#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۲
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"یا اللہ اِن کی حفاظت فرما ابھی تک نہیں آئے رات کا ایک بج رہا ہے موبائل بھی بند آرہا ہے..."
وُہ شدید پریشانی کے عالم میں کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہے تھی...
نیچے بھی کوئی نہیں ہے دانیال بھائی بھی نمرہ کو لے کر خالہ کے گھر چلے گئے اور ابو نے بھی نہیں بتایا وُہ کہاں جارہے ہیں..."
وُہ خود سے بولی...
"علی کہاں ہے آپ کُچھ تو میرا خیال کیجئے میں کتنی پریشان ہوں..."
وُہ یوں بولی جیسی علی اُس کی بات سُن رہا ہو...
"میرا دِل بیٹھا جارہا ہے اللہ علی کی حفاظت کر..."
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا تھا مگر اُس دشمنِ جاں کی کوئی خبر نہ تھی...
"میں کس سے بولوں کہاں ڈھونڈوں اُنہیں میں..."
دو بج گئے تھے مگر اب تک اُس کا کوئی پتا نہ چلا تھا...
"دانیال بھائی کو کہتی ہوں وُہ ہی آکر دیکھیں کہ کہاں ہے یہ..."
اُس نے سوچتے کے ساتھ دانیال کو کال ملائی مگر کال نہیں اٹھائی گئی...
"کیا کروں میں کیا کروں ؟ کیسے معلوم کروں آپ کہاں ہیں علی..؟"
وُہ اب روپڑی...
نور جائے نماز بچھا کر سجدہ ریز ہوکر رو رو کر دعائیں مانگنے لگے...
"یا اللہ یہ جہاں بھی ٹھیک ہوں اِنہیں کبھی کُچھ نہ ہو میری زندگی وُہ ہیں تُو جانتا ہے یہ بات تُجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ وُہ میرے لئے کیا ہیں میں اُن کے بغیر نہیں رہ سکتی یہ تصور بھی میرے لیے اب موت ہے جب وہ میری زندگی میں نہیں آئے تھے تب بھی جی رہی تھی مگر اب مُجھے وُہ چاہیے صرف وہی میرے علی میری محبت میرے شوہر تو مُجھے مزید کسی آزمائش میں مت ڈالنا میں اب برداشت نہیں کرسکتی نہیں کرسکتی..."
روتے روتے اُس کی ہچکیاں بندھ گئی تھی اُسے پتا ہی نہیں چلا وُہ کب سجدے میں ہی سوگئی اللہ نے اُسے سکون دے دیا تھا..._________________________________________
"اُس کی نفرت اتنی شدید تھی کہ اُس نے تمہیں دودھ تک پلانے سے انکار کردیا تھا تُم نے پہلا دودھ اپنی ماں کا نہیں پیا تھا..."
سبحان صاحب سے بات ہونے کے بعد کو وُہ گھر سے نکلا تھا تو اب تین بج رہے تھے مگر اُس کا دِل نہیں تھا گھر جانے کا بے مقصد سڑکوں پر گھومتا پھر رہا تھا....
"اِس سب میں میرا کوئی قصور نہیں تھا میں نے چاہا تھا کہ آپکے ساتھ ایسا ہو میں نے نہیں چاہا تھا کہ میں دُنیا میں آؤں یہ میرے اختیار میں تو نہیں تھا امی پھر کیوں مُجھ سے اتنی نفرت کیوں..؟"
وُہ اپنی تئیں میں شفق خاتون سے مخاطب تھا جیسے وُہ اُس کی بات سُن رہی تھیں مگر جواب میں ہے ہر بار بس ایک ہی آواز گونجتی تھی...
"وُہ تُم سے کبھی محبت نہیں کر پائی یہاں تک کہ اُس نے تُمہیں مارنے تک کی کوشش کی... اگر وُہ تُم سے اِس وجہ سے نفرت کرتی ہے کہ وُہ مُجھ سے الگ نا ہوسکی تو میں تُم سے اِس وجہ سے دوگنی محبت کرتا ہوں کہ تمہاری وجہ سے وُہ میری ہوکر رہ گئی..."
"کون ہوں میں؟ ہر کسی کے لئے حسبِ ضرورت نفرت اور محبت کی وجہ کسی کو مُجھ سے بے لوث محبت نہیں ہے ہر کسی کی محبت میں مفاد پیوستہ ہے مُجھ سے محبت کے لئے سب کو وجہ کی ضرورت ہے بے غرض محبت کسی کو نہیں مُجھ سے.."
وُہ خود اذیتی کا شکار تھا مسلسل...
اپنی تئیں میں اُس نے تمہاری شادی نور سے کرواکر تُمہیں خوشیوں سے دور کردیا تھا مگر تُم پھر بھی خوش ہو اُس کے ساتھ..."
