قسط نمبر ۹"احساس سے محرومی دنیا کی سب سے بڑی محرومیوں میں سے ایک ہے۔ وہ منظر جنھیں ظاہری آنکھ نہ دیکھ سکے انھیں صرف احساس کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی اساس اصل میں احساس پر قائم ہے۔ بے حسی، انسان اور انسانیت' دونوں کی دشمن ہے۔"
اُس نے ٹھنڈے فرش پر چادر جیسے بستر کو بچھاتے ہوئے سوچا۔۔۔
آج پھر ایسا ہی ہوا تھا خوابوں کے اُس محل کو جس کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی تھی اُسے ایک بار پھر تباہ کر دیا گیا تھا وُہ ہر نماز میں ایک دعا ضرور کرتی تھی کہ اُس کا جیون ساتھی جو بھی ہو جیسا بھی ہو بس وُہ اُسے تحفظ اور عزت دے وُہ ان ہی دو چیزوں کو تو ترسی ہوئی تھی..
"نور نور نیچے آ..."
عافیہ اور صبا دونوں کی چیختی چنگھاڑتی آواز نے اُس کی سماعتوں پر بم گرایا وُہ جانتی تھی اُسے کیوں بلایا جارہا تھا مگر وہ سوچ کر ہی دہلے جارہی تھی ابھی پچھلے زخم سوکھے بھی نہ تھے نئے زخم کھانے کی اُس میں سکت نہ تھی مگر اگر وُہ نیچے نہ جاتی تو وُہ دونوں اوپر آجاتیں اور اِس صورت میں اُس کی مزید کمبختی تھی...
دروازے پر لٹک رہے دوپٹے کو اُس نے شانوں پر پھیلایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے سیڑھیاں اُترنے لگی....
"آگئی امی حرام کی جنی آگئی.."
یہ صبا کی آواز تھی جس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے...
"امی قسم لے لیں مُجھ سے میں جان بوجھ کر سامنے نہیں آئی تھی مُجھے نہیں پتا کہ وُہ اوپر ہیں..."
وُہ آخری سیڑھی پر کھڑی ہوکر بولی اُن دونوں کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا اور وُہ سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی...
"ہاں پتا ہے مُجھے کتنی شریف ہے تو ناہنجار..."
وُہ سرعت سے اُس کی طرف بڑھیں اور اُسے گدی سے پکڑ کر فرش پر لا پٹخا...
"اللہ..." وُہ پسلیوں کے بل فرش پر گری اُس کے منہ سے چیخ نکلی بھی نہ تھی پوری کہ صبا نے اُس کی پسلی پر ہی ایک زوردار ضرب لگائی تھی...
"امی ابو کی قسم اللہ کی قسم میں جان بوجھ کر سامنے نہیں آئی تھی میری بات کا یقین کریں.."
وُہ عافیہ کے پیروں سے لپٹ کر گڑگڑاتے ہوئے بولی۔۔
"پتا نہیں ایسے کون سے جوہر دکھا دیئے اُس کے وُہ دیوانہ ہوگیا تیرے پیچھے منہ تو کالا نہ کر بیٹھی اُس کے ساتھ..."
عافیہ نے اُسے بالوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا...
چٹاخ چٹاخ کئی تھپڑ صبا نے اُس کے منہ پر رسید کیے تھے...
"یہ ہے ہی بدکردار محلے میں کھڑے ہو ہوکر مردوں سے باتیں کرتی ہے امی وُہ برابر والی شفق آنٹی کا بیٹا ہے نا علی ناصرہ بتا رہی تھی اُس نے کل اِسے اُس کے ساتھ محلے میں کھڑے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تھا اور وُہ اِس بدکردار کو پیسے بھی دے رہا تھا..."
"یہ کیا کہہ رہی ہے تُو۔۔۔"
عافیہ اس نئے انکشاف پر دنگ سی اُسے دیکھتے ہوئے بولی...
"ہاں پتا نہیں ایسا کیا کِیا ہے اُس کے ساتھ جو وُہ اسے...."
"صبا آپی اتنی بڑی تہمت مت لگائیں خُدارا..."
وُہ پہلی بار چیخی تھی دِل و جان سے تڑپ ہی تو اُٹھی تھی اتنے رکیک اِلزام پر...
"خاک ڈال دی ہمارے سروں میں بول کیا کِیا ہے اُس کے ساتھ کیوں پیسے دے رہا تھا وُہ تُجھے..."
وُہ اُسے بولنے کا موقع دیئے بغیر اُسے پے در پے مار رہی تھیں...
