قسط نمبر ۲۶

1.3K 94 28
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۶
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"کہاں بھاگی جارہی ہو میڈم.."
اُس نے تیز تیز قدم اٹھاتے دروازے کی جانب بڑھتی نور کو بیچ میں ہی اُچک لیا...
"علی دیکھیں میں تو بس .."
"کیا میں تو بس؟ عجیب خر دماغ ہو، سچ میں ایسی ہی ہو یا اسپیشل ٹریننگ لی ہے بیوقوف بننے کی.."
اُس نے سختی سے اُس کا بازو دبوچ کر کہا...
"بھئی اب میں نے کیا کردیا.."
وُہ معصومیت کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈز توڑتے ہوئی بولی...
"آہا قربان جاؤں اِس معصومیت پر میں نے کیا کِیا کی بچی.."
وُہ اب بھی غصّے میں تھا...
"حشر کیا بناکر رکھا ہوا تھا تُم نے اپنا صبح سے لگی ہوگی کولہو کے بیل کی طرح ۔ میں نے ہزار بار کہا ہے تُم سے مگر تُم تو میری ہر بات اِس کان سے سنتی ہو اِس کان سے نکال دیتی ہوں۔۔۔"
وُہ باقاعدہ اپنے دائیں بائیں کان کو پکڑ کر بولا تو نور بے اختیار ہنس دی...
"تُم مُجھے مزید غصّہ دلا رہی ہو نور.."
وُہ بگڑ کر بولا۔
"آپ مُجھے ہنسا رہے ہیں.."
وُہ اپنی کھی کھی جاری رکھتے ہوئے بولی...
"ٹھیک ہے بھاڑ میں جاؤ جو کرنا ہے کرو میں کون ہوتا ہوں کُچھ بولنے والا.."
وُہ اُس کا ہاتھ جھٹک کر بولا...
"ایک تو غصّہ آپکی ناک پر دھرا رہتا ہے جب دیکھو انگارے چبا رہے ہوتے ہیں بندہ کبھی پیار سے بھی بات کرتا ہے مگر نہ جی علی کی تو شان کے ہی خلاف ہے یہ.."
وُہ مصنوئی خفگی سے بولی توقع تھی کہ اب وُہ اسے منائے گا..
"تُم کام بھی تو ایسے کرو جس سے تُم پر پیار بھی آئے آجکل تو تُم ہر وُہ کام کرتی پھر رہی ہو جس سے مُجھے طیش آئے اور یہ اداکاری مت کرو میرے سامنے تُم جاؤ اپنے سگوں کے کام کرو.."
وُہ مزید رکھائی سے کہتا ہوا الماری کی طرف بڑھ گیا...
"خبردار جو اپنا غصّہ اِن بے جان کپڑوں پر نکال کر اِن کی پریس خراب کی کمر ٹوٹ جاتی ہے میری آپکی پینٹیں شرٹیں استری کرتے کرتے..."
اُس نے علی کو فوراً پیچھے کرتے ہوئے کہا..
"ہٹو یہاں سے بہت شوق ہے ناں تُمہیں ماسی بننے کا اب میں کام دے تو رہا ہوں تُمہیں، دِن کے چوبیس گھنٹے لگی رہنا آرام سے.."
وُہ جان کر کپڑے بکھیرتے ہوئے بولا...
"علی اتنی مشکل سے سیٹ کی ہے میں نے الماری.."
وُہ روہانسی ہوکر بولی...
"نہیں جی سنڈریلا کو تو کام کرنے کا چسکا ہے اب کرے کام.."
وُہ طنز کرتے ہوئے بولا ..
"علی میں کہہ رہی ہوں رُک جائیں.."
"نہ رُکوں تو.."
وُہ چیلنج کرنے سے انداز میں بولا...
"تو یہ لیں اچھی طرح کریں ناں اِدھر اُدھر کیا کر رہے ہیں نیچے ہی گرا دیں ایک میں ہوں ناں پاگل کی بچی..."
اُس نے ایک ایک کرکے سارے تہہ شُدہ کپڑے نیچے پھینکتے ہوئے غصّے سے کہا جبکہ وہ متحیر سا کھڑا پہلی بار اُسے غصّے میں دیکھ رہا تھا...
"تُمہاری ساری اکڑ فوں میرے لئے ہی ہے کیا دوسرے کے سامنے منہ سے آواز تک نہیں نکلتی تُمہاری..."
وُہ بھی سخت لہجے میں بولا...
"ہاں ہاں میں پاگل ہوں میں نفسیاتی ہوں آپ اعلٰی آپ ٹھیک میری جان بخش دیجئے احساس ہی نہیں کسی کو میرا بندہ آکر پوچھے کیسی ہو کیا ہو نہیں انہیں تو آکر اپنی ہی روداد سنانی ہوتی ہے۔"
وُہ پیر پٹختی ہوئی کمرے سے واک آؤٹ کرگئی...
"پاگل ہے یہ بالکل بس مُجھے ہی بولے گی، مُجھ سے ہی لڑے گی باہر گھگھی بندھ جاتی اِس کی..."
وُہ تاسف سے بولا....

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now