بالآخر اُسے نور کا خیال آ ہی گیا...
"وُہ پریشان ہورہی ہوگی... ہاں یقیناً وُہ ہورہی ہوگی میں کتنا پاگل ہوں اپنے غم میں تو اُسے بھول ہی گیا آج کا دن جتنا میرے لئے بھاری تھا اُس کے لیے بھی آسان نہیں تھا کال کرتا ہوں اُسّے..."
اُس نے کال کرنے کے لئے موبائل نکالا مگر وُہ بند تھا...
"بیٹری ختم نجانے کب سے بند ہے وُہ کال بھی کر رہی ہوگی اتنی رات ہوگئی ہے..."
اُس نے جلدی سے بائک اسٹارٹ کرکے گھر کے راستے پر ڈال دی پورے راستے بس وُہ یہی دُعا کرتا رہا کہ نور ٹھیک ہو کیونکہ اُس کی حساس طبیعت کا اُسے بخوبی اندازہ تھا...
"میں اتنا غیر ذمے دار کیسے ہوسکتا ہوں...."
وُہ مسلسل خود کو ملامت کر رہا تھا...
پریشانی میں اُس نے آدھے پندرہ منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کیا دو بار ایکسڈنٹ ہوتے ہوتے بچا مگر بالآخر وُہ گھر پہنچ گیا...
اُس نے تین سے چار بار ہارن دیا مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا...
"مرگئے ہیں کیا سارے..."
اُس نے بائک سے اُتر کر اپنی پینٹ کی جیبیں ٹٹولی خوش قسمتی سے مین گیٹ کی دوسری چابی اُس کے پاس تھی جو اُس نے پانچویں روزے کو ہونے والے تماشے کے بعد رکھنا شروع کی تھی...صحن میں بائک کھڑی کی تو اُس کی حیرت کی انتہا نا رہی جب دیکھا نیچے والا پورشن اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے...
"یہ سارے کہاں چلے گئے .."
ابھی وُہ سوچ ہی رہا تھا دوبارہ نور کا خیال آیا اور وُہ ایک ساتھ دو تین سیڑھیاں پھلانگتا اوپر چڑھنے لگا....
دروازے سے ہی اُسے جائے نماز پر سوتی نور دِکھ گئی علی نے سکون کا سانس لیا اور چپل باہر اُترتا دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُس کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا...
وُہ نیند میں کُچھ بڑبڑا رہی تھی اور ہلکی ہلکی سسکیاں بھی لے رہی تھی گال پر لکیریں واضح تھی وُہ سمجھ گیا کہ وُہ روتے روتے سوئی ہیں..
"علی کہاں ہیں آپ جلدی آجائیں اللہ یہ بالکل ٹھیک ہوں اِنہیں کُچھ نہیں ہو میں اِن کے بغیر نہیں رہ سکتا..."
اُس کے منہ سے نکلنے والے لفظوں نے جلتے علی کو یکدم بادِ صبا کے حصار میں لے لیا...
"میری جان..."
اُس نے بے اختیار ہی اُسے اُٹھا کر خود سے لگا لیا سختی سے نور نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں اور اُسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر رو پڑی...
"آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں کتنا ڈر گئی تھی علی اتنی رات ہوگئی تھی آپکا کُچھ پتا نہیںاُس موبائل بھی بند آرہا تھا کیسے کیسے خیال آرہے تھے مُجھے آپکو میری ذرا خیال نہیں ہے بلکل بھی نہیں ہے..."
اُس نے ہچکیوں کے درمیان کہا اُس کی پشت کو سختی سے پکڑ ہوا تھا...
"رونا بند کرو شش بس بس میں ہوں یہیں ہوں.."
علی نے نور کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے کہا...
"میں بہت ڈر گئی تھی جتنے غصے میں آپ گھر سے گئے تھے...نہیں نہیں میں سوچنا بھی نہیں چاہتی اُن باتوں کو ہرگز نہیں آپ میرے پاس ہیں اور یہ سچ ہے..."
وُہ اُسے مزید سختی سے پکڑ کر بولی آواز میں کپکپاہٹ واضح تھی...
"بس جانم بس پانی پیو دیکھو تو کیا حالت بنا لی ہے تُم نے اپنی..."
اُس نے نور کو اپنے ساتھ لگائے ہی کھڑا کیا اور بیڈ پر بٹھا دیا اور پانی گلاس اُس کے منہ سے لگا دیا...
"موبائل کی بیٹری ختم ہوگئی تھی اور مُجھے پتا ہی نہیں تھا اور جیسے ہی تمہارا خیال آیا میں بھاگا بھاگا آیا مُجھے پتا تھا تُم نے اپنی حالت بگاڑ لی ہوگی اور دیکھو وہی کیا تُم نے..."