"امی ایسا کُچھ نہیں ہے میں آپکو سب بتاتی ہوں بخدا ایسا کُچھ نہیں ہے ایک بار میری بات سن لیں..."
وُہ خود کو بچانے کے چکر میں بری طرح ہانپ رہی تھی...
"ویسے تو بڑی پردے دارنی بنتی ہے اور مردوں کو خوب پھنسا رکھا ہے..."
صبا نے اُسے بالوں سے پکڑ کر کئی جھٹکے دے ڈالے...
"ہاں تب ہی میں کہوں چند دِن پہلے شفق مُجھ سے کیوں پوچھ رہی تھی کہ نور کی کہیں بات تو پکی نہیں کی مُجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا یہ کُتیا ضرور کوئی چکر چلا رہی ہے آئے ہائے کیسی بدذات لڑکی ہے جیسی ماں ویسی بیٹی ماں نے میرے میاں کو پھنسایا اور بیٹی میری بیٹی کے حق پر ڈاکے ڈال رہی اِسے میں آج نہیں چھوڑوں گی جان سے مار دوں گی اِسے..."
دوبارہ اُسے فرش پر پٹخ کر وُہ کونے میں پڑے وائپر کی طرف بڑھی...
"نہیں امی نہیں امی آئندہ نہیں کروں گی کسی کی سامنے نہیں آؤں گی غلطی ہوگئی مُجھے معاف کردیں امی نہیں..."
وُہ اُنہیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر دونوں ہاتھوں کے بل کچے فرش پر گھسٹتی گھسٹتی پیچھے جانے لگی تب ہی عافیہ نے لکڑی کا ڈنڈا اُس کے تلوؤں پر دے مارا...
وُہ گھر ہی نہیں بلکہ پورا تقریباً پورا محلہ اُس کی چیخ سے گونج اٹھا تھا...
"امی تیل کی تھیلی پھٹ گئی تھی اُن کی بائک کی ٹکر سے تو بس اِسی لیے پیسے..."
مگر اُس کی ہر بات ادھُوری رہ گئی اگلا وار وہیں اُس کی پسلی پر کیا گیا تھا...
"امی آپ پاگل تو نہیں ہوگئی ہیں یہ کیا کر رہی ہیں..؟"
نادیہ جو ابھی نہا کر نکلی تھی فوراً اُنہیں روکنے کے لئے آگے بڑھی...
"یہ کیسی آوازیں آرہی ہیں اماں..."
برابر والے گھر میں دسترخوان پر بیٹھا پورا سبحان صاحب کا کنبہ یہ آوازیں سُن کر حیران ہوا تھا...
"امی آئندہ نہیں ہوگا امی معاف کردیں..."
اُس کی دلخراش چیخیں وہاں بھی سنائی پڑ رہی تھیں...
"امی جان لیں گی کیا اُس بے بیچاری کی جب وہ کہہ رہی ہے اُس نے جان بوجھ کر نہیں کیا تو کیوں جانوروں کی طرح اُسے مارے جارہی ہیں..."
نادیہ واحد تھی اُس گھر میں جو اکثر اُسے عافیہ اور صبا کے عتاب سے بچا لیتی تھی اُس کے اندر کا انسان ابھی بھی زندہ تھا...
"تو ہٹ جا آگے سے نادیہ تُم نہیں جانتی یہ کیا گُل کھلا رہی ہے..."
صبا نے زہر خنداں کہتے ہوئے اُسے ہٹانا چاہا...
"میں جاکر دیکھتی ہوں پتا نہیں کیوں مار رہی ہے اتنی بری طرح سے بیچاری کو حد کرتی ہے یہ عافیہ.."
شفق خاتون نے کھانا چھوڑ کے دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا...
"چھوڑ اماں کیوں دوسروں کے معاملے میں پڑتی ہے.."
دانیال نے ڈونگے سے سالن پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بے نیازی سے کہا...
"امی اللہ کی قسم میں نے کُچھ نہیں کہا..."
آواز مزید تیز آئی تھی اور ساتھ ایک چیخ بھی اُبھری تھی...
"اماں آپ جائیں انسانیت بھی کوئی چیز ہے وُہ لڑکی بھی اِنسان ہے یہ ایسے کیسے جانوروں کی طرح اُسے مار رہی ہیں غلطی چاہے جو بھی ہو..."
علی نے شدید غصّے سے کہا...شفق خاتون اُٹھ کر جا چُکی تھیں...
"چھوڑیں اِسے میں نے کہا دیں اِدھر..."
