قسط نمبر ۱۷

1.3K 74 12
                                    

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۱۷
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

الارم کی آواز سے اُس کی آنکھ کھلی..
وُہ اُٹھ کر بیٹھ گیا ٹائم دیکھا تو ساڑھے سات بج رہے تھے اور نور اب تک سورہی تھی یہ اُس کے لئے حیرت کی بات تھی ورنہ وہ فجر کی نماز پڑھ کر سوتی نہیں تھی...
علی نے سرسری نگاہ نور پر ڈالی جو اُس کی طرف ہی کروٹ لئے دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے سورہی تھی...
چہرے کی سادگی اور معصومیت کو اُس نے بغور دیکھا...
چہرے سے ہوتے ہوئے اُس کی نظر سر کے نیچے رکھے اُس کے دونوں ہاتھوں پر گئی اُس نے علی کے لائے ہوئے گجرے پہنے ہوئے تھے جس سے پھول ٹوٹ ٹوٹ کر تکیے پر پھیلے ہوئے تھے...
"پہن کر سو ہی گئی احمق لڑکی.."
اُس نے سر کو دائیں بائیں خفیف سی جنبش دیتے ہوئے سوچا...
"اِس کا مطلب نور نماز کے لیے بھی نہیں اُٹھی.."
اب تک پہنے ہوئے گجروں کو دیکھ کر اُس کے ذہن میں خیال بجلی کی سی تیزی سے کوندا..
اُس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُس کے ماتھے پر رکھا تو اُسے تیز بخار ہورہا تھا...
"نور... نور.."
علی نے اُس کے ہاتھ کو ہلایا تو وُہ سر کے نیچے سے ڈھلک کر بے جان سے بستر پر گرگیا...
"یااللہ یہ تو بے ہوش ہے شاید.."
وُہ مضطرب ہوکر بولا...
"نور.. نور آنکھیں کھولو.. نور"
اُس نے گردن کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُسے اُٹھایا تو وہ واقعی بے ہوش تھی...
وُہ تیزی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور بائیں طرف کی سائڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور اپنی انگلیاں بھگو کر اُس کے منہ پر چھینٹے مارے تو اُس کے بے حس و حرکت جسم میں جنبش ہوئی...
"نور آنکھیں کھولو..."
اُس نے آہستہ سے اُس کے گال کو تھپتھپا کے کہا...
اُس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولتا دیکھ اُس کی جان میں جان آئی...
"شکر تُمہیں ہوش تو آیا.."
اُس نے نور کے بندھے بالوں کو کھولتے ہوئے نرمی سے کہا...
وُہ بس آنکھیں کھولے اُسے اپنے لیے پریشان دیکھ رہی تھی..
"اتنا تیز بخار ہورہاہے تُمہیں رات کو بتانا تھا مُجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا تُمہیں..."
اُس نے تکیہ اُس کی کمر کے پیچھے برابر کرتے ہوئے کہا..
"میں تمہارے لیے ناشتہ لے کر آتا ہوں وُہ کرکے چلو میرے ساتھ ابھی ڈاکٹر کے پاس.."
"میں ٹھیک ہوں علی بس ذرا سا بخار ہے ٹھیک ہوجائے گا.." وُہ فوراً بولی۔۔
"تُم بے ہوش تھی نجانے كب سے یہ ٹھیک ہو تُم؟؟ چُپ چاپ بیٹھی رہو بس.."
مگر علی اُس کی بات یکسر نظرانداز کرتے ہوئے رُعب سے بولا..
وُہ کیا بتاتی کہ اُس کی آدھی طبیعت تو اُسے اپنے لیے پریشان دیکھ کر ہی ٹھیک ہوگئی تھی نور کے لئے یہ احساس ہی راحت افزا تھا...
اُس نے محبت سے ہاتھ میں پہنے گجروں کو دیکھا اُسے اپنے اندر طاقت بڑھتی محسوس ہونے لگی کُچھ دیر یوں ہو بیٹھی رہی...
بالوں کو اُس نے پیچھے کرکے کیچر میں مقید کیا اور دوپٹہ سینے پر پھیلا کر اُٹھ کھڑی ہوئی...
کمزوری کے باعث اُسے چکر آگئے بروقت دیوار کا سہارا نہ لیا ہوتا تو وُہ فرش پر گر چُکی ہوتی.
کُچھ دیر یوں ہی کھڑے رہ کر اُس نے اپنے اوسان بحال کیے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی واشروم کی طرف بڑھنے لگی...
چہرے پر پانی پڑنے سے اُسے کافی سکون ملا تھا...
تولیہ سے منہ صاف کرتی وُہ باہر آگئی...
الماری کھول کر وُہ علی کے آفس کے لیے  کپڑے نکالنے لگی...
"میں نے تمہیں کہا تھا آرام سے بیٹھی رہو کیا تکلیف ہے آخر تُمہیں.."
علی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اُسے دیکھ کر سختی سے کہا..
"میں آپکے کپڑے نکال رہی تھی..."
"تُم سے کس نے کہا..؟"