اُس نے I ہتھیلی سے اُس کے ماتھے کا پسینہ صاف کیا...
"آپ نہیں جانتے مُجھ پر کیا گزر رہی تھی علی..."
نور نے اُس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر کہا آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں...
"میری غلطی ہے میں مانتا ہوں نورِ علی میں اپنے غصے میں بلکل ہی بھول گیا تھا کہ کوئی ہے جسے میرے ہونے یا نہ ہونے سے فرق پڑتا ہے..."
علی اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے بولا...
"آپکے ہونے یا نا ہونے سے صرف فرق نہیں پڑتا بلکہ آپکے ہونے سے میں ہوں آپکے نا...مُجھے سوچنا ہی نہیں ہے اِس بارے میں بس وعدہ کریں آئندہ ایسا نہیں کریں گے.."
"وعدہ کبھی بھی نہیں کروں گا میں اپنی اتنی پیاری بیوی کو بھلا روتے ہوئے کیسے دیکھ سکتا ہوں..."
علی نے مسکرا کر اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا...
"پھر کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمارا رشتہ ختم آپ جیسا کہیں گے میں ویسا کروں گی آپ ہیں تو سب رشتے ہیں..."
وُہ بچوں کی طرح بولی...
"میں ایک گدھا ہوں تُمہیں پتا نہیں چلا اب تک کہ جب مُجھے غصّہ آتا ہے تو میں کُچھ بھی بول دیتا ہوں تُم نے میری بات کو سیریس لے بھی کیسے لیا میں ایسا کرنا تو دور سوچ بھی نہیں سکتا ایک یہی رشتہ تو بچا ہے میرے پاس جو صرف اور صرف میرا ہے جس کا تعلق صرف مُجھ سے ہے پھر کسی اور سے میں نے تمہارا دِل دکھایا مُجھے معاف کردو..."
علی نے اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تو وُہ مسکراتی چلی گئی..
"آپ ٹھیک ہیں ناں علی...؟"
کُچھ دیر خاموشی کے بعد وُہ بولی...
"پتا نہیں...مگر تُم پاس ہو تو بہت سکون ہے.."
"ہمیشہ یہی رہنا ہے میں نے..."
نور نے اُس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا جس پر علی ہولے سے مسکرا دیا...
"مُجھے آج بھی یاد ہے نور جب میں دس سال کا تھا ناں تو ابو نے مجھے ریموٹ کنٹرول کار لا کر دی تھی میری فائیو کلاس میں فرسٹ پوزیشن آئمُ میں نے ابھی اُسے کھولی بھی نہیں تھی دانیال نے اُس کے لیے رونا شروع کردیا اور تُم نہیں جانتی میں بچپن میں کتنا ضدی تھا اپنی کوئی چیز کسی کو نہیں دیتا تھا وُہ ابو میرے لیے لائے تھے میں کیسے دے دیتا ابو نے مُجھے بہت پیار سے سمجھایا مگر میں ٹہرا پٹھان دماغ کا ایک جگہ میری سوئی کہیں اٹک گئی تو بس اٹک گئی ابو نے تو دانیال کو بھی سمجھایا کہ وُہ اُسے دوسری لا دیں گے مگر امی نے سیدھا مُجھ سے وُہ گاڑی چھین لی میں نے اُن کے ہاتھ پر کاٹ کر وُہ گاڑی واپس لی جس پر اُنہوں نے چھوٹتے ہی میرے گال پر پٹاخہ پھوڑ دیا تھا... کم از کم میں تو تھپڑ کو اُس وقت پٹاخہ پھوڑنا یا بجانا کہتا تھا..."
علی نے مزید بولنا چاہا مگر دُکھ اُس کی آواز پر بھاری ہوگیا تھا نور نے اُسے چُپ نہیں کروایا بس مزید اُس کے قریب ہوگئے اور آہستہ آہستہ اُس کے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگی...
"میں بلا کی ضدی تین تھپڑ کھانے کے بعد جس میں سے ایک ابو کا بھی تھا گاڑی ہرگز واپسی نہیں دیا اُن دونوں کو اپنے پیچھے نچوا کر رکھ دیا کبھی چھت کبھی واشروم کبھی یہ جو کونے میں باورچی خانہ بنا ہے وہاں کبھی سمنٹ کی خالی ٹنکی ہے ناں اُس پر مگر گاڑی واپس نہیں دینی تھی میں نے نہیں دی دانیال چُپ ہوگیا تھا وُہ دوسرے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا تھا مُجھے لگا سب ٹھیک ہوگیا میں واپس باہر نکل آیا مگر امی کو وُہ گاڑی دانیال کو دینی تھی اُنہوں نے میرے ہاتھ سے پھر لینی چاہی اب کی بار امی اور ابو کے بیچ جھڑپ شروع ہوگئی اور میں موقع سے فائدہ اٹھا کر لاؤنج میں کونے کی جہاں ٹی وی رکھا ہے وہاں مچان نہیں بنی ہوئی میں سیڑھیاں چڑھ کر اُس میں جاکر بیٹھ گیا بلکل چُپ چاپ دوپہر سے شام اور پھر رات ہوگئی میں نیچے نہیں اُترا ابو مسلسل امی پر چیخ رہے تھے مگر مجھے امی کی آواز میں وہ تڑپ نہیں دکھی وُہ رات تک یہیں بولتی رہیں گھر میں ہی ہوگا دروازہ بند ہے کہاں جائے گا یہی ہوگا، یہی ہوگا،یہی ہوگا..."
