#محبت_ہوگئی_آخر#
قسط نمبر ۱۲
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"دو لاکھ تنخواہ اپنا گھر وُہ بھی کلفٹن میں اور اکیلا ہے بلکل.."
عافیہ اچنبھے سے بولیں...
"یہ نہیں اچھا رشتہ ہے تو بہن کے لیے دیکھ لے نہیں اسے تو اُس سوتیلی کی پڑی ہے"
وُہ جلے دِل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے بولیں..
"اُس لڑکے نے سامنے سے نور کا نام لیا ہے امی اور پلیز اب میں آپکی نہیں سننے والی آپ نے اِنکار کرنا ہے یا اقرار اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ذیشان زبیر کا دوست ہے اور نا اُس کے آگے پیچھے خاندان کا کوئی جھمیلا جسے آپکی شادی میں شرکت نہ کرنے سے اعتراض ہوگا میں آپکی مرضی کے خلاف بھی یہ شادی کرکے رہوں گی اسی لیے بخوشی مان جائیں نور کو میں اب اِس عذاب خانے میں نہیں رہنے دے سکتی کل میں رُخصت ہوکر گئی تو آپ نے تو اُس بیچاری کو مار ہی دینا ہے.."
اُس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بات مکمل کی..
"مُجھے شفق والا رشتہ زیادہ اچھا لگتا اور میں اُسی پر راضی ہوں.."
اُنہوں نے فوراً کہا..
"آخری فیصلہ تو نور کا ہی ہوگا ہمارے کُچھ بھی طے کرنے سے کیا ہوجائیگا مگر آپ اب میری رخصی کے ساتھ ساتھ نور کی بھی تیاری رکھیں.."
نادیہ نے سادہ سے انداز میں کہتے ہوئے عافیہ کی حسد اور جلن کی آگ بھڑکا چُکی تھی..
"اتنی اچھی جگہ شادی تو میں ہرگز نہیں ہونے دوں گی اُس کی.."
اُنہوں نے قطعیت سے سوچا...
_________________________________________
"علی بات سُن ادھر آ.."
شفق خاتون نے اُسے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر پُکارا..
وُہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اُن کے برابر میں جاکر بیٹھ گیا اور بغیر کُچھ کہے اُن کی گود میں سر رکھ دیا..
چند ساکت و صاحت لمحے یونہی سرک گئے شفق خاتون کا دِل رنجیدہ تھا اپنے جوان بیٹے کی ایسی حالت دیکھ کر وُہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وُہ کسی سے کُچھ نہیں کہے گا وہ اپنے احساسات کو چھپا لینے میں ماہر ہے مگر وہ ماں تھیں اُنہوں نے سچے دِل سے دُعا کی تھی کے اُن کے بیٹے کا دِل نہ ٹوٹے مگر وہی ہوا جو وُہ نہیں چاہتی تھیں...
"غم نا کر وُہ تیرے لائق ہی نہیں تھی میرے بچے.."
"امّاں کوئی اور بات کریں.."
اُس نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا...
"چل نہیں کرتی بات... دوسری بات یہ کہ فرح کو جو لڑکے والے دیکھنے آئے تھے اُن کی آج شام کو کال آئی تھی اُنہیں ہماری فرح بہت پسند آئی ہے اور اُن کا کہنا ہے اِس اتوار کو وُہ لوگ نکاح کی تاریخ رکھنے آئیں گے.."
اُنہوں نے پاندان تخت کر نیچے سے باہر کھسکاتے ہوئے اطلاع فراہم کی..
"اتنی جلدی نکاح.."
"ہاں اُن لوگوں کا کہنا ہے وُہ منگنی جیسی فضولیات میں نہیں پڑنا چاہتے رخصتی بھی سفر کے مہینے میں کرنے کا کہہ رہے ہیں لڑکے کو پھر دو سال کے لیے باہر جانا ہے تو اُن کا اصرار ہے رُخصت کروا کے ہی ساتھ لے جائیں..''
اُنہوں نے پوری تفصیل سنادی..
"ایک دفعہ تو بھی لڑکے سے مِل لے پھر ہی کوئی حتمی فیصلہ ہوگا.."
"ہمم۔۔" اُس نے ہنکارا بھرا..
"میں نے تو فرح کی شادی کی تقریباً ساری تیاریاں کر رکھی ہے اور ایک کمیٹی بھی ڈالی ہوئی ہے جو اگلے ہفتے ملنے والی ہے پورے دو لاکھ کی ہے باقی زیور بنا ہوا ہے کُچھ رقم بینک میں بھی جمع ہے بس ایک ساتھ دو ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجاؤں گی اِس بار بیٹی کو رُخصت کروں تو بہو لے آؤں گی.."
شفق خاتون آخری بات کہتے ہوئے اُس کے چہرے کو بڑی غور سے دیکھا تھا مگر اُس کا چہرہ سپاٹ تھا اِس بات کے ردِ عمل پر..
