قسط نمبر ۳۸

1.4K 79 21
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۸
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"کیا ہر وقت تُم اِدھر اُدھر لگی رہتی ہو ایک کمرہ ہے صرف اُس میں کیا کیا کام کرو گی تُم.."
علی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ بٹھا لیا...
"پریشان ہو نور.."
اُس نے نور کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا...
"نہیں میں کیوں پریشان ہوں گی..؟"
اُس نے نظریں چُرائیں...
"تمہاری آنکھیں میں پڑھ سکتا ہوں نورِ علی یہ جھوٹ نہیں کہتیں مُجھ سے اب بتاؤ کیا بات ہے.."
اُس نے نور کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا...
"علی کُچھ نہیں ہوا.."
"نور بتاؤ مُجھے.."
اُس نے نور کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بہت ملائمت سے پوچھا...
"کُچھ بھی نہیں ہوا.."
"تُم کیوں اتنی ضدی ہو جبکہ تُم جانتی ہو کہ میں بات جانے بغیر تُمہیں چھوڑوں گا نہیں.."
علی نے جھنجھلا کر کہا...
"تیل ختم ہوگیا ہے اور جو تھوڑا آٹا بچا تھا اُس میں کیڑے پڑ گئے ہیں ابھی میں نے چھاننے کے لئے نکالا تو دیکھا صرف چاول رہتے ہیں جو آج بنادیئے ہیں میں نے مگر آپ پریشان نہیں ہو کُچھ نہ کُچھ ہوجائے گا ..."
نور نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں کہا...
"اِسے کہتے ہیں غریبی میں آٹا گیلا.."
علی نے طنزیہ انداز میں خود سے کہا...
"سب ٹھیک ہوجائے گا علی یہ وقت بھی گزر جائے گا ویسے بھی آپ نے جو آج پیسے دیے ہیں ڈیڑھ سو روپے اُس سے ایک کلو آٹا اور پاؤ تیل تو آرام سے آجائے گا دالیں کُچھ رکھی ہوئی ہیں تھوڑی..."
علی خاموش رہا...
"علی میں اِسی لیے نہیں بتا رہی تھی آپکو دیکھیں آپ پریشان ہوگئے پہلے ہی اتنے تھکے ہوئے آئے ہیں آپ.."
اُس نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے متاسفانہ انداز میں کہا...
"تُمہیں اِس حالت میں بھرپور غذا کی ضرورت ہے مگر میں تو تُمہیں دو وقت کی روٹی تک نہیں دے پا رہا نور لعنت ہے مُجھ پر..."
"بس بکواس نہیں کریں آپ سمجھ آئی بہت فضول بولتے ہیں بلکل چُپ.."
اُس نے علی کی ڈانٹ کر رکھ دیا...
"مُجھے چُپ کروانے سے سچ تو نہیں بدل جائے  نور..."
اُس نے رقت آمیز انداز میں کہا...
"علی مت کریں ایسی باتیں مُجھے آپ پر یقین ہے اور آپ سے زیادہ اللہ پر وُہ سب ٹھیک کرے گا.."
اُس نے علی کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا..
"کہاں جارہی ہو..؟"
"کھانا لے کر آرہی ہوں آپ کو بھوک لگ رہی ہوگی.."
"نہیں لگ رہی تُم میرے پاس ہی بیٹھی رہو بس.."
علی نے اپنے بانہیں وا کرتے ہوئے کہا...
"علی میں آپکے پاس ہی ہوں مگر کھانا..."
"کھا لوں گا بعد میں ابھی میرے پاس آؤ.."
علی نے اصرار کیا...
"آپ سے کبھی جیت نہیں سکتی بہت ضدی ہیں آپ..."
نور نے اُس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا علی نے اُسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا..
"تو مت ضد کیا کرو جب تُمہیں پتا ہے میرے آگے تمہارے نہیں چلنی..."
علی نے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا..
