قسط نمبر ۲۱

1.3K 81 9
                                    



قسط نمبر ۲۱

"مُجھے ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا میں نے غلط کیا..."
اُس کے ضمیر نے ملامت کی...
نور واپس لاؤنج میں آئی اور مٹر کی تھیلی اُٹھانے لگی تو نمرہ پھر بولی..
"رہنے دیں بھابھی میرا اب دِل نہیں کھانے کا۔۔۔"
"اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھوڑی ایسے کرتے ہیں پاگل میں بنا دیتی ہوں اپنی بہن کے لئے..."
اُس کے انداز نے نمرہ،علی اور شفق خاتون کو بُری طرح چونکا ڈالا تھا وہ یوں کہہ رہی تھی جیسے کُچھ ہوا ہی نہ ہو...
"میں آپکی مدد کروا دیتی ہوں..."
اُس نے شرمندہ سے لہجے میں کہا...
"نہیں میں بنالوں گی آدھے پون گھنٹے کا کام ہے بس تُم تھکی ہوئی کالج سے آئی ہو کُچھ دیر آرام کرلو لو دانیال بھائی بھی آگئے ..."
اُس نے دانیال کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر کہا...
"آپ بھی نہانے چلے جائیں میں کپڑے نکال دیتی ہوں آپکے..."
نور علی سے مخاطب ہوئی..
وُہ اُن تینوں کو عالمِ حیرت میں غرق چھوڑ کر لاؤنج سے چلی گئی..
اُس کے اندر احساسِ ندامت مزید بڑھ گیا...
وُہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا اُس کا سر درد کی شدت سے پھٹا جارہا تھا اضطراب بڑھتا جارہا تھا..
"میں ایسا بِلکُل بھی نہیں ہوں تُو جانتا ہے االلہ مگر میں کیوں اُس کے ساتھ زیادتی کرجاتا ہوں کیوں کسی اور کی بیوفائی کا بدلہ اُس سے لیتا ہوں کیوں آخر کیوں...؟"
سوال ہی سوال تھے مگر اندر سکوت تھا جواب نُدراد...
"آپ ابھی تک ایسے ہی بیٹھے ہیں فریش ہوجائیں جاکر میں کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا..."
نور نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا..
"نور میں وُہ.."
"آپ شلوار قمیض پہنیں گے یا جینز ٹی شرٹ..؟"
اُس نے الماری کھول کر پوچھا..
"میری بات.."
"علی جلدی بتائیں میری پیاز جل جائے گی.."
اُس نے دوبارہ اُس کی بات کاٹی...
"شلوار قمیض نکال دو..."
اُس نے گہری سانس لے کر کہا...
اُس نے آسمانی رنگ کے شلوار قمیض نکال کر ہینگ کردیے اور کمرے سے جانے لگی..
"تمہاری طبیعت کیسی ہے اب.."
اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا وُہ کیا بات کرے نور کا رویہ بہت حیران کُن تھا کُچھ دیر پہلے تک وُہ کوئی اور نور تھی اور اب پھر سے وہی نور جو شروع کے دنوں میں تھی..
"اب ٹھیک ہے..."
سادہ انداز میں دیا جانے والا اُس کا مختصر سا جواب بھی علی کو شکوہ لگا...
"تُم نہیں کھاؤ گی میرے ساتھ..؟"
"نہیں پیٹ بھرگیا ہے میرا آپ کھائیں پھر آپکو جانا بھی ہے..."
"نہیں جانا ایک ہفتے تک.."
"ٹھیک ہے.."
نا اُس نے وجہ پوچھی بس متانت سے کہا اور سرعت سے کمرے سے نکل گئی...
"طبیعت ہاں اُس کی طبیعت بھی تو خراب ہے ڈاکٹر نے اُسے آرام کا کہا تھا اور وہ یہ سب کر رہی ہے آہ علی تُف ہے تُم پر تُف.."
وُہ مسلسل خود کو ملامت کر رہا تھا...

_________________________________________

وُہ سات بجے کے قریب ایسے ہی بائک لے کر باہر نکل گیا نہیں معلوم تھا کہاں جانا ہے بس کُچھ وقت کے لئے وہ گھر کے ٹینشن زدہ ماحول سے دور جانا چاہتا تھا..
"زونیہ تُم کیوں بار بار میری زندگی میں واپس آجاتی ہو جب مُجھے لگنے لگتا ہے زندگی پُر سکون ہوگئی ہے تُم پھر اُتھل پُتھل مچا دیتی ہو اور میں بھی کتنا کم ظرف ہوں ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی نور ایک عام مرد ہیں جس کے لیے سب سے آسان ہدف اُس کی اپنی بیوی ہی ہوتی ہے اِس سے پہلے بھی میری وجہ سے اُس کی بے عزتی ہوئی اُس کے بہن اور بہنوئی کے سامنے آج میں اُس کی عزت اپنے گھر میں نہیں کروا سکا صحیح کہہ رہی تھی وُہ مُجھے کیسے "نمرہ" کی بدتمیزی دِکھی ہی نہیں..."
وُہ گلی سے اگلی گلی میں مڑتا جارہا تھا سوچوں نے اُس کے ذہن کو پوری طرح جکڑا ہوا تھا...
کُچھ سوچ کر اُس نے بائک زبیر کے گھر کی طرف ڈال دی صبح ہی اُس کی کال آئی تھی حال احوال دریافت کرنے کے لیے تو اُسے پتا چلا کہ وُہ دونوں واپس آگئے ہیں...
اپنی غلطیوں کے ازالے کی شروعات وُہ کرچکا تھا اُس دِن کے رویے کی معافی کی غرض سے اُن کے گھر کی طرف بڑھتے ہوئے...

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now