قسط نمبر ۱۰
"نور آج سے میرے کمرے سوۓ گی اور گھر کا وُہ کوئی کام نہیں کرے گی.."
اُس نے لاؤنج میں بیٹھی صبا اور عافیہ کے سامنے قطعیت سے کہا..
"ایسے کیسے نہیں کرے گی مفت کی روٹیاں تھوڑی توڑنے دوں گی اُس منحوس کو میں.."
اُنہوں نے نخوت سے کہا..
"امی آپ اِنسان ہی ہیں یا پھر.... اُس لڑکی کی پسلی کی ہڈی توڑ دی آپ دونوں نے اُس کا پورا جسم زخمی ہے یار وُہ بھی اِنسان ہے اور کسی کی نہیں آپکے شوہر کی ہی بیٹی ہے اُس کی ماں نہیں ہے تو آپ نے اُسے جانور سے بدتر سمجھ لیا ہے مُجھے شرم آتی ہے آج یہ کہتے ہوئے کہ میں آپ کی بیٹی ہوں..."
دِل گیر انداز میں کہا گیا...
"ہاں اب اُس آوارہ لڑکی کے لئے اپنی ماں کے سامنے زبان لڑائے گی تو بس یہی تو دیکھنا رہ گیا تھا.."
اُن کا واویلا شروع ہوچکا تھا...
"آپ سے نا بات کرنا ہی فضول ہے امی بِلکُل فضول اور میں دوبارہ کہہ رہی ہوں آئندہ اگر کسی نے بھی نور پر ہاتھ اُٹھایا تو میں خود پولیس کو بلاؤں گی اور اِسے دھمکی مت سمجھیے گا صرف بلکہ میں ایسا کرکے دکھاؤں گی..."
وُہ وارن کرنے والے انداز میں کہہ کر چلی گئی...
"امی اِس لڑکی کو جلد سے جلد ٹھکانے لگاؤ ورنہ جتنی ہمدردی اِس نادیہ کے دِل میں اِس کے لئے پھوٹ رہی ہے نا یہ ٹھیک نہیں ہے.."
"ٹھیک کہہ رہی ہے تُو اب اِس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا..."
وُہ پُر سوچ انداز میں بولیں..._________________________________________________
"آئیں بیٹھیں ..."
ثمینہ نے اپنے کشادہ ڈرائنگ روم کا سلائڈ دوڑ کھولتے ہوئے نرمی سے کہا...
کریم کلر کا صاف اور چمکتا فرش اور کمرے کے وسط میں چوکور شکل میں نصب ہلکے بھورے ٹائلز کتھٔی اور سفید رنگ کے خوبصورت صوفوں، قیمتی شوپیسس فینسی چھت سے بیچ میں لٹکتے قیمتی فانوس اور اللہ کے نام کی خوبصورت دیوار گیر کیلیگرافی پینٹنگز سے سجا وُہ کمرہ پہلی ہے نظر میں اُنہیں خفت اور احساسِ محرومی کا شکار کرگیا تھا وُہ تزئین و آرائش دیکھ کر کُچھ دیر کے لئے بھول ہی گئیں تھیں کہ وہ یہاں کیا بات کرنے آئی تھیں...
"آپ ابھی تک کھڑی کیوں ہے بیٹھئے نا پلیز.."
ثمینہ نے ہنوز اُنہیں یوں ہی کھڑا دیکھ کر کہا...
"بہت خوبصورت سیٹ کیا ہے آپ نے ڈرائنگ روم.."
وُہ صدق دل سے بولیں..
"کہاں یہ ڈیزائن تو مُجھے بِلکُل نہیں پسند زونیہ اور احسن کی شادی سے پہلے پورے گھر کا انٹیریئر چینج کرنا ہے..."
وُہ ناز بازی سے بولیں...
"لیجئے ناشتہ بھی آگیا.."
اُنہوں نے دروازے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے ملازمہ ٹرالی گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہورہی تھی..
"اِس تکلف کی کیا ضرورت تھی.."
وُہ شرمندگی سے بولیں..
"کوئی بات نہیں پڑوسی ہیں آپ ہماری اور ہمارے گھر آئی ہیں مہمان نوازی تو کریں گے نا.."
مسکرا کر کہا گیا..
کُچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد شفق خاتون اصل بات پر آئیں...
"دراصل میں اپنے بیٹے کے لئے آپکی بیٹی زونیہ کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں مُجھے علی نے ہی بھیجا ہے یہاں بس..."
وُہ کہتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔۔
"کیا...؟"
دوسری طرف سے ثمینہ کی آواز خاصی نرم تھی تو اُنہیں ہوصلہ ہوا...
"دیکھیں بہن بہت اچھی بات ہے آپ میرے گھر آئیں آپکی میری بیٹی پسند ہے اور آپکا بیٹا بھی ماشاللہ بہت اچھا ہے مگر بات یہ ہے کہ زونیہ کی بات تو ہم نے ایک سال پہلے ہی طے کردی تھی اور اگلے ہفتے اُس کا نکاح بھی ہے.."
اُنہوں نے نہایت تحمل سے جواب دیا..
شفق خاتون کو جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا تھا بالآخر اُن کے بیٹے کا دِل ٹوٹنے والا تھا..