اُس نے خود کو رونے سے روکنے کے لیے اپنے سینے پر دھرے نور کے ہاتھ کو اپنے منہ پر رکھ لیا وُہ اُس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ محسوس کرسکتی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ علی اپنا سارا درد باہر نکال دے....
"ابو کتنی بار ہی باہر دیکھ آئے تھے یہاں تک کہ مسجد تک میں اعلان کروادیا تھا مگر کسی کا دھیان مچان کی طرف نہیں گیا... میرا ہی بھوک اور پیاس سے بُرا حال ہوا تو جہاں سیڑھیاں لگی تھیں وہاں آکر ابو کو آوازیں دینا شروع کردی وُہ بھاگے بھاگے آئے اور مُجھے نیچے اُتارا کتنی ہی دیر مُجھے خود سے چمٹائے
رکھا وُہ رو بھی رہے تھے مگر امی کی آنکھ میں ایک آنسو نہیں تھا اُنہوں نے ایک بار بھی مُجھے اپنے سینے سے نہیں لگایا اور بالآخر اگلی صبح اُنہوں نے وُہ پیک گاڑی دانیال کو دے ہی دی میں نے پھر کُچھ نہیں کہا کُچھ بھی نہیں ایک لفظ بھی نہیں ابو کو جب پتا چلا تو ا اُنہوں نے امی کو کُچھ نہیں کہا بس مُجھے دوسری گاڑی لاکر دے دی مگر میں نے وُہ توڑ دی ایک دفعہ بھی استعمال کیے بغیر توڑ دی ابو نے وجہ پوچھی میں چُپ رہا اُس دن کے بعد سے میں نے کھلونوں سے کھیلنا چھوڑ دیا گھر میں کسی سے بات نہیں کرتا اکیلے کونے میں بیٹھا رہتا پتا ہے کیوں..."کیونکہ اُس دِن میرے اندر کا بچہ مرگیا تھا.."..."
نور کا لگا اُس نے زندگی میں کبھی اتنے تلخ الفاظ نہیں سنے....
علی نے اُس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا وُہ محسوس کروانا چاہتا تھا نور کو اپنا درد وُہ آج چاہتا تھا کوئی اُس کے درد کی دوا کرے وُہ اُس کے سامنے آج اپنی ذات کے ہر پہلو کو اُس پر کھولنا چاہتا تھا اُس کی اُمیدیں صرف نور سے وابستہ تھیں اب....
"مائیں کرجاتی ہیں وُہ کہتے ہیں ناں کوئی ایک ضرور لاڈلا ہوتا ہے ماں باپ کا جیسے آپ ابو کے ویسے دانیال امی کا مگر محبت وُہ سب کرتیں ہیں آپ یہ باتیں نہیں سوچیں..."
وُہ اُسے ہرگز مزید اُداس نہیں کرنا چاہتی تھی...
"میں مان لیتا تمہاری بات بلکہ آج سے پہلے تک میں یہی مانتا آرہا تھا مگر مُجھ پر حقیقت کھل چُکی ہے مُجھے پتا چل چُکا ہے میں کتنا ان چاہا ہوں امی کے لئے...."
وُہ خلا میں تکتے ہوئے بولا...
اب کا بار خاموشی کا طویل وقفہ آیا تھا اُن دونوں کے درمیان مگر پھر علی نے اُس خاموشی کو توڑا...
"پوچھو گی نہیں کیا وجہ ہے..."
علی کی آواز میں حیرت واضح تھی...
"نہیں..."
"کیوں..."
اُس کی حیرت مزید بڑھی تھی...
"جس درد سے آپ ایک بار گزر چُکے ہیں اُس درد سے دوبارہ کیوں گزرنا علی میں آپکے زخموں کی دوا بننا چاہتی ہوں اُنہیں لادوا نہیں کرنا چاہتی..."
اُس نے مستحکم انداز میں کہا...
"مُجھے بھی اپنی ماں کا بھرم قائم رکھنا ہے..."