وُہ ہاتھ میں پکڑی پراٹھے کی تھیلی اور پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا..
"جلدی ناشتہ کرو اور چلو میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس۔۔"
وُہ اب پراٹھوں کو پلیٹ میں نکالتے ہوئے بولا...
"چھوڑو اُسے اِدھر آؤ ناشتہ کرو..."
وُہ چُپ چاپ اُس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی...
"کھانا کھا کے یہ دوائی بھی لے لینا اور پھر چلنا میرے ساتھ.."
اُس نے اپنی ہتھیلی پر دھری گولی اُسے دکھاتے ہوئے کہا...
"میں جب تک نہا لیتا ہوں.."
وُہ اُٹھنے لگا...
"علی میں بِلکُل ٹھیک ہوں بس تھوڑا بخار ہے، کُچھ کھایا نہیں ہوا تھا کل سے اِسی لیے ایسا ہوگیا ابھی ناشتہ کرنے کے بعد دوائی لے لوں گی تو ٹھیک ہوجاؤں گی آپ کو آفس کے لیے دیر ہورہی ہے.."
بے دھیانی میں اُس کے منہ سے بات نکل گئی...
"تُم نے کھانا نہیں کھایا کل سے..."
وُہ تعجب سے بولا پھر یکدم اُسے کُچھ یاد آیا جس نے اُسے شدید خفت سے دوچار کیا...
"تُم نے کل شام سے کُچھ نہیں کھایا.."
"نہیں وُہ رات میں..."
"جھوٹ مت بولنا.."
اُس نے سختی سے ٹوک دیا...
اُس نے سر کو نفی میں ہلا دیا۔۔۔
"کل تُم مُجھے سمجھا رہی تھی کہ کھانے سے کیسا غصّہ خود تُم نے کیا کِیا اگر مُجھ سے ناراض تھی میری بات بُری لگی تھی تو بات کرکے ختم کرتی اِس طرح خود کو اذیت دینے کا کیا فائدہ نور.."
وُہ شرمندگی سے بولا...
"میں یہ اُمید کر رہی تھی کہ آپ مُجھ سے خود پوچھیں گے کہ میں نے کھانا کھایا یا نہیں.."
"مُجھے لگا تُم نے کھا لیا ہوگا.."
وُہ خجالت مٹانے کی خاطر بولا...
پھر کُچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔۔
"میں کل تمہارا انتظار کررہا تھا کمرے میں کہا بھی تھا جلدی آنا مگر جب تُم آئی تب تک میں سوچُکا تھا.."
اُس نے رسان سے کہا..
"جی کُچھ کام رہ گئے تھے اُنہیں نپٹاتے نپٹاتے دیر ہوگئی..."
اب کی بار وُہ نادم ہوکر بولی..
"آپ بھی کھائیں.."
نور اُسے یوں ہی بیٹھا دیکھ کر بولی...
"نہیں تُم کھاؤ اور چلو میرے ساتھ نے نہا لوں جب تک.."
"میں کہہ رہی ہوں آپ سے میں ٹھیک ہوں..
میں ہمیشہ ایسے ہی ٹھیک ہوجاتی ہوں کبھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی...
آپ کو آفس کے لیے لیٹ ہورہاہے تیار ہوجائیں جاکر اگر شام تک ٹھیک نہیں ہوئی تو پھر چلیں گے.."
اُس نے متانت سے کہا...
"پہلے کی بات اور تھی اب تُم میری ذمے داری ہو ابھی نہیں چلنا ٹھیک ہے  مگر شام کو ٹھیک ہو یا نہ ہو ڈاکٹر کے پاس چلیں گے اِس طرح کسی بھی بیماری کو فار گرانٹڈ نہیں لیتے کیا پتا بظاہر معمولی نظر آنے والی بیماری اندرونی طور پر آپکو بہت نقصان پہنچا رہی ہو.."
اُس نے کُچھ سوچتا ہوئے کہا...
"میں کسی چیز کو فار گرانٹڈ نہیں لے رہی کُچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو لادوا ہوتی ہیں اُنہیں لٹ گو کردینا چاہئے کیونکہ وُہ جان نہیں لیتیں بس ہر وقت جان پر بنی رہتی ہیں.."
اُس نے برجستہ کہا..
"ناشتہ کرلیں.."
نور نے اُس کے چہرے کے بدلتے زاویوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا...
"نہا تو لینے دو ایسے ہی بیٹھ جاؤں منہ ہاتھ دھوئے بغیر گندا سندا.."
علی نے جھلا کر کہا...
نور کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی...
"مسکرانے کی وجہ..."
مصنوئی خفگی سے پوچھا گیا...
"کُچھ نہیں آپ صاف ستھرے ہوکر آئیں..."
نور نے اپنے ہونٹ کا نچلا حصہ دبا کے متبسم کہا...
وُہ گہری سانس لے کر اُٹھ کھڑا ہوا..
"ایسا کیا کہہ دیا تھا میں نے.."
وُہ اُس کے نکالے ہوئے کپڑے اُٹھاتے ہوئے سوچ رہا  ایک دزدیدہ نظر اُس پر بھی ڈالی تھی جو گجروں کو سونگھتے ہوئے ابھی تک مسکرا رہی تھی..
"پاگل.."
وُہ سر جھٹک کر کہتا ہوا آگے بڑھ گیا مگر اب اُس کے چہرے پر بھی دھیمی دھیمی ہنسی نمایاں تھی....

محبت ہوگئی آخرWhere stories live. Discover now