"مگر مُجھے اچھا لگتا ہے آپکا مُجھ پر رعب جمانا حق جتانا بہت اچھا لگتا ہے مُجھے احساس ہوتا ہے کہ میں آپکے لیے اہمیت رکھتی ہوں.."
نور نے اُس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا...
"تُم صرف میرے لیے اہمیت نہیں رکھتیں تُم میرا سب کُچھ ہو میری ہر نیکی، میرے ہر اچھے عمل، میری ہر اچھی بات بلکہ میرے زندگی کا حاصل ہو تُم جانِ علی.."
علی نے اُسے مزید شدت سے خود سے بھینچ لیا اندر سکون اُترتا محسوس ہورہا تھا وُہ اپنی کیفیت سے قطعی انجان نہ تھا وُہ بہر طور سمجھ چُکا تھا نور اُس کے لیے کیا ہے اور گزرے کُچھ دنوں نے یہ بات اُس پر بلکل واضح کردی تھی کہ اصل محبت ہوتی کیا ہے؟...
وُہ محبت جو نکاح کے بعد اُس کے دِل میں اپنی شریکِ حیات کے لئے پیدا ہوئی وُہ محبت جو نور اُس سے کرتی ہے اُس نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا مگر وُہ نور کی آنکھیں پڑھ سکتا تھا جس میں یہ بات صاف تھی کہ وُہ اُس سے محبت کرتی ہے اور صرف محبت نہیں وُہ عشق کی حد تک اُس سے محبت کرتی ہے اُس کے لیے صرف اُس کا علی سب کُچھ ہے...
وُہ محبت جو وُہ نور سے کرتا ہے اُس کی ہر تکلیف کو محسوس کرتا ہے اُس کا ساتھ چاہتا ہے صرف فرض نبھانے کے لئے نہیں وُہ دِل سے اُس کی قُربت کا خواں ہے وُہ صرف اُسی کو چاہتا ہے...وُہ پاس ہے تو سکون ہے وُہ دور ہے تو بے سکونی نہیں جانتا تھا وُہ کہ اِس قدر بھی اُسے محبت ہوگی کسی سے جس قدر وُہ نور سے کرنے لگا تھا مگر اُسے بالکل حیرانی نہیں تھی کہ کیسے وُہ اُس کے دِل میں گھر کر گئی اُسے ذرا حیرانی نہ تھی کیونکہ اِس بات کا اعتراف تو اُسے شروع سے تھا کہ وہ چاہے جانے کے ہی لائق ہے صرف بے پناہ چاہے جانے کے مگر   اُس نے ہرگز بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بے پناہ چاہے گا بھی اُسے وُہ خود ہی "ایک دِن.."
"آپکا دِل کتنی شدت سے دھڑک رہا ہے علی.."
نور نے اُس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں جھانکا...
خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا تھا اُن دونوں کے درمیان  دونوں میں سے کسی نے کُچھ نہیں کہا بس ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے...
"جب موم کو حرارت ملتی ہے تو وُہ پگھلتا ہے ، جب برف کو حرارت ملتی ہے تو وُہ بھی پگھلتی ہے.. جب چاند کو سورج کی روشنی ملتی ہے تو وُہ چمکتا ہے اِسی طرح جب میرے دِل کو تمہارے قرب کی حرارت ملتی ہے تو یہ دھڑکتا ہے پوری شدت سے اور ایک ایک دھڑکن صرف ایک ہی بات کا اعتراف کرتی ہے کہ....."
اِس سے آگے وُہ کُچھ کہتا مگر اُس کا موبائل بجنے لگا... محویت لمحے میں ٹوٹی نور نے اپنی نظریں جھکالیں...
اُس نے انجان نمبر دیکھ کر کال اُٹھالی...
"میں آپکے لیے کھانا لے آتی ہوں جب تک.."
اُس نے اپنے سُرخ پڑتے چہرے کو نیچے کیے کہا...
علی نے آنکھ کے اشارے سے اُسے اجازت دے دی...