علی نے آہستہ سے کہا...
"سولہ سال کا تھا جب ابو کا ایکسڈنٹ ہوا تھا اُن کی نوکری چلی گئی حالات بہت خراب ہوگئے تھے میں اُن دنوں آٹھویں کلاس میں تھا ابو نہیں چاہتے تھے مگر امی کا زور تھا کہ گھر میں کُچھ نہیں کھانے کو یہ کون سا بچہ رہا ہے اب اِس عُمر میں تو لوگ نکل ہی جاتے کمانے کے لئے اور پھر ابو بھی مان گئے وُہ مُجھے ایک پرچون کی دُکان پر روز کی دو سو روپے دیہاڑی پر رکھوا آئے میں نے کسی کو نہیں بتایا کہ اُس دُکان کا مالک کتنا جاہل اور جانور تھا ایک دفع مُجھ سے تیل تولتے وقت گرگیا تھوڑا سا اُس آدمی نے مُجھے لکڑی سے مارا تھا میری پیٹھ پر نشان اب بھی ہے میں زمین پر لیٹ ہی نہیں سکتا بلکل بھی مگر میں نے گھر آکر کسی کو کُچھ نہیں بتایا نے پہلے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی بعد میں گونگا ہوگیا صرف ایک دُھن تھی سر پر پڑھنا ہے مُجھے بس بننا ہے کُچھ تاکہ سب کو جواب دے سکوں اپنے گھر والوں کو سکون دے سکوں...یہ نشان دیکھ رہی ہوں..."
علی نے اپنے اُلٹے ہاتھ کی دو انگلیوں کی طرف اِشارہ کیا جہاں کٹے ہونے کے نشان تھے کھال بھی بے ترتیب اور بے رنگ تھی...
"گھر پر امی کے پاس کام آتا تھا بچیوں کی فراک کے گھیر لگانے کا جو میں نے امی کو ایک کے بعد دوسری دفعہ کرنے نہیں دیا ہمیشہ خود کیا وُہ سیتے سیتے میری یہ اُنگلیاں مشین میں آگئی تھیں..."
علی نے رُک کر گہری سانس لی وُہ لمحات شاید اذیت سے مشروط تھے تب ہی اُس کی آنکھوں کے کنارے نم تھے نور نے بس اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں سختی سے پکڑ لیا...
"جب فرسٹ ائیر میں آیا تو ولید ماموں نے اپنے کسی دوست کی کیمیکل شاپ پر بٹھا دیا آٹھ ہزار روپے مہینے پر تُم پوچھتی تھی ناں یہ پیر پر اور ہاتھ پر چھوٹے چھوٹے زخم کیسے ہیں اور آپکو انہیلر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے..."
علی نے نور کے چہرے کے تاثرات دیکھنے چاہے اور اُسے صرف محبت دکھی...
"ہاں اور آپ نے کہا تھا ایکزیمہ ہے آپکو بچپن سے اور انہیلر والی بات کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا کبھی.."
نور نے سادگی سے جواب دیا....
"یہ نشان دُکان پر کاسٹک کی تھیلیاں بھرتے بھرتے جو فلیکس ہاتھ پر لگ جاتے تھے اُن کے ہیں پچیس کلو کی بوری ہوتی تھی جس کی آدھا کلو ایک کلو ایک پاؤ کی کئی چھوٹی تھیلیاں بنتی تھی تو فلیکس ہاتھ اور پیر پر بھی گر جاتے تھے کُچھ نشان چلے گئے کُچھ رہ گئے بلیچ اور کاسٹک بھرتے وقت جو دھواں اُٹھتا تھا اسی ہوا میں سانس لیتا تھا جس سے میرے پھیپھڑے کمزور ہوگئے تھے یہ وجہ ہے انہیلر کی اور یہ..."
علی نے اپنی شرٹ اُتاری اور پیٹھ اُس کی طرف کردی اُس کی حالت غیر ہورہی تھی...
"یہ نشان جب غلطی سے تیزاب کی بوتل میرے اوپر گر گئی تھی اللہ کا شکر چہرہ بچ گیا تھا اور یہ جب سیکنڈ ایئر میں میں نے مکینک کی شاپ پر کام کیا تھا اور انجان نکالتے وقت میرے ہاتھ سے گر گیا تھا یہ وُہ نشان ہے..."
علی نے اپنا دایاں ہاتھ اُس کے سامنے کیا جہاں ٹانکوں کے نشان اب بھی تھے...
