محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۹
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"نور کوئی بات ہوئے ہے کیا علی بھائی بھی چُپ چُپ سے تھے تُم بھی چُپ چُپ ہو اور اِس طرح اچانک تُم یہاں .."
"کیا میں نہیں آسکتی..؟"
اُس نے فوراً سوال کیا..
"میں نے ایسا کب کہا بیٹا تمہارا میکہ ہے جب دِل چاہے آؤ کوئی تُمہیں کُچھ نہیں کہے گا میں تو بس فالتو میں ہی پریشان ہوگئی تھی خیر چھوڑو اِن باتوں کو یہ بتاؤ شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں اب تو تُمہیں تھوڑا آرام مِل جائے گا دیورانی جو آرہی ہے.."
نادیہ نے اُسے چھیڑتے ہوئے پوچھا...
"آپی ایک بات پوچھوں .."
نور نے اُس کی گود میں سر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا...
"ہاں پوچھو تُمہیں کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی مُجھ سے.."
اُس نے نور کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا...
"جن کے ماں باپ نہیں ہوتے اُنہیں کیوں کوئی اِنسان نہیں سمجھتا یہ کیوں نہیں سوچتے لوگ کہ اُس کے سینے میں بھی دِل ہے اُسے بھی اچھا لگتا ہے بُرا لگتا ہے وُہ اُداس ہوتا خوش ہوتے ہیں اگر ماں باپ دُنیا سے چلے جائیں تو کیا اُن کے پیچھے رہ جانے والے اُن کی بچوں کی زندگیوں ہر جگہ صرف رُلنا لکھا ہوتا ہے کوئی کیوں اُنہیں محبت نہیں دیتا مانا کہ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا مگر شفقت تو دکھائی جاسکتی ہے ناں.."
اُس کا کرلا رہا تھا آج شفق خاتون کا رویہ دیکھ کر...
"کیا بات ہوئی ہے نور تُم مُجھے ڈرا رہی ہو بتاؤ ناں میری جان.."
نادیہ نے محبت سے پوچھا...
"امی ابو کی بہت یاد آرہی ہے آج بہت اور اُن کی کمی بھی بہت محسوس ہورہے ہے آپی بہت..."
وُہ سارے باندھ توڑتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی...
"ایسے نہیں کرتے میری جان ایسے نہیں کرتے.."
نادیہ کے لئے اُس کو سنبھالنا مُشکل ہورہا تھا بہت وُہ بلک بلک کر رو رہی تھی...
"کیا ہوا ہے تُم مُجھے دہلا رہی ہو نور کیا بات ہوئی ہے..."
نادیہ خود بھی روتے ہوئے بولی...
"آپی میری امی میری امی کو بلا دیں میں اُنہیں دیکھنا چاہتی ہوں مُجھے محسوس کرنی ہے ماں کی شفقت کیا ہوتی ہے میں نے صرف اُنہیں تصویروں میں دیکھا ہے میں کیوں اتنی بد قسمت ہوں ہر معاملے میں کہیں سے لے آئیں کہیں سے لے آئیں میری امی کی آپی لے آئیں.."
اُس نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہا...
"نور بس کرو بس کرو میرا دِل پھٹ جائے گا نور زبیر دیکھیں کیا ہوگیا ہے اِسے زبیر.."
نادیہ نے اُسے سختی سے خود سے لگائے زور زور سے آوازیں لگانا شروع کردی...
"مُجھے رونے دیں آج مُجھے آج اپنی ماں کو رونے دیں.."
اُس کی ہچکیاں بندھنے لگی تھیں...
"نور کیا ہوا ہے بیٹا نور.."
زبیر نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوگیا...
"دیکھیں کیسی باتیں کر رہی ہے مُجھ سے نہیں برداشت ہورہا زبیر سمجھائیں اسے.."
نادیہ نے اُس کی پیٹھ پر پھیرتے ہوئے کہا...
"میں علی کو فون کرتا ہوں پوچھوں اُس سے کیا کِیا ہے اُس نے میری بہن کے ساتھ جو وُہ یوں رو رہی ہےاور اگر اُس نے کُچھ کیا ہوگا تو میں اُسے چھوڑوں گا نہیں.."
زبیر نے جلدی سے موبائل نکالا اور علی کو کال لگانے لگا مگر اُس کا نمبر بند تھا..
"یا اللہ کیا کِیا اُنہوں نے اِس بچی کے ساتھ نمبر بھی بند جارہا ہے اُس کا نور خُدا کے واسطے کُچھ تو بولو بچے.."
زبیر نے تڑپ کر پوچھا...
مگر اُس کی ہچکیاں ہی نہیں رُک رہی تھیں کیا جواب دیتی...
"میں پانی لے کر آتا ہوں.."
وُہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور کُچھ ہی لمحوں بعد گلاس لیے کمرے میں آیا..
"شاباش پانی پیو بیٹا.."
نادیہ نے گلاس اُس کے منہ سے لگاتے ہوئے کہا جسے اُس نے ہچکیوں کے ساتھ پیا...
