#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۶ (2nd last episode)
(حصہ سوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپاعلی چُپ چاپ چلتا ہوا اُس کے ساتھ بیڈ پر سامنے کی طرف بیٹھ گیا...
نور نے نہ آنکھیں کھولیں نا ہی رُخ بدلا ایسے ہی لیٹی رہی...
کافی دیر تک وُہ یونہی اُسے دیکھتے رہا نہ نور کے چہرے کے تاثرات میں کوئی فرق آیا نہ علی کی نظروں میں ایسا نہیں تھا وُہ خود کو تکتی اُس کی نظروں سے انجان تھی مگر وُہ کُچھ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی...
علی نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تب بھی وہ یونہی لیٹی رہی جیسے بے جان ہو..
"میں جانتا ہوں تُم جاگ رہی ہو..."
علی کی آواز اُسے اپنے بہت قریب سنائی دی....
"نور نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں تو اب وُہ اُس کے برابر میں بیٹھا ہوا اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہا تھا آنکھیں مستقل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے چہرے پر ٹکی تھیں...
"کیسی ہو..؟"
"ٹھیک ہوں..."
نور نے بے تاثر لہجے میں مختصر جواب دیا...
"تُم نے مُجھے بِلکُل ڈرا دیا تھا نورِ علی..."
علی نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"حیرت ہے مُجھے یہ ڈر میرے مرنے کا تھا یا اپنی اولاد کے.."
وُہ طنزیہ انداز میں بولی...
"میرے لیے سب سے اہم تُم ہو کیونکہ تُم ہو تو سب ہے ورنہ کُچھ نہیں اللہ نہ کرے اگر ہمارے بچے کو کُچھ ہوجاتا..."
"چُپ ہوجائیں ایسا بولیں بھی مت میں ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتی..."
اُس نے بے اختیار علی کو ٹوک دیا...
"پھر مت کرو ایسی باتیں مُجھے تکلیف ہوتی ہے نور تمہاری بے اعتبار نظریں مُجھے گھائل کر رہی ہیں ہم نے اتنا وقت ساتھ گزار لیا ہے ایک دوسرے کو اچھے سے جان چُکے ہیں اپنے دِل سے بتاؤ کیا تُمہیں سچ میں لگتا ہے کہ میں تمہیں دھوکہ دے سکتا ہوں تمہارے ساتھ بیوفائی کرسکتا ہوں..."
علی نے پُر اُمید نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا...
نور چُپ رہی...
"تُم فضہ سے پوچھ سکتی ہو جس دِن اُس کا آخری دِن تھا آفس میں اُس ہی دِن اُس کی کال آئی تھی مگر میں..."
"اُسی دِن آپ نے مُجھ پر ہاتھ بھی اُٹھایا تھا علی شادی کے پانچویں دِن وُہ آپ سے ٹکرائی تو آپ نے مجھے میرے میکے والوں کے سامنے شرمندہ کیا جب اُس کی کال آئی تو آپ نے مُجھ پر ہاتھ اُٹھایا ہر بار ہی تو آپ نے اپنی ناکام محبت کا بدلہ مُجھ سے لیا ہے کیوں یقین کروں میں آپکا...."
وُہ اُس کی بات کاٹ کر درشتی سے بولی...
"وُہ پہلے کی بات تھی تب میں تُمہیں نہیں جانتا تھا اور تُم پر ہاتھ اُٹھانے جیسی گھٹیا حرکت کے لئے میں آج بھی شرمندہ ہوں۔۔"
وُہ فوراً بولا ۔۔
"آپ ابھی بھی نہیں جانتے مُجھے..."
وُہ اُس کا ہاتھ ہٹا کر بولی...
"وُہ مُجھے دھمکیاں دے رہی تھی کہ اگر میں نے اُس سے شادی نہیں کی تو وہ گھر آکر میرے بارے میں جھوٹ بولے گی کہ میرے اور اُس کے بیچ تعلقات ہیں اور دیکھو اُس نے وہی کیا تُم نے اُس کی بات کا یقین بھی کرلیا کیسے نور کیسے..؟"
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا...
"میرے پاس یقین نا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر یقین کرنے کی بہت تھیں..."
وُہ بھی اُسی کے انداز میں بولی...
"میری محبت، میری رفاقت کیا یہ وجہ بھی کافی نہیں تھی مُجھے تُم پر بہت مان تھا نور تُم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہارے علاوہ کسی اور کو..."
شدتِ غم کے باعث اُس کا گلا رندھ گیا...
"آپ نے میرا بھروسہ توڑا ہے علی اِس کے لئے میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی..."
وُہ مغموم لہجے میں بولی...
"میں نے کوئی بھروسہ نہیں توڑا میں کل بھی صرف تمہارا تھا آج بھی تمہارا ہوں اور صرف تمہارا ہی رہوں گا اگر توڑا ہے کُچھ تو تُم نے توڑا بہت بے دردی سے میرا مان میں تُم سے ناراض بھی نہیں ہوسکتا اتنا بے بس ہوں پھر بھی تُمہیں مُجھ پر یقین نہیں..."
آزردہ لہجے میں کہتے ہوئے وُہ اُس سے الگ ہوا...
"علی...." نور نے تڑپ کر اُسے پُکارا...
"میں نے کہا ناں میں تُم سے ناراض نہیں ہوسکتا فکر مت کرو یہی ہوں تمہارے پاس مگر ساتھ نہیں کیونکہ میرے قرب سے اب تمہیں گھن آتی ہے... حیران مت ہو تُم نے ہی کہے ہیں یہ الفاظ "گھن"..."
وُہ اُس کی چہرے پر پھیلی حیرت کو دیکھتے ہوئے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور سامنے صوفے پر جاکر لیٹ گیا...
"گھن"..کیا میں نے اتنا گھٹیا لفظ کہاں اِن سے..."
اُسے قطعی یاد نہیں تھا کہ وه غصّے میں اُسّے کیا کیا بول چُکی تھی...