قسط نمبر ۸

1.2K 77 1
                                    


قسط نمبر ۸

"بہت ہمدردی پھوٹ رہی ہے تمہارے دِل میں اُس مولون کے لئے.."
زونیہ نے جوس پیتے علی پر طنز کیا تو وہ گڑبڑا گیا..
"کون مولون کس کی بات کر رہی ہو تم؟..."
وُہ خود حیرت میں تھا..
"وہی تمہارے گھر کے برابر والی مولون شٹل کاک برقعے والی بہت ہمدردی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں تمہارے دِل میں."
انداز اب بھی ناراضگی لیے ہوئے تھا..
"کون وُہ ظہیر انکل کی بیٹی.."
"ہاں وہی جس کو اُس دِن بھری دوپہر میں تُم نے پہلے پیسے بھی دیئے تھے پھر اُسے تیل بھی لاکر دیا تھا.."
اُس نے "بھری دوپہر" کو ذرا لمبا کھینچتے ہوئے کہا...
"اوہ اچھا وُہ یار میری غلطی کی وجہ سے اُس کا نقصان ہوا تھا اور تُمہیں اُس کے گھر کے حالات کا علم نہیں اُس کی سوتیلی ماں کو اگر تھیلی پھٹنے کا پتا چلتا تو وُہ اُسے چھوڑتی نہیں بس یہی خیال کرکے انسانیت کے ناطے میں نے اُس کی مدد کی تھی بس.."
اُس نے رسان سے جواب دیتے ہوئے اسٹرو سے جوس اندر کھینچا..
"ہممم.." وُہ کُچھ مطمئن سی ہوکر بولی..
"ویسے تُم میری جاسوسی کرتی ہو میں کب کہاں جاتا ہوں کس سے مِلتا ہوں.."
اُس نے ازراہِ مذاق کہا..
"تُمہیں میں اتنی فارغ دِکھتی ہوں وُہ تو ایسے ہی کھڑکی پر کھڑی تھی تو دیکھ لیا ورنہ تُم جو کرتے پھرو.."
اُس نے بے نیازی سے کہا...
"اچھا...!!!" اُس نے اچھا کو لمبا کھینچتے ہوئے آخر میں ہونٹ دانتوں تلے دباتے ہوئے محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھا جو ہمیشہ کی طرح نک سک سے درست اپنے حُسن اور ادا کے ساتھ اُس کے دِل میں اُترتی جارہی تھی...
"اُس دِن فون پر تُم کُچھ بتا رہے تھے..؟"
زونیہ نے پوچھا..
"کُچھ خاص نہیں وہی دانیال کی بات تھی اُس کے کسی دوست کے ابو ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتے ہیں تو وُہ اُسے کہہ رہے تھے کہ لاکھ ڈیڑھ دینے ہوں گے جاب لگ جائے گی تنخواہ بھی ڈیڑھ دو بول رہے ہیں مگر میں نے منع کردیا.."
اُس نے سادہ سے انداز میں اُسے بتایا...
"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے بھنگ تو نہیں پی ہوئی تُم نے..."
زونیہ کا دماغ علی کے بات پر بھک سے اُڑ گیا...
"تُم ہوش میں تو ہو کیا کِیا تُم نے علی اگر تمہاری یہ نوکری ہوجاتی تو میں تمہیں اپنے گھر والوں کے سامنے متعارف کروا سکتی تھی ہمارے رشتے کی بات کرتی دیکھو اگر پیسوں کا مسئلہ تو تم مجھ سے لے لو مگر کم از کم یہ جاب تو مت چھوڑو.."
زونیہ نے تیز لہجے میں کہا...
"مسئلہ پیسوں کا نہیں ہے مسئلہ میرے اصولوں کا ہے میں نے اتنی پڑھائی اس لیے نہیں کی کہ میں جاب بھی رشوت دے کر حاصل کروں اور کیا پتا کل کو کچھ ہوا اُنہوں نے مجھے نکال دیا پھر کیا ہوگا کُچھ نہیں.."
علی نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا
"دیکھو علی ایسا مت کرو ہمارے بارے میں سوچوں اگر یہ نوکری ہوجائے گی تو میں تمہیں اپنے گھر میں متعارف کروا سکوں گی کم از کم اُنہیں بتا تو سکوں گی کہ جس شخص کو میں پسند کرتی ہو کے وُہ اس قابل تو ہے کہ وہ ان کی بیٹی کو ایک اچھا لائف سٹائل دے سکتا ہے ابھی میں کیا کہوں اُنہیں کہ میں جس پسند کرتی ہوں وہ مہینے کے بعد پندرہ ہزار روپے کماتا ہے اور تمہیں لگتا ہے کہ وُہ مجھے تمہارے حوالے کریں گے کبھی بھی نہیں کریں گے پتہ بھی ہے کہ میرے مہینے کا خرچ کتنا ہے میرے مہینے کا خرچ تمہاری تنخواہ سے دس گنا زیادہ ہے..."
زونیہ نے شدید غصے کے عالم میں کہا تو اُس کی دماغ کی رگیں تن گئیں مگر وہ ضبط کرگیا...