نادیہ نے وائپر کا ڈنڈا اُن کے ہاتھ سے چھین کر دور پھینکا...
"آپ لوگوں کے اندر ذرا سی بھی انسانیت نہیں ہے امی اِس طرح تو کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا جس طرح آپ نے اِس کا بھرکس نکال دیا ہے دیکھیں حشر دیکھیں کیا کِیا ہے آپ نے کُچھ تو خُدا کا خوف کریں.."
نادیہ نے اُس کے پیروں، منہ سے بہتے خون اور اُس کی ابتر حالت کو تاسف سے دیکھتے ہوئے کہا...
"کیا ہوگیا ہے عافیہ کیوں بچی کو مار رہی ہے۔۔"
شفق خاتون کے ساتھ ایک عورت اور تھیں وُہ بھی غالباً نور کی دِل دوز چیخیں سُن کر آئی تھیں...
"اللہ توبہ عافیہ یہ کیا حشر کیا ہے بچی کا جوان بیٹی کو کوئی یوں کوئی مارتا ہے دیکھ تو شفق کیسا پیر نیلا ہورہاہے پورا خون نکل رہا ہے منہ سے..."
ساتھ آئی خاتون نے اُس کی خراب و خستہ حالت دیکھ کر افسوس سے کہا...
"نور آنکھیں کھولو نور.."
نادیہ نے زمین پر بیٹھ کر اُس کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا مگر وُہ بے ہوش ہوچکی تھی...
"جانور ہیں آپ لوگ بِلکُل جانور..."
نادیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے نور کی حالت دیکھ کر...
"تمہارے بیٹے کو پھنسا رہی ہے اور میرا منہ کالا کر رہی ہے یہ اور کرو اِس سے ہمدردی.."
عافیہ استہزایہ کہتی ہوئی اب شفق خاتون سے مخاطب تھی...
"کیا مطلب ہے تمہارا.."
اُن کے چہرے کے زاویے تن گئے...
"پوچھنا اپنے بیٹے سے کیوں پیسے دیتا ہے اِسے گلی میں روک روک کر ہنس ہنس کر کیوں باتیں ہوتی ہیں.."
"بکواس بند کرو اپنی میں جانتی ہوں اپنی اولاد کو اور ایک عرصے سے اِس بچی کو بھی دیکھ رہی ہوں تمہارے منہ لگنا ہی فضول ہے نادیہ میں گھر سے دانیال یا علی کو بلاتی ہوں ہسپتال لے کر چلو اِسے.."
عافیہ کو بری طرح جھڑک کر وُہ نادیہ سے کہتی ہوئیں باہر نکل گئیں...
"دانیال جلدی سے ٹیکسی لے کر آ نور کو ہسپتال لے کر جانا ہے اُن جاہل ماں بیٹی نے اُسے مار مار کر ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے.."
"میں ویں کوئی نہیں جارہا ٹیکسی لینے آپکو پتا نہیں کیوں لاڈے کی بوا بننے کا بہت شوق ہے.."
وُہ چاولوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بیزاری سے بولا...
"حد ہے دانیال حد ہے تُم رُکو شفق میں لاتا ہوں ٹیکسی..."
سبحان صاحب نے اُسے ملامت کی اور کھانا چھوڑ کر اُٹھنے لگے...
"ٹھہرے ابا میں لاتا ہوں ٹیکسی۔۔۔"
علی نے اُنگلی پر لگے چاولوں کو منہ سے صاف کرتے ہوئے کہا اُٹھ گیا...
"رُک کیا تُو نے نور کو کوئی پیسے دیئے تھے یا اُس سے محلے میں کھڑے ہوکر کسی بھی قسم کی کوئی بھی بات کی تھی.."
وُہ اُسے کھوجتی نظروں سے دیکھتی بولیں...
"ہاں کل دراصل میری بائک کی اُس سے ٹکر ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں اُس کی تیل کی تھیلی پھٹ گئی تھی میری وجہ سے اور آپ اُس کی ماں کو تو جانتی ہیں بس اِسی لیے میں نے اُسے پیسے دیے مگر پھر خود اُسے تیل لاکر دے دیا تھا..."
اُس نے سادہ سے انداز میں سب بتادیا...
اُنہوں نے اطمینان کا سانس لیا...
"اور اِس ہی بات کی سزا دی ہے اُس کی سوتیلی ماں نے اُسے..."
وُہ رنج سے بولیں...
علی نے ایک گہری سانس لی اور باہر نکل گیا.....