"زبیر آپ اُن کے گھر جائیں اور خبر لے کر آئیں کیا کِیا ہے اُنہوں نے میری بہن کے ساتھ وُہ لوگ کیا سمجھتے ہیں اِس کا کوئی ولی وارث نہیں ہے.."
"ہاں میں جاتا ہوں.."
زبیر نے جلدی سے کھڑے ہوکر کہا نور جب تک کُچھ حواسوں میں لوٹی تھی...
"نہیں بھائی.."
ہچکیوں کے درمیان اٹکتے اٹکتے کہا گیا..
"تو پھر بتاؤ ہمیں کیا بات ہوئی ہے تُم رو کیوں رہی ہو اتنی بری طرح سچ سچ بتانا نور اگر میں نے تمہاری کسی بات میں بھی ذرا سا جھوٹ پکڑ لیا ناں تو میں تمہاری ایک بات نہیں سنوں گا اور اگلی بات علی سے ہوگی پھر..."
وہ بے لچک انداز میں بولا...
"میں آپکو سب بتاؤں گی بس مُجھ سے ایک وعدہ کریں آپ علی سے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ اُن کی کوئی غلطی نہیں ہے اور میں بھی اتنی بیوقوف ہوں بلا فضول میں آپ دونوں کو بھی پریشان کردیا..."
اُس نے خود کو ملامت کے..
"بیوقوفی نہیں اچھا کیا اور مُجھے بہت اچھا لگا کہ تُم نے ایسا کیا ہمیں اپنا سمجھا ہم پر یہ مان دِکھایا.."
زبیر نے برجستہ جواب دیا...
"اب شاباش بتاؤ کیا ہوا ہے.."
نادیہ نے اُسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا..
نور نے آج ہوا پورا واقعہ اُنہیں بتا دیا جسے سن کر دونوں کے چہروں پر ناگواری کے وُہ شدید تاثرات تھے کہ نور کو ڈر لگنے لگا...
"اتنے ہلکے لوگ اتنے ہلکے اتنی سطحی آج مُجھے افسوس ہورہاہے کہ ایک بھائی ہونے کے ناطے میں نے اُس وقت تُم پر سختی کیوں نہیں کی جب تُم یہ حماقت کر رہی تھی ذیشان ایک بہت اچھا لڑکا تھا تمہیں پھولوں کی طرح رکھتا بِلکُل کیونکہ تُم اُسی لیے ہو بہت بڑی غلطی ہوگئی مُجھ سے..."
زبیر نے متاسفانہ انداز میں کہا...
"علی ایسے نہیں ہیں بھائی وُہ بہت اچھے ہیں وہ میرا ساتھ دیتے ہیں.."
وُہ فوراً بولی...
"جو محبت صرف کمرے کی چار دیواری تک محدود ہو وہ صرف ضرورت ہے نور اِس رشتے کو عزت کی ضرورت ہے یہ کافی نہیں کہ وُہ صرف اکیلے میں تُم سے وعدے وعید کرے بلکہ سب کے سامنے تمہارے لیے کھڑا بھی ہوجائے.."
نادیہ نے گہری لے کر کہا..
"تو وہ کرتے ہیں میرے لیے..."
بلا توقف کہا گیا..
"تو پھر یہ آنسو کیوں بچے..؟"
زبیر نے رسان سے پوچھا....
"بس ایسے ہی آج نجانے کیوں دِل بھر آیا گزری جتنی عمر نہ روئی آج پھوٹ پھوٹ کر رونے کا دِل کر رہا ہے دِل کر رہا ہے کوئی احساس دلائے کے چاہے جیسے بھی حالات ہو چاہے کُچھ بھی ہوجائے وہ میرے ساتھ ہے میں راہگزر پڑی ہوئی کوئی ناکارہ چیز نہیں جس کے پیٹ پر کوئی بھی راہی ٹھوکر مارتا آگے بڑھ جائے وُہ احساس جو آپکو اندر سے مضبوط بنائے کہ ہاں میرا تُم سے ناطہ اٹوٹ ہے اُسے نہ تو جڑنے کے لیے تین لفظوں کی ضرورت ہے نہ ٹوٹنے کے لیے..."
اُس نے موتی بھری آنکھوں سے نادیہ کو دیکھا تو اُس کا دِل تڑپ اُٹھا...
"میرا تُم سے وہ رشتہ ہے میری جان میں تمہیں یقین دلاتی ہوں زندگی کے ہر موڑ پر میں تمہیں تمہارے ساتھ کھڑی ملوں گی چاہے کُچھ بھی ہوجائے کیسے بھی حالات ہو میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی ابو سے کیا وعدہ نبھاؤں گی..."
نادیہ نے اُسے سینے سے لگا کر مضبوط لہجے میں کہا...
"تُم آج نور کے ساتھ ہی سوجاؤ اِسے واقعی ضرورت ہے تمہاری اور ہاں نور صرف تمہاری آپی نہیں میں بھی تمہیں ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑا ملوں گا.."
زبیر نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...
"اور ہاں علی سے تو میں بات کروں گا.."
"بھائی پلیز.."
نور نے سہم کر کُچھ کہنا چاہا...