"علی میں نے تُجھے پہلے ہی کہہ دیا تھا اگر وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا تو میں جہاں بولوں گی تُو شادی کرے گا.."
وُہ جانتی تھیں علی اُن کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا تھا..
"میں ابھی بھی اپنی بات اور قائم ہوں آپ جس سے بولیں گی میں شادی کرلوں گا آپ میری طرف سے بے فکر ہوجائیں.."
اُس نے نہایت نرمی سے کہتے ہوئے اُن کے تمام ڈر اور وسوسوں کو ختم کیا تھا..
"ویسے تو مُجھے نور پسند ہے مگر تین چار لڑکیاں اور ہیں تو دیکھ لے اور اپنی پسند بتادے.."
اُنہوں نے تخت پر بچھے بستر کے نیچے سے ایک لفافہ نکال کر اُس کے آگے کردیا...
"یو نو واٹ تُم جیسے ٹیپیکل مڈل کلاس مردوں کے لیے مُجھ جیسی ماڈرن لڑکی نہیں بلکہ نور جیسی کسی گنوار کی ہی ضرورت ہے جو تُم جیسے قدامت پرست مرد کے ساتھ چل سکے تم ڈیسرو ہی نہیں کرتے مُجھ جیسی لڑکی کو بالکل ٹھیک میچ ہے تمہارا اور اُس کا ایک دم پرفیکٹ.."
زونیہ کے الفاظ اُس کے کانوں میں گردش کر رہے تھے...
"ویسے جو بات ہے یہ سب لڑکیاں درکنار اور نور ایک طرف اُس جیسی پیاری لڑکی کوئی نہیں.."
اُنہوں نے نور نامہ جاری رکھا..
"وُہ مُجھ سے دس سال چھوٹی ہے امّاں.."
اُس نے کمزور سا عذر تراشہ جسے شفق خاتون نے قابلِ غور نہیں سمجھا...
"تُو کون سا بڈھا ہوگیا ہے اٹھائیس سال کا مرد جوان ہی ہوتا ہے اور کون تُجھے دیکھ کر کہے گا تو اٹھائیس کا ہے تئیس چوبیس برس سے زیادہ کا لگتا نہیں اور اتنا تو حسین ہے میرا بیٹا تیرے ساتھ نور ہی ٹھیک لگے گی گُڑیا جیسی بِلکُل بہت پیاری نازک سی.."
اُنہوں نے نور اور علی کے ایک ساتھ کھڑے خیالی پیکر کو دیکھتے ہوئے کہا...
"آپ کو جو کرنا ہے کریں میں اجازت دے چکا ہوں آپکو.."
اُس نے گُھٹنے ٹیک دیے تھے...
"تو بس طے ہوا میں نور کا ہاتھ مانگنے کل جارہی ہوں ویسے میں نے اشارے کنائے میں بات تو کی تھی عافیہ سے پھر اُس دِن ہسپتال میں جب نادیہ سے صاف صاف کہا تھا تو وہ تو بہت خوش تھی بس کل تیرا بھی رشتہ طے ہوجائے تو فرح کے ساتھ ہی تُم دونوں کا بھی نکاح اور رُخصتی کروا لوں گی.."
اُنہوں نے آگے کے منصوبوں سے اُسے آگاہ کیا..
وُہ عدم دلچسپی سے اُن کی ساری باتیں سنتا رہا اور اوہر اُٹھ کر اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹ گیا...
" "اپنی حد میں رہو علی دو ٹکے کی تمہاری اوقات نہیں ہے اور تُم مُجھ سے شادی کے خواب دیکھتے ہو اپنے آپ کو دیکھو اور مُجھے دیکھو تُم زمین ہو تو میں آسمان میں روشنی ہوں تو تُم اندھیرا.."
اُس نے بے چینی سے پہلو بدلا...
"تیرے ساتھ نور ہی ٹھیک لگے گی...تُم جیسے ٹیپیکل مڈل کلاس مردوں کے لیے نور جیسی کسی گنوار کی ہی ضرورت ہے جو تُم جیسے قدامت پرست مرد کے ساتھ چل سکے تم ڈیسرو ہی نہیں کرتے مُجھ جیسی لڑکی کو بالکل ٹھیک میچ ہے تمہارا اور اُس کا ایک دم پرفیکٹ..."
آوازیں اُس کی سماعتوں میں ٹکرا رہی تھیں...
"میں کیسا ہوں؟ اور وُہ کیسی ہے؟ دُنیا کہتی ہے وُہ میرے ساتھ جچے گی اگر ایسا ہے تو وُہ کیوں کبھی میری نورِ نظر نہ بن سکی؟ زندگی مُجھے گزارنی ہے مگر میرے ذہن میں کبھی اُس کا خیال بھی نہیں آیا مگر لوگ کہتے ہیں وُہ میرے لئے بہترین رفیق راہ ہے مگر مُجھے کیوں نہیں لگا ایسا کبھی...؟آہ یہ سوچیں اب بے فیض ہیں جب اُسے رفیق حیات چن ہی لیا ہے تو یہ بھی پتا چل ہی جائے گا کسی روز..."
