی پیو شاباش.."اُس نے سائڈ ٹیبل پر رکھے جگ کی طرف اشارہ کرکے کہا نور نے اُس کی بات مانتے ہی پانی گلاس میں انڈیلا اور پیا تو کہیں جاکر اُس کی ہچکیاں رُکی..."اب رونا نہیں ہے تُم نے سمجھ آئی میری بات.."اُس نے حکم دیا تھا...نور نے اثبات میں سر ہلا دیا...اب شرٹ چینج کروا دو میری جلدی سے اُلجھن ہورہی مُجھے..."علی نے چڑ کر کہا تو وہ مسکراتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی...(جاری ہے)