"میں نے ہر طرح کا کام کیا میں نے کبھی یہ نہیں سوچا میں نے پڑھ لیا ہے اب میں یہ چھوٹے موٹے کام نہیں کروں گا میں نے ایک کے بعد ایک کام کیا گھر نہیں بیٹھا مُجھے اپنے بھی بھائیوں کو پڑھانا تھا خود کسی قابل بننا تھا جو میرے سامنے آیا میں نے وُہ کام لیا صرف اِس لیے کہ گھر میں امی ابو کے بیچ پیسوں کو لے کر ہونے والا کلیش ختم ہوجائے تم مُجھے بتاؤ میں کہاں غلط تھا میں کہاں غلط تھا...؟"
بالآخر وہ ضبط نہ کرسکا بے آواز ہی سہی روپڑا کون کہتا ہے مرد کو درد نہیں ہوتا وہ بھی اِنسان ہی تو ہوتا ہے...
"علی بس بس کریں مُجھ سے مزید نہیں سنا جائے گا..."
نور نے اُسکے کندھے پر اپنا سر رکھتے ہوئے کہا ایسا ہرگز نہیں تھا وُہ ان نشانوں سے نا واقف تھی بس پیچھے کی حقیقت آج معلوم ہوئی تھی...
"میں نے اپنے گھر والوں کو اپنی زندگی دے دی
اور انہیں لگتا یے میں شکست کھا گیا میرے نظریات شکست کھا گئے کیسی عجیب بات ہے ناں۔مجھے ہر طرح تنہا کرنے کے بعد اب مطمئن ہوگئے کہ علی ہار گیا....میرا ساتھ اِن لوگوں کے لئے باعثِ شرم ہے مُجھے اپنا بیٹا یا بھائی کہنے میں اِن کی عزت جاتی ہے تب کیوں نہیں جاتی تھی جب میں یہ سب کام کرکے ہر فرد کی ضرورت پوری کرتا تھا آج پڑھ لکھ گئے رشوت دے کر اچھی جاب پر لگ گئے تو اُنہیں اُن کا بھائی شرمندہ کرواتا ہے دوستوں کے سامنے... لعنت ہے پھر میری زندگی پر لعنت اتنا سب کر کے بھی میں کسی کو خود سے ہمدردی نہیں کرواسکا محبت بہت بعد کی چیز ہے..."
اُس نے سائڈ ٹیبل پر پڑا گلاس اُٹھا کر پھینک دیا وُہ نور کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ وُہ جانتا تھا وُہ نور کی ہمت ہے اور علی اُسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا...
"علی مت کریں ایسا میری خاطر مت کریں میں آپکو اِس حال میں نہیں دیکھ سکتی چُپ مت رہیں مُجھ سے بات کریں بھلے سے چیخیں چلائیں مگر چُپ نہیں رہیں..."
نور نے علی کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا اُس کے انداز سے تڑپ و پھڑک مترشح تھی...
"میں ایک ایسا بچہ ہوں جسے میری ماں اپنی کوکھ میں ہی مارنا چاہتی تھی مُجھے مارنے کے لئے وہ ڈاکٹروں کے پاس بھی گئی مُجھے مارنے کے لئے نور میں اُن کے لیے اتنا ناقابلِ برداشت تھا آج مُجھے اپنے ہونے پر غصّہ آرہا ہے کہ کیوں میں اپنی ماں کی اذیت کا باعث ہو..."
اُس نے نور کے ہاتھوں کو ہٹاتے ہوئے کہا آواز بہت بوجھل تھی...
"میری طرف دیکھیں.."
نور نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنی طرف کرنا چاہا...
"نہیں.."
"علی دیکھیں میری طرف..."
اُس نے تڑپ کر کہا..
"نہیں.." اُس کی ہچکیاں بندھنے لگی تھیں..
"علی میری جان میرا سب کُچھ میری طرف دیکھیں..."
"کوئی مُجھ سے محبت نہیں کرتا نور میری ماں مُجھ سے نفرت کرتی ہے نفرت.."
علی ضبط کھو رہا تھا اُس کی آنکھ سے ایک آنسو نور کے ہاتھ پر گرا تو اُس کی اذیت دوچند ہوگئی...
"اِدھر دیکھیں میری طرف کِس نے کہا آپ سے کوئی محبت نہیں کرتا میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں بہت بہت بہت محبت کرتی ہوں کیسے کہہ دیا آپ نے کہ آپ سے کوئی محبت نہیں کرتا میں آپکے بغیر نہیں جی سکتی علی آپ میری ابتداء ہیں آپ ہی میری انتہا ہیں زندگی کا متبادل لفظ "علی" ہے میرے لیے بہت چاہتی ہوں میں آپکو بہت..."
نور نے اُس کا چہرہ سختی سے اپنی طرف کرکے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہا...
"سچ کہہ رہی ہو نا..."
وُہ اپنی آنکھیں بے دردی سے صاف کرکے نور سے بولا...
"کیا آپکو لگتا ہے میں جھوٹ بولوں گی..."
نور نے اُلٹا سوال کیا....