اُس کے دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے اور علی نے خود کو حالات کے حوالے کردیا تھا..
_________________________________________
نور کے لیے یہ ماننا آسان نہیں تھا کہ علی سبحان کا رشتہ اُس کے لیے آیا تھا یوں اُسے ذرا حیرت نہ ہوتی اگر اُسے زونیہ اور علی کے بارے میں سب پتا نہ ہوتا نادیہ اور زبیر نے ذیشان اور علی دونوں میں سے کسی کے لیے بھی اِنکار اور اقرار کا حق اُسے دے دیا تھا..
شفق خاتون جب علی کا رشتہ لے کر آئی تو عافیہ نے بلا تامل اُنہیں ہاں کردی اور ایک ہفتے بعد نکاح کے لیے بھی مان گئیں اُنہوں نے نور کو گھر سے نکالنا بھی تھا مگر اُسے خوش بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں نادیہ اور زبیر دونوں نے اُن کی ہاں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیصلہ نور پر چھوڑا تھا..
."وُہ کون مرد ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے کون ہوتے ہیں جو عزتوں کے محافظ ہوتے ہیں.."
اُس کے ذہن میں پھر یہی سوال تھا اور ایک یہی خواہش تھی اُس کی جو وُہ اپنے جیون ساتھی میں چاہتی تھی
اُسے بے اختیار یاد آیا جب علی نے غیر محسوس سے انداز میں کوئی بھی رشتہ نہ ہوتے ہوئے اُسے مردوں کی گندی نظروں سے محفوظ کیا تھا ہاں وُہ ایسا مرد تھا کہ اُس کے ساتھ چلنے والی عورت کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی...
"ہاں ایسے مرد ہوتے ہیں محافظ جنہیں معلوم تک نہیں اُن کا اجنبی بن کر ساتھ چلنا بھی کسی کو تحفظ دے دیتا ہے ایسے مردوں کا طنطنہ کمال کا ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر نظریں مرعوبیت سے نیچے ہوجائے کُچھ خاص نا ہوتے ہوئے بھی وُہ بہت خاص ہوتے ہیں وُہ سایہ دار شجر ہوتے ہیں.."
اُس نے پھر اپنی بات کو دہرایا...
"اجنبی ہوکر تحفظ کا اتنا پُر شدت احساس ہے اگر وہی شخص میرا محرم میرا محافظ بن جائے تو اِس اچھی اور کیا بات ہوگی ہاں مُجھے اُس شخص کی ہمراہی چاہیے اُس لڑکی کا کیا ہے مرد ہزار محبتیں کرتے ہیں معنی وُہ رکھتا ہے جسے وُہ جیون ساتھی چنیے ہیں اور وُہ شخص میرا ساتھ چاہتا ہے.."
اُس نے اپنا فیصلہ کرلیا تھا اور اُس نے علی کو چُنا تھا...
_________________________________________
ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے ۔کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔
ایک ہفتے بعد اپنے اور نور کے نکاح سے ایک دِن پہلے اُس نے اپنی محبت زونیہ کو رُخصت ہوتے ہوئے دیکھا وُہ کتنی سفاک لڑکی تھی کسی کا دِل توڑ کر اتنی شانِ بے نیازی سے نئے سفر پر نکل پڑی.
لوگ اپنی زندگی کو پُر سکون بنا لیتے ہیں اور دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں ۔ سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔
علی اُن لوگوں میں سے تھا جو خوش تھا کہ زونیہ اُس سے الگ رہ کر خوش ہے...
سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے ۔
دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں ۔
بزرگ کہا کرتے تھے"دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو"۔ دولت نہ خوشی خرید سکتی ہے نہ اطمینان اور نہ صحت ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی ۔ دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے۔
ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں ۔
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔
سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ کیونکہ جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا"۔
علی اپنے تلخ تجربے کو بہت کُچھ سیکھ چُکا تھا "منفی"۔۔۔
پھر وہ دِن بھی آگیا جب اُس کا نام نور کے نام کے ساتھ جڑ گیا..
وُہ دِن جب نور "نور ظہیر" سے "نورِ علی" بن گئی ایک عجیب سی پُر مسرت کیفیت چھائی ہوئی تھی اُس کے اعصابوں پر وُہ خوش نہیں بے حد خوش تھی جیسے ہمسفر کی چاہ اُس نے کی تھی وُہ اُس کے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا....
(جاری ہے)
نوٹ: ناول کی یہ آج بارہویں قسط ہے مگر اب تک مُجھے نائس ، نیکسٹ کے علاوہ کوئی کمنٹ نہیں دِکھا پہلے میں نے کُچھ نہیں بولا کیونکہ کہانی کی شروعات تھی مگر اب آپ اِسے دھمکی سمجھیں یا کُچھ بھی اگلی قسط تب ہی آئے گی جب اِس قسط پر پورا رسپانس ملے گا کہانی کے متعلق کمنٹس ملیں گے۔۔۔
شکریہ