"کم از کم تُم تو مُجھے سمجھنے کی کوشش کرو ضروری تو نہیں نا اگر راستے میں کیچڑ پڑا ہو اور اُس پر سے جانے میں اپنا آپ خراب ہونے کا خدشہ ہو تُو جلدی آگے نکلنے کے چکر میں خود پر داغ لگالیں ہم راستہ بدل کر بھی جاسکتے ہیں تھوڑا وقت ہی تو زیادہ لگے گا مگر ہم اُس داغ کی ذلت سے بچ تو جائیں گے نا اور مُجھے نوکری مِل گئی ہے.."
"کیا؟ کب ملی بتایا بھی نہیں.."
زونیہ بھی یہ بات سُن کر تھوڑا سکون میں آئی..
"کل رات ہی ای میل آئی تھی پہلی دسمبر سے جوائن کرنا ہے..."
انداز نرمی لیے ہوئے تھا...
"چلو اچھا ہے ورنہ میں نے تو اپنا سر ہی پیٹ لینا تھا تمہاری اِس حماقت پر خیر یہ بتاؤ کتنی تنخواہ ہے۔۔"
وُہ کافی حد تک اپنے غصّے پر قابو پا چُکی تھی مگر علی کی اگلی بات سُن کر وُہ اُچّھل پڑی...
"پچاس ہزار ہے ابھی فی الحال مگر آگے جا کر دو تین مہینے میں تنخواہ بڑھ جائے گی.."
علی نے اطمینان سے کہ اس کی بات سن کر وُہ حقیقتاً اُچھل ہی تو پڑی تھی...
" تمہارا دماغ خراب ہوگیا علی بالکل پچاس ہزار روپے میں تم اپنے گھر کو سنبھالو گے مُجھے سنبھالو گے کیا کیا کرو گے تُم پچاس ہزار میں.."
وُہ تقریباً چیختے ہوئے بولی..
"آرام سے بات کرو تمہارا نوکر نہیں ہوں میں نہ ہی تمہارے باپ کا کوئی ملازم جس پر تُم جب جی چاہا چیخوں گی چلاؤ گی مُجھے بلاوجہ کی بات کا بتنگڑ بنانے والی عورتیں سخت نا پسند ہیں تو اپنی اِس عادت پر قابو پاؤ..."
اُس نے آہستہ مگر تند لہجے میں تنبیہ کی...
"اور میرا گزارہ تُم جیسے دقیانوسی مرد کے ساتھ ہرگز نہیں ہو سکتا"
زونیہ کو لمحہ لگا فیصلہ کرنے میں...
"کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا...
علی خُشک لہجے میں بولا...
"مطلب صاف ہے علی میں تُم جیسے مولوی کے ساتھ گزرا نہیں کرسکتی اتنا پڑھ لکھ کر بھی تمہارا وہی حساب ہے گدھے پر کتابیں لاد دینا وہی جاہلانہ سوچ تمہاری پتھروں کے زمانے میں جی رہے ہو تُم بیوی تُمہیں تنبو میں لپٹی ہوئی چاہئے ذرا سی لچک نہیں تُم میں اور پھر یہ رشوت نہیں دوں گا او مسٹر یہ اکیسویں صدی ہے جہاں مو کرنے کے لئے ایسی چھوٹی چھوٹی بے ایمانیاں کرلینے میں کُچھ غلط نہیں ہے اتنا تو چلتا ہے..."
وُہ مسلسل اُس پر چلا رہی تھی..
"نہیں چلتا نہ اِتنا نہ اُتنا جس چیز کی اجازت ہی نہیں جو عمل اتنا قبیح ہے کہ جس کے عوض جہنم کی سزا سنائی ہے وُہ کیوں کرنا اللہ پر یقین رکھنا چاہیے.."
اُس کے لیے زونیہ بہت اہم تھی تب ہی اُس کے ساتھ اب تک نرم رویہ اختیار کیا ہوا تھا ورنہ اگر اُس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وُہ خود بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کر گزرتا...
"ویسے تو تُم بہت نیک ہو پارسا ہو اتنے ہی دین دار ہو نا تو مت ملا کرو مُجھ سے آئی ایم سو کالڈ نا محرم فار یو.."
اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں کو عجیب انداز میں اوپر نیچے کرتے ہوئے تضحیک آمیز لہجے میں کہا...
لمحے کو علی لاجواب ہوگیا تھا وُہ کنگ تھا...
"جن برائیوں سے بچا جاسکتا ہے اُن سے تو بچنے کی سعی کرنی چاہیے.."
وُہ بولا تو آواز پست تھی...
"بھاڑ میں جاؤ تُم اور تمہارے اُصول میرا گزارہ نہیں تُم جیسے اِنسان کے ساتھ اچھا ہوا کے یہ بھی ابھی پتا چل گیا اگر خُدا نخواستہ شادی ہوجاتی اور پھر پتا چلتا تو میں تو برباد ہوجاتی.."
اُس نے ٹیبل سے پرس اُٹھاتے ہوئے نخوت سے بولی...
"میری بات سمجھنے..."
اُس نے پھر سے نرم لہجہ اختیار کیا مگر وُہ کُچھ سننے کو تیار نہ تھی...
"آئندہ مجھے کال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے نا ہی کسی قسم کا رابطہ قائم کرنے کی اٹس اوور آئی ایم ڈن ودھ یو..."
زونیہ نے پانچ سو کا نوٹ پرس سے نکال کر مینو کارڈ کے اندر رکھتے ہوئے کہا وُہ آج بھی اُسے ذلیل کرکے گئی تھی...
علی بے بس سا بس اُسے جاتا دیکھتا رہا...

محبت ہوگئی آخرOnde histórias criam vida. Descubra agora