"کیوں کرتی ہو مُجھ سے محبت.."
"آپ سے محبت کرنے کے لئے مُجھے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہے یہ ہے تو ہے بس..."
اُس نے دھونس جما کر کہا...
"میں سب دیکھتے ہوئے چُپ رہی ہوں میرا دل کرتا تھا آپ سنبھل جائے نہ کرے خود کو تباہ بہت تکلیف ہوتی ہے جب انسان اپنا کمفرٹ زون چھوڑ دے اور پھر واپس پلٹنا بھی چاہے تو اسکی جگہ نہ ہو.."
"روکتی مُجھے ہاتھ پکڑ کر کیوں نہیں روکا..."
علی نے رقت آمیز انداز میں کہا...
"میں آپکو خود سے بدگمان نہیں کرنا چاہتی تھی علی.."
"مگر میں ٹوٹ گیا ہوں نور میں بہت روحانی اذیت کا شکار ہوں بہت شدید میرے ہاتھ بلکل خالی ہیں کچھ نہیں باقی..."
وُہ اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سامنے کرتے ہوئے بولا...
"روحانی اذیت کیا ہوتی ہے؟.."
نور نے اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا جیسے کہنا چاہ رہی ہو یہ ہرگز خالی نہیں میں ہوں آپکے ساتھ...
"جب روح کی تکمیل ہوتے ہوتے رہ جائے
جب روح اپنے گم شدہ حصے کو پاکر بھی نہ پاسکے.."
علی نے بہت آہستہ کہا...
"کیا یہ مستقل ہوتی یا عارضی.."
وُہ نجانے کیا جاننا چاہ رہی تھی...
"مستقل ہے۔۔ بہت عرصے سے..."
"اب نہیں ہوگی یہ اذیت میں نہیں ہونے دوں گی وعدہ ہے آپ سے.."
اُس نے قطعیت سے کہتے ہوئے دوبارہ اُس کے سینے پر سر رکھ دیا...
" مجھ پر ہر رویہ ہر انسان آئینہ ہے آج محبتیں چاہتیں کچھ بھی کھرا نہیں کوئی کشش نہیں
آگہی بہت بڑی نعمت بہت بڑا عذاب ہے.."
علی نے سپاٹ لہجے میں کہا...
"بس ایک محبت کا یقین ہے کہ وُہ سچی ہے کیونکہ اُسے کسی وجہ کی ضرورت نہیں وُہ بس ہے تو ہے..."
اُس نے نور کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا...
" جب سر میں سودا سمایا ہوتا ہے ناں قافلے کیساتھ چلنے کا تو کچھ نہیں سجھائی دیتا اندھا ہو جاتا ہے انسان
قافلے والوں سے تعریف سننے کی چاہ انسان کو اسکے مقام سے گرا دیتی ہے..."
نور نے مایوسانہ انداز میں کہا...
"مطلب.." علی نے نا سمجھی سے پوچھا...
"میں بھی آپ ہی کی طرح ہوں لوگوں کی فکر اُن کا سوچنا باتیں سننا پھر بھی بھلا سوچنا پتا نہیں ہم جیسے لوگ کیوں بنائے اللہ نے..."
وُہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا علی سمجھ گیا تھا وُہ بھی کُچھ بتانا چاہتی ہے...
"میں سُن رہا ہوں نور تُم بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو..."
"آپکو کیسے پتا چلا کہ میں کُچھ..."
اُس نے تحیر انگیزی سے پوچھا۔۔۔
"تو کسے پتا ہوگا..."
اُس نے بڑے مان سے کہا...
"امی نے مُجھے کبھی اپنی بیٹی نہیں سمجھا مگر اُنہوں نے مُجھے کبھی اِنسان بھی نہیں سمجھا میں آٹھ سال کی تھے اور وُہ مُجھے گھر سے دور رکھنے کے لئے مُجھے ہمیشہ برابر والے گھر میں بھیج دیتیں تھیں میں نے اُنہیں بہت منع کیا کرتی تھی امی میں نے نہیں جانا وُہ اچھے نہیں ہیں وُہ گندی حرکتیں..."
نور نے علی کے ہاتھ کو بہت زور سے دبایا اُس کے دِل میں ہوک اُٹھ رہی تھی علی کا ذہن اُلجھا ہوا تھا....
"برابر والی آنٹی کی ایک بیٹی تھی چھوٹی وُہ مُجھے اُس سے کھیلنے کے لئے لے جاتیں تھیں مگر وہاں انکل..."
ہمت نہیں تھی اُس کے اندر پھر سے وُہ اذیت سہنے کی مگر وُہ بھی سالوں سے دفن اُس درد کو نکالنا چاہتی تھی...