"ہیلو کون...؟"
"تُم واقعی بہت بے مروت ہوگئے ہو علی اور کتنی سزا دو گے تُم مُجھے کتنی کالز کرچکی ہوں تُمہیں..."
دوسری طرف سے زونیہ کی آواز نے اُسے سخت کوفت سے دوچار کیا...
"تُم چاہتی کیا ہو میں تُمہیں بول چُکا ہوں میرا تُم سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کیوں پریشان کر رہی ہو تُم مُجھے پھر نئے نمبر سے کال.."
علی نے غصّے سے کہا...
"علی اتنی بیگانگی مت دکھاؤ کیا واقعی تُم نے مُجھ سے کبھی محبت نہیں کی؟؟ خود سے پوچھنا یہ سوال.."
اُس کا کروفر اب بھی ویسا تھا وُہ ذرا نہیں بدلی تھی...
"تُم چاہتی کیا ہو اب زونیہ..؟"
اُس نے صاف بات کی..
"تُم سے ملنا چاہتی ہوں بس ایک بار.."
"مگر میں نہیں چاہتا تُم سے ملنا تُمہیں اتنی آسان بات کیوں نہیں سمجھ آتی..؟"
وُہ بہت آہستہ بات کر رہا تھا مبادا نور نہ سُن لے...
" جب میرے دِل کو تمہارے قرب کی حرارت ملتی ہے تو یہ دھڑکتا ہے پوری شدت سے اور ایک ایک دھڑکن صرف ایک ہی بات کا اعتراف کرتی ہے...کیا وُہ مُجھ سے محبت کرتے ہیں..؟"
علی کی باتیں یاد کرتے ہوئے اُس نے خود سے سوال کیا...
"ہاں اُن کی آنکھیں سب کہتیں ہیں اُن میں صرف میں ہوں وُہ مُجھے نورِ علی، نورِ حیات، جانِ علی،جانم کہتے ہیں یقیناً وُہ مُجھ سے محبت کرتے ہیں.."
اس نے خوش ہوکر سوچا اور ٹرے اُٹھا کر کچن سے باہر جانے لگی..
"تُم اُس گنوار سے ڈرتے ہو کیا.."
"بکواس بند کرو اپنی ٹھیک ہے میں تُم سے کل ملوں گا زونیہ ابھی فون بند کرو..."
اُس نے جلد از جلد اُس موذی سے جان چھڑانی چاہی..
"زونیہ..."
دروازے سے اندر داخل ہوتی نور یہ نام سن کر وہی رُک گئی اُس نے صرف ملنے والی بات سنی تھی...
"کیا انہوں نے زونیہ کہا..؟ ہاں زونیہ ہی کہا مگر وُہ اُس سے کیوں ملیں گے..؟"
اُس کا دِل یکدم ہر چیز سے اُچاٹ ہوگیا...
"تُم کتنی پاگل ہو نور محبت کے چند لفظ صرف چند لفظ سُن کر بھول بیٹھتی ہو کہ جس شخص سے تُم محبت کی توقع رکھ رہی ہو وُہ پہلے ہی کسی اور سے محبت کرچکا ہے اور مرد اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھولتا..."
اُس نے بہت سے آنسو اندر اُتارے اور چہرے پر مسکان سجائے اندر داخل ہوگئی...
"آگئی تُم.."
علی نے مسکرا کر کہا اور موبائل سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا...
"کس کا فون تھا.."
اُس نے سادہ انداز میں پوچھا...
"کُچھ خاص نہیں برانچ سے کال تھی کل ایک بجے بُلایا ہے..."
اُس نے جھوٹ بولا...
"کیوں ایک بجے کیوں..؟"
نور کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی...
"پتا نہیں..."
اُسے کوئی بہانہ نہ سوجھا...
"میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں..."
علی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"مت کریں ایسا علی میں یہ صدمہ ہرگز نہیں برداشت کرسکتی مت کریں ایسا..."
اُس نے علی کے جانے کے بعد خود سے کہا آنسو گال پر لکیریں بنا چُکے تھے...
