#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۵
(حصہ دوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟..."
نور چھت پر ریلنگ پر ہاتھ ٹکائے اپنے کسی خیال میں مگن تھی جب علی اُس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا...
نور نے سنا ہی نہیں مسلسل اُس کی نظریں آسمان کی طرف اُٹھی نجانے کیا ڈھونڈھ رہی تھیں..
وُہ اب اُس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا مگر نور کی محویت میں کوئی فرق نہ آیا علی گہری نظروں سے اُس کے چہرے کو دیکھنے لگا شاید پہلی بار وُہ اُسے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا کیونکہ محبت تو اُسے نور سے ہوئی تھی اُسکی ظاہری خوبصورتی سے نہیں...
سرخ سفید رنگت،جھیل آنکھیں، ستواں ناک، خم دار ٹھوڑی اور گلابی لب، رخساروں کے سلگے ہوئے ابھار ہلکی سی سرخی لیے ہوئے تھے۔
وہ آنکھیں جھپکے بغیر اُفق کو تک رہی تھی
علی کا ذہن اُس کے حسن کے لیے تشبیہات تلاش رہا تھا۔۔ اُسے سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ اسکی آنکھوں کو ستارہ کہے یا جھیل۔۔ لبوں کو گلاب کہے یا یاقوت وُہ بہت خوبصورت تھی علی جانتا تھا مگر آج وُہ بہت اطمینان اور سکون سے اُس کے چہرے کے ایک نقش کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دِل میں اُتار رہا تھا...
نور کی پلکوں پر ٹھہرا ایک آنسو باہر گرنے کو بیتاب تھا تبھی علی نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گرنے سے پہلے ہی صاف کردیا نور نے بس ایک نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا پھر دوبارہ اپنی حالت میں چلی گئی...
"کیا بات ہے نور میں نے صبح بھی تُم سے پوچھا تھا مگر تُم ٹال گئی تھی بات کو ابھی یہاں اکیلے کھڑی آنسو بہا رہی ہو مُجھے نہیں بتاؤ گی.."
علی نے اُس کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے پوچھا...
وُہ چُپ رہی...
"نور میری طرف دیکھو..."
علی نے بہت آہستہ سے کہا تو اُس نے اپنی سپاٹ نظریں علی کے چہرے پر ٹکا دیں...
"کیا ہوا ہے جانم؟ کیوں رو رہی ہو ؟ کم از کم مُجھے تو بتاؤ..."
علی نے بہت غیر محسوس سے انداز میں اُسے خود سے قریب کیا تھا...
نور اب بھی کُچھ نہ بولی بس خالی نظروں سے اُس کے چہرے کو دیکھتی رہی...
"تُمہیں یقیناً کوئی بات مسلسل پریشان کر رہی ہے اور تُم مُجھے بتا نہیں رہی ہو..."
علی نے اُس کے چہرے پر آئے بالوں کو نرمی سے پیچھے کیا...
اگلے ہی لمحے نور کا دایاں ہاتھ علی کے چہرے پر تھا آنکھوں میں اب تکلیف کے ساتھ ساتھ آنسو بھی نمایاں تھے اُسے دیکھتے ہوئے بس ہلکا سا مسکرائی تھی پھر سرعت سے اپنا ہاتھ اُس کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں...
"ابو خواب میں آئے تھے بہت پریشان تھے رو رہے تھے کُچھ بول نہیں رہے تھے بس رو رہے تھے..."
نور نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا وُہ واقعی اُس خواب سے جاگ کر باہر آئی تھی دِل مزید بوجھل ہوگیا تھا....
"خواب تھا وُہ نور تُم بس اُن کے لیے دُعا کرو ..."
علی نے اُسے خود سے لگاتے ہوئے تسلی دی...
"شاید..." اُسکی آواز میں کرب واضح تھا...
"اتنا مت سوچو تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے بچے کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے..."
علی نے اُسے کمرے کی طرف لے کر چلتے ہوئے کہا...
"کوشش کرتی ہوں مگر کُچھ باتیں آپکو بُری طرح توڑتی ہیں ایسا لگتا ہے دِل کوئی آری سے کاٹ رہا ہو کوئی آپکی روح نکال رہا ہو کوئی آپکے سامنے آپ سے آپکی زندگی چرا کر لے جارہا ہو اور آپ بے بس ہو بہت بے بس کیونکہ زندگی تو خود آپ سے بندھے بندھے تھک چکی ہے اُسے نیا پن درکار ہے اُسے نئے وجود کی تلاش ہے..."
آخری بات اُس نے براہِ راست علی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا وُہ دیکھنا چاہتی تھی اپنے مُجرم کی آنکھوں میں کیا ذرا بھی ندامت ہے مگر اُس کی آنکھیں ایسا کوئی احساس نہ پا کر تھکی ہاری لوٹ آئیں...
"تُم بہت زیادہ سوچنے لگ گئی ہو اور کُچھ نہیں تُمہاری زندگی تو میں ہوں ناں اور مُجھے تُم سے دور کوئی نہیں لے کر جاسکتا سوائے تمہارے..."
علی نے اُسے بٹھاتے ہوئے کہا..
"اب آرام سے سوجاؤ شاباش میری جان.."
اُس نے نور کا گال تھپتھپا کر کہا اور دوسری طرف آکر لیٹ گیا اور کروٹ اُس کی طرف لے لی...
"آنکھیں کھول کر تو نیند آنے سے رہی یار آنکھیں بند کرو اور چاروں قل پڑھ کر سوجاؤ ڈر نہیں لگے گا..."
"کیا میں آپکا ہاتھ پکڑ سکتی ہوں...؟"
نور نے اجازت مانگی تھی...
"اِس کے لئے پوچھنے کی ضرورت ہے تُمہیں...؟"
علی نے ناراضی سے کہا...
"ایسے ہی پوچھ لیا آپ سورہے ہیں ڈسٹرب نہ ہوجائیں..."
وُہ اب بات بنانے لگی...
علی نے اُس کی بات کے جواب میں خود اُس کا ہاتھ پکڑ لیا...
"اب آنکھیں بند کرو اور سوجاؤ شاباش.."
اُس نے دوسرے ہاتھ سے نور کی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا...
جب تک وہ سو نہیں گئی آہستہ آہستہ اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا رہا...
علی نے نرمی سے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے نکالا...
"کبھی کبھی بلکل بچوں والی حرکتیں کرتی ہو تُم نورِ علی کتنی معصوم اور پیاری لگ رہی ہو سوتے ہوئے میری "جنگلی بلی" ..."
اُس کے لب خود بخود ہی مُسکرا اُٹھے...