"مگر زونیہ اور علی تو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور علی نے مُجھے کہا تھا کہ اُسے زونیہ نے ہی کہا ہے کے وُہ اپنے گھر والوں کو بھیجے اُس کے گھر.."
اُنہوں نے اپنی خفت پر قابو پاتے ہوئے کہا...
"حیرت ہے زونیہ نے آج تک مُجھ سے علی کا کوئی ذکر ہی نہیں کِیا اور مُجھے تو آج پتا چل رہا ہے کہ وُہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں..."
وُہ تعجب سے بولیں...
"میں پہلے ہی سمجھاتی تھی اِس لڑکے کو۔۔۔"
وُہ بڑبڑائی...
"میں زونیہ کو بلا کر پوچھ لیتی ہوں شاید وہ مُجھ سے کہنے میں ہچکچا رہی ہو..."
وُہ کافی فہم و فراست والی خاتون تھیں اور اپنی اولاد کو تو ہر کوئی جانتا ہے...
کُچھ ہی دیر بعد مضطرب سی زونیہ اُن کے سامنے کھڑی تھی۔۔
"بیٹا یہ علی کی امی ہیں ان کا کہنا ہے آپ اور علی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو اور آپ کے ہی کہنے پر علی نے اِنہیں یہاں بھیجا ہے..."
وُہ بڑی گہری نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں...
زونیہ شدید اُلجھن کا شکار تھی وُہ سمجھی تھی علی نے صرف اُسے دھمکی دی تھی مگر اب اُسے اِس سچویشن سے بچنا تھا اُس نے خود کو بولنے کے لئے تیار کیا..
"علی وہی جو شاید میری یونیورسٹی والا جو ہمارے ہی محلے میں رہتا ہے..؟
وُہ یکسر انجان بن کر بولی شفق خاتون کو حیرت کا جھٹکا لگا...
"امی میں تو اُسے جانتی تک نہیں ہوں ہاں البتہ معذرت کے ساتھ آنٹی آپکا بیٹا مجھے گلے میں آتے جاتے تنگ کرتا ہے اور پتا نہیں کہاں سے اُس کے پاس میرا نمبر آگیا تو مجھے میسجز کالز کرتا رہتا ہے میں تو اُس سے تنگ ہوں اپنے امی ابو کو اِس لیے نہیں بتایا کیونکہ مُجھے لگتا تھا میں اکیلے ہینڈل کرلوں گی بہت بار اُس نے مُجھ سے پیسے بھی مانگے یہ کہہ کر وُہ میرے گھر آکر میرے ابو اور بھائی سے جھوٹ کہے گا کہ ہم دونوں کے بیچ کوئی رشتہ ہے اور میں نے صرف اِس ڈر سے اُسے پیسے بھی دیئے اور یہ دیکھیں اُس کا رات کو بھی میسج آیا تھا.."
وہ کہہ کر جلدی جلدی موبائل میں سے اُس کے بقیہ میسج ڈیلیٹ کرکے ایک میسج کو چھوڑا اور اُن کے سامنے کیا جو یوں تھا...
"کل میری امی آئیں گی تمہارے گھر اور تُم نے ہاں کرنی ہے ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا زونی..."
شفقق خاتون کی نظریں نہیں اُٹھ رہی تھیں اِس لیے نہیں کہ اُنہیں علی پر شک تھا بلکہ اِس لیے وُہ اپنی اتنی بے عزتی برداشت نہیں کر پارہی تھیں...
"دیکھیے بہن شکر کریں زونیہ کے والد اور بھائی گھر پر نہیں ہے ورنہ کیا ہوتا میں خود نہیں جانتی اور کم از کم آپکو تو کُچھ سوچ کے آنا چاہیے تھا کہاں آپ اور کہاں ہم بھلا کوئی جوڑ ہے اور ہم اپنی بیٹی کیوں دیں گے آپکے آوارہ بیٹے کو اور آپ اُسے سمجھائے گا کہ یہ حرکتیں چھوڑ دے ورنہ مجبوراً مجھے عرفان کو سب بتانا ہوگا جو آپکے بیٹے کے لئے بلکل اچھا نہیں ہوگا.."
اُن کا شائستہ لہجہ یوں غائب ہوا جیسے تھا ہے نہیں اب اُن کے انداز میں صرف حقارت تھی..
"میں علی جیسے لڑکے کو پسند بھی کیوں کروں گی ایک تو وُہ انتہا کا بدمعاش اور پھر اُس میں ہے ہی کیا وُہ جتنا مہینے میں کماتا ہے اُتنا میں ایک وقت میں شاپنگ میں اُڑا دیتی ہوں چیپ مڈل کلاس بوائے..."
وُہ حقارت کی نظر سے شفق خاتون کو دیکھ کر بولیں...
وُہ زمین میں گڑھی جارہی تھیں...
"اب آپ جاسکتی ہیں اور امی آپ کوئی بھی ایرا غیرا گھر میں آکر آپکی بیٹی کے بارے میں کُچھ بھی کہے گا تو آپ اِن جیسوں کے لئے مُجھے بلا کر پوچھیں گی.."
اُس نے بدتمیزی کی ہر حد پار کردی...
شفق خاتون سے کُچھ نہ بولا گیا وُہ غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے معذرت کرتی آگئیں....