اُس نے جلدی سے  علی کا فون اُٹھایا اور چیک کرنے لگی آخری کال جس نمبر سے آئی ہوئی تھی وُہ غیر محفوظ تھا....
"تیرہ کالز...میرے خدایا.."
اُس نے خود کو بمشکل چیخنے سے روکا...
ابھی وُہ میسج فولڈر میں جانے ہی لگی تھی باتھ روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی اُس نے جلدی سے فون واپس سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور نارمل ہوکر بیٹھ گئی...
"میں آپکا ٹراؤزر اور ٹی شرٹ نکال دیتی ہوں.."
اُس نے علی کی طرف دیکھے بغیر کہا..
"کھانا تو کھالو..."
"نہیں مُجھے بھوک نہیں ہے میں نے بناتے وقت کھا لیا تھا تھوڑا.."
اُس نے جھوٹ کہا...
"تُم مُجھ سے مذاق کر رہی ہو یقیناً ایسا ہو ہی نہیں سکتا تُم میرے بغیر کھا لو آہاں ناممکن چلو شاباش کوئی بہانہ نہیں چکے گا تمہارا..."
علی نے محبت سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھنے سے روکا...
"مُجھے نہیں بھوک ہے پلیز زبردستی مت کریں علی..."
"میں نے کہا ناں تمہارا کوئی بہانہ نہیں چلے گا چلو شاباش میرے ہاتھ سے کھا لو..."
علی نے چاول کا چمچ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...
"مُجھے نہیں کھانا آپ کو اتنی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی ہر بات میں ضد ہر بات میں اپنی مرضی میری اپنی بھی کوئی مرضی ہے یا نہیں یا آپکے لیے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی کہ میری کوئی بات مان لیں..."
وُہ اُس کا ہاتھ بُری طرح جھٹک کر چلائی...
وُہ متحیر سا اُسے دیکھتا رہ گیا...
"اے...نور کیا ہے میری جان..."
اُس نے نور کا رویہ قطعی نظرانداز کرتے ہوئے فکرمندی اور محبت سے پوچھا...
"علی کُچھ نہیں ہوا ہے بس وُہ سردرد ہورہاہے تھوڑا اِس وجہ سے سوری..."
نور کو اپنے رویے کی بدصورتی کا احساس ہوا تو نادم ہوکر بولی...
"صرف یہی بات ہے ناں نورِ علی..."
اُس نے نور کے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے پوچھا...
"جی یہی بات ہے اور کیا بات ہوگی..؟"
اُس نے سوالیہ انداز میں پوچھا...
"ٹھیک ہے تُم آرام کرو اور مت ٹینشن لیا کرو اتنی تمہیں اب اپنے ساتھ ساتھ ہمارے بچے کا بھی خیال رکھنا ہے...."
اُس نے نور کا گال تھپتھپا کر کہا جس پر وُہ بے دلی سے مسکرا دی...
"میری جان... آہ کتنے منافق ہیں آپ کے کتن منافق میں کیسے آپ کی جان ہوسکتی ہوں آپکی جان اور آپکی محبت تو وُہ ہے جس سے آپ چُھپ چُھپ کر ملتے ہیں..."
اُس نے نخوت سے سوچا  اندر تک کڑواہٹ پھیل گئی تھی...
کھانا کھانے کے بعد کپڑے بدل کر علی اُس کے برابر میں آکر لیٹ گیا...
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ..."
نور نے علی کے ہاتھ پکڑ کر کہا...
"سر دبا رہا ہوں تمہارا.."
اُس نے نور کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا اور آہستہ آہستہ اُس کا سر دبانے لگا...
"نہیں ٹھیک ہے پلیز آپ مت کریں.."
"کیوں نہ کروں.."
اُس نے اُلٹا سوال کیا...
"پھر وہی ضد..."
"ہاں جو کہہ لو.."
علی نے بے نیازی سے کہا تو وُہ خاموش ہوگئی...
علی نے اُس کا سر اپنے سینے پر رکھ دیا...