" برابر والے گھر کے انکل مُجھے بہت تنگ کرتے تھے علی وُہ مُجھے بہت ڈراتے تھے میں گھر آکر امی کے ساتھ چپکی رہتی تھی گھر آکر مگر وہ سمجھ کر بھی نا سمجھی دکھاتی اُن کے لیے میں عذاب تھی وُہ بار بار باہر بھیج دیتی تھیں ابو کے جانے کے بعد میں بہت روتی تھی گھر آکر...."
نور نے علی کا ہاتھ اپنی پیشانی سے لگا کر زارو قطار روتے ہوئے کہا...
"میں نے بہت محنت کی بہت کوشش کی کہ سب مجھے تسلیم کرلیں میری انفرادیت کو مان لیں مگر ایک وقت تھا جب میں سب سے دور چلی جانا چاہتی تھی
بہت دور....
خواہشوں سے دور....
امیدوں سے دور....
آرزوؤں سے دور خود سے دورمجھے بہت تکلیف ہوتی تھی ہر وقت ہر لمحہ اذیت رہتی ہے مجھے لگتا تھا میں ہی غلط ہوں سر تا پا خود ترسی نہیں ہے۔ملامت میں مبتلا تھی
خود کو ملامت کرتی تھی سوچتی موت زندگی سے آسان ہے کیونکہ
اللہ انسانوں کی طرح ظالم نہیں مگر پھر جانا کے انفرادیت کی جگہ قبر ہے بس شاید خود سے ملاقات ہوجائے کہیں سوچتی تھی خود چلی جاؤنگی سب سے دور
میرا دل کرتا تھا میرا چہرہ جل جائےمسخ ہو جائےاللہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی سو خود کشی نہیں کی مگر اسکے پاس جانا تھا
مجھے یہ دنیا اچھی نہیں لگتی تھی مجھے سکون نہیں ملتا تھا ادھر اسلیے میں اللہ کے پاس جانا چاہتی تھی بس
زندگی سے شدید بے رغبتی ہوگئی تھی۔۔ اتنی کہ شاید آپ سوچ ہی نہیں سکتے..."
وُہ کہتی چلی گئی کہتی اور کہتی چلی گئی اُس نے محسوس ہی نہیں کیا علی چُپ تھا بالکل جب احساس ہوا تو نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا مگر علی کی نظریں جُھکی ہوئی تھیں...
"میں نے اپنی اذیت آپکے سامنے بیان کی کیونکہ مُجھے مان ہے آپ پر اور میں جانتی ہوں وُہ آپ رکھیں گے آپ مرد نہیں ہوسکتے آپ مُجھے سمجھیں گے مُجھے پھر سے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیں گے مُجھے پھر سے اپنی انفرادیت پر ملامت نہیں کروائیں گے اگر ایسا ہوا تو شاید سچ میں مر جاؤں..."
اُس نے علی سے دور ہوتے ہوئے کربناک لہجے میں کہا...
"شش اِدھر آؤ خبردار آئندہ دور جانے کی بات کی میں تمہیں کھونے کی ہمت نہیں رکھتا اب قطعی نہیں مُجھے اچھا لگا تمہارا یہ مان میری جان... اچھی بُری باتیں ہوجاتی ہیں زندگی میں تُم فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں کبھی اندھیروں میں نہیں لوٹنے دوں گا تُمہیں واپس ...."
اُس نے نور کو آہستگی سے بازو کے حصار میں لے کر کہا
علی کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ صرف وہی دکھی نہیں دنیا میں اس سے دگنے دکھی لوگ موجود ہیں....
"میں نے ایک بات اچھے سے جان لی ہے..."
علی نے اپنی کتھئ آنکھوں سے اُس کی نیلی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔۔
"نور پانے کے لیے اب کو اندھیروں کا سفر طے کرنا ہی کرنا پڑتا ہے یہ نعمت ہر کسی کو نہیں ملتی "نور" ہر کسی کو نہیں ملتا مگر مُجھے تُم مِل گئی ہو... میرے سخت کھردرے ہاتھوں میں جب تمہارے گداز ہاتھ ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندے کو ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا بالکل بھی میں جب بھی تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دیکھتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں ہاں جتنی مشکلیں بھی آئی جتنے امتحانوں سے گزرا مگر "میری زندگی کا حاصل" ہو تُم تُم نورِ علی ہو میں تمہارے بغیر کُچھ نہیں نور...."
نور کنگ سی اُسے دیکھتی رہ گئی وُہ بِلکُل بھول چُکی تھی کہ وہ تو اُس سے بدگمان تھی وُہ سمجھتی تھی کہ وہ اُس سے محبت نہیں کرتا بس یاد رہا تو "مبہم اظہارِ محبت"...(جاری ہے)
Long episodes arhi Hain to review bhi acha hona chaiye 😂😂