"تُم بے فکر رہو ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے تُم دونوں کے رشتے میں کسی بھی قسم کے کھٹاس آئے بس اُس کے یہ اُس کے گھروالوں کے ذہن میں کہیں بھی یہ خیال ہے کہ تُم اُن کے رحم و کرم پر ہو تو یہ بات غلط ثابت کرنی ہے تمہارے اپنے لوگ موجود ہیں تمہارے ساتھ یہ بات یاد کروانی ہے اُسے تاکہ آئندہ کے لیے احتیاط کرے اور کروائے بھی...تمہیں مُجھ پر بھروسہ تو ہے ناں؟؟"
آخری بار کہہ کر اُس نے پُر اُمید نظروں سے نور کو دیکھا...
"آپ پر پورا بھروسہ ہے مُجھے بھائی آپ وہی کریں گے جو میرے لیے بہتر ہوگا اِس لیے اب مُجھے کسی بات کی فکر نہیں..."
نور نے متشکر انداز میں کہا...
"خوش رہو.."
وُہ سر پر ہاتھ رکھ کر چلا گیا....
"آج ہم دونوں بہنیں خوب باتیں کریں گے.."
نادیہ نے اُس کا گال تھپک کر کہا...
" آپی یہ لفظ ’’یتیم‘‘ کتنا عجیب وغریب ہے۔ اس لفظ کو سنتے ہی دل میں احساس محبت جنم لیتا ہے۔ یتیم بچے یا بچی کے لیے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کوئی یتیم نہ ہو۔ اس کے ماں باپ سلامت رہیں ۔
یقیناً یہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔ اللہ نے تو حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔
ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کو چومتا ہے، گلے سے لگاتا ہے۔ اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتا ہے۔ گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے۔ وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے۔ بچے توتلی زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں۔ کبھی شکایت لگاتے ہیں۔ والد بچوں کی باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے۔ خوش ہوتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔آپکو یاد ہے ہم تینوں بھی تو ایسا ہی کرتے تھے جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے نہیں صبا آپی اُن کے ایک کندھے پر جھول رہی ہوتی تھیں میں اُن کی گود میں اور آپ ابو کے ارد گرد گھومتی رہتی تھیں رات جب تک وہ سو نہیں جاتے تھے میں اُنہیں بتاتی تھی کہ اسکول میں آج یہ سکھایا وُہ سکھایا تو وہ بس مسکراتے ہوئے مُجھے دیکھتے چلے جاتے تھے کبھی ہنس دیتے تھے کبھی پیار کرتے تھے کبھی ٹیسٹ میں اچھے نمبر آنے پر گھمانے لے جاتے تھے.."
نور کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے تو خشک آنکھیں نادیہ کی بھی نہ تھی...
"میں ابو سے گڑیا کا گھر منگواتی تھی اور پھر دو دن میں توڑ کر الزام تمہارے یا صبا کے سر ڈال کر پھر معصوم سی شکل لے کر اُن کے سامنے آجاتی اور وُہ اگلے دن مُجھے دوسرا لادیتے تھے.."
"اور آپ اُسے بھی ہفتہ بھی میں ٹھکانے لگا دیتی تھیں..."
نور نے ہنس کر کہا...
"ہاں اور پھر کبھی تو امی پر اِلزام..."
اُس نے قہقہ لگایا...
"وُہ دِن واپس نہیں آسکتے اب میرا بہت دِل چاہتا ہے کے ابو کے گلے لگا کر ہی سوجاؤں جیسے بچپن میں وُہ مُجھے گود میں اٹھائے ٹہلتے رہتے تھے اور میں سوجاتی تھی..."
یاسیت سے کہا گیا...
"ماں کی گود میں سر رکھنے کا کیا سکون ہوتا ہے میں تو اِس سے نابلد ہوں ہمیشہ سے
ماں کاشیریں لفظ اپنی تکوین و تجسیم کے دامن میں اقوام عالم کے بیکراں معانی و تفاہم سمیٹتے ہوئے ہیں یہ کہنا بے جا نہیں کہ ’’ماں‘‘ اہل زمیں کیلئے رب کریم کا تحفہ ہے۔ یہ درد مندی کا گرانقدر نسخۂ کیمیا اور ناامیدی کے اندھیروں میں روشن چراغ ہے۔ ماں کی ممتا جہان احساسات کا لطیف ترین جذبہ ہے ۔ ماں جیسی بھی ہو اس کی چھاؤں اولاد کیلئے گھنا سایہ اور سرمایہ ہے۔ "
نور نے کئی آنسو اپنے اندر اُتارے...
خاموشی سمیٹے کئی منٹ یونہی گزر گئی اُن دونوں میں سے کوئی کُچھ نہیں بولا..
"بس میری جان اتنا مت سوچوں صرف اذیت ہوگی اللہ کی رضا میں راضی رہو.."
نادیہ نے اُس کا سر تھپکتے ہوئے کہا نور سوچکی تھی...
"اللہ تمہیں ہر وہ خوشی دے جس کی تُم حقدار ہو.."
اُس نے نور کی پیشانی چومتے ہوئے کہا اور احتیاط سے اُس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا....
_________________________________________