"سب کتنا پُر سکون ہے ناں نور کہنے کو تو زندگی کے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں ہم مگر مُجھے لگتا ہے یہ آنا بھی ضروری تھی کُچھ باتیں آپ پر آئینہ ہوجاتی ہیں جیسے کہ مُجھ پر ہوئی ہیں.."
نور نے پھر محسوس کیا علی کے دِل کی دھڑکنیں بہت شدت پسند ہوچکی تھیں...
"میں نہیں جانتا کیسے ،کب اور کیوں مگر تُم میرے لئے بہت خاص ہوگئی ہو نور بہت بہت خاص..."
اُس نے نور کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنی شروع کردی...
"کیونکہ میں تُم سے..."
اُس نے محسوس کیا نور سوچُکی ہے...
"سوگئی ہو.."
جواب ندارد تھا...
وُہ کُچھ دیر اُس کے چہرے کو یونہی دیکھتا رہا بلاشبہ وُہ سوتے ہوئے بہت خوبصورت لگتی تھی بلکل پریوں جیسی...
"میری نور.." کہیں اندر سے آواز آئی سکون سرائیت کر رہا تھا رگ و پے میں مُسلسل...
اُس نے بہت نرمی سے اُسے تکیے پر لٹایا بکھرے بالوں کو سنوارا اور پھر یونہی دیکھتا رہا...
"میری محبت بڑھتی جارہی ہے تُم پر پڑتی ہر نظر کے ساتھ میں کیا کروں؟.."
اُس نے بیچارگی سے سوچا...
"صرف میری نور.."
شدت پسند صرف اُس کا دِل ہی نہیں ہوا تھا اُسے یہ بات بھی معلوم ہوئی اُس وقت بے اختیاری میں جُھک کر اُس کی پیشانی کا بوسہ لے لیا...
"شب بخیر میری جان..."
علی نے محبت سے چور لہجے میں کہا اور دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا..
"میں تو آپکے اِس دکھاوے  سے خوش بھی نہیں ہوسکتی کاش میں نہ سنتی آپکی بات کم از کم آپکی چاہت کے فریب میں بہل تو جاتی...."
اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں آنسو بہہ کر نجانے کب تکیے میں جذب ہوگیا تھا.....
"میری زندگی میں کوئی خوشی مکمل کیوں نہیں ہے..."
وُہ مُسلسل رو رہی تھی..
"اِدھر اُدھر بٹا ہوا مرد مُجھے مِلا ہے جو نا مکمل مُجھے چاہ سکتا ہے نا اپنی پہلی محبت کو بھول سکتا ہے ایسی تو خواہش نہیں تھی میری..."
"تُم تو بڑے دعوے کرتی تھی کہ اپنا شوہر بانٹ بھی لوگی مگر تُم تو وہی عام عورت ہو..."
اندر کہیں کوئی ہنسا تھا اُس پر...
"ہاں میں عام عورت ہو جو میرا ہے وُہ صرف میرا ہے علی صرف میرے ہیں صرف اور صرف میرے اور کسی کے نہیں ہرگز نہیں..."
اُس نے چیخ چیخ کر کہنا چاہا....
ایک نظر اُس پر ڈالی وُہ سوچکا تھا دھیمے دھیمے قدم اٹھا کر وُہ اُس کی طرف آئی اور موبائل اُٹھایا اُس کا اور کمرے سے نکل جانا چاہا مگر نظریں اُس کے پُر سکون چہرے کو جا ٹھہری تھیں..
"آپ صرف میرے ہیں علی صرف میرے..."
اُس نے علی کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے قطعیت سے کہا اور کمرے سے باہر نکل کر چھت پر آگئی...
اُس نے فوراً میسج فولڈر کھولا اُسی نمبر سے تقریباً بارہ میسج آئے ہوئے تھے جو کُچھ یوں تھے...
"میں جانتی ہوں تُم صرف مُجھ سے محبت کرتے ہو میرے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تُم میں بھی تُم سے بہت محبت کرتی ہوں مُجھے اپنی غلطی کا احساس ہے علی..."
نور کا دِل کیا یا تو خود مرجائے یا زونیہ کو جاکر قتل کردے...
اُس نے مزید میسج دیکھے...
"تُم نے اُس گنوار جاہل سے شادی صرف میری وجہ سے کی ہے  کیونکہ میں ہی تُمہیں کہتی تھیں ناں کہ وُہ تمہارے لائق ہے اور تُم نے میری ہی بات مان کر اُس گنوار سے شادی کی مگر وُہ تمہارے لائق نہیں ہے تُم نے میری وجہ سے خود کو تکلیف دی میں جانتی ہوں کہ تُم اُس کے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ سکتے..."
اُس نے اپنے منہ پر جبراً ہاتھ رکھ کر نکلنے والی سسکی کا گلا گھونٹا وُہ رونا چاہتی تھی چیخ چیخ کر...
"اتنے تضحیک آمیز الفاظ کے بعد صرف ایک جواب آپکا کہ کل ملوں گا  تُم سے میں مرجاؤں اِس سے اچھا علی مرجاؤں میں..."
اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اپنے منہ و رکھ دیا اور فرش پر بیٹھتی چلی گئی....
"میں آپکے کبھی لائق نہیں تھی مُجھ سے ہمدردی کی آپ نے صرف ہمدردی..."
درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ پکے فرش کو اپنے ناخنوں سے کُھرچنے لگی ایک ہاتھ مسلسل اُس کے منہ پر تھا تکلیف حد سے سوا تھی...
"میری زندگی میں کوئی خوشی نہیں میں مرجاؤں اِس سے اچھا کسی کو مُجھ سے محبت نہیں ہے میں ہمیشہ سے ان چاہی رہی ہوں ہمیشہ سے..."
اُس نے خود کو سنبھالنا چاہا مگر ناکام رہی کھڑی تو ہوگئی مگر لرزش واضح تھی چال میں اگر بروقت علی نے اُسے سنبھالا نہیں ہوتا تو وُہ گرچکی ہوتی...
"سنبھالو خود کو کیا ہوگیا ہے نور..."
اُس نے نور کی لال آنکھیں دیکھ کر تڑپ کر پوچھا...
"کُچھ نہیں امی ابو کی یاد آرہی تھی تو  آنکھیں بھر آئیں نادیہ آپی سے بات کرنا چاہتی تھی مگر پھر خیال آیا وُہ بھی سوگئی ہوں گی تو واپسی آ ہی رہی تھی کہ تھوڑے چکر آ گئے شاید.."
اُس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی فی الفور کوشش کی...
"تُم بہت سوچتی ہو نور  اتنا  مت سوچا کرو..."
اُس نے نور کو اپنے سینے سے لگاکر تسلی دینی چاہی...
"ہاں سچ میں بہت سوچتی ہوں.."
اُس نے علی کو مضبوطی سے پکڑ کر کہا...
"آپ کیسے یہاں..."
اُس نے متانت سے پوچھا...
"ایسے ہی آنکھ کھلی تو دیکھا تُم نہیں ہو تو دیکھتے ہوئے آگیا اب چلو چل کر سو جاؤ سب فکریں چھوڑ دو اپنی میں ہوں تمہارے پاس ٹھیک ہے.."
اُس نے نور کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ملائمت سے کہا...
"ہاں آپ ہیں ناں میرے پاس صرف میرے.."
اُس نے علی سے الگ ہوکر کہا..
"ہاں صرف تمہارا.."
اُس نے نور کے بدلے رویے کو اُس کی اُداسی سمجھ کر نظرانداز کیا اور کندھے سے لگائے کمرے کی جانب بڑھنے لگا...

(جاری ہے)

نوٹ: اگلی قسط کل رات آٹھ بجے آئے گی اِس قسط پر پورا رسپانس ملا تو ایک بجے بھی آسکتی ہے اور رسپانس سے مطلب اسٹوری سے متعلق کمنٹس نائس نیکسٹ مت چپکانا...

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now