#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۵
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"زبیر کی کال آئی تھی بتا رہا تھا عید کے چوتھے دِن آرہے ہیں..."
علی نے شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا...
"ہاں نادیہ آپی سے بات ہوئی تھی کل کہہ رہی تھیں عید پر ہی آجاتے مگر فلائٹ نہیں ملی..."
نور نے گھڑی اسے پکڑاتے ہوئے کہا...
"پھر اُنہیں سب پتا چل جائے گا ویسے ہی تمہارا بھائی مُجھے دھمکیاں دے چکا ہے اب کی بار پتا نہیں کیا کرے..."
علی نے بیچارگی سے کہا...
"کیا پتا چل جائے گا..؟"
اُس نے ناسمجھی سے پوچھا...
"یہی کہ میں نے اُس کی بہن کو کس حال میں رکھا ہوا ہے.."
"کس حال میں ٹھیک تو ہوں میں آپ نے بھائی کو بہت غلط سمجھ لیا ہے اِس بات پر تو وُہ کبھی آپکو کُچھ نہیں بولیں گے وقتی پریشانی ہے یہ تو..."
نور نے مسکرا کر اُسے حوصلہ دیا...
"ایک ہفتے بعد عید ہے شادی کے بعد ہماری پہلی عید مگر کوئی تیاری نہیں..."
اُس نے قنوطیت سے کیا..
"یہ آپ اتنی نا اُمیدی کی باتیں کیوں کرنے لگ گئے ہیں علی آپ ایسے تو ہرگز نہیں تھے..."
نور نے افسوس سے کہا...
"کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ احساس شدت پکڑ رہا ہے میرے اندر کہ میں تُمہیں کُچھ بھی نہیں دے پارہا ہوں..."
"آپ اپنا ساتھ مُجھے دے رہے ہیں یہ کافی ہے میرے لیے اور یہی ضروری ہے باقی سب ٹھیک ہوجائے گا..."
نور نے ہموار لہجے میں کہا...
"آج کُچھ نہیں ہے رات کے کھانے کے لئے ایک روپیہ نہیں ہے میرے پاس فیکٹری بھی عُمر کے ساتھ جاؤں گا پیٹرول ختم بائک میں..."
علی نے یاسیت سے کہا...
"ابھی پورا دِن پڑا ہے علی.."
نور نے مضبوط لہجے میں کہا..
"تُمہیں کسی بات سے فرق کیوں نہیں پڑتا؟.."
علی اُلجھ کر بولا...
"پھر وہی باتیں اگر آپ نے مزید ایسی کوئی بات کی جائیں مُجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی..."
نور نے نروٹھے پن سے کہا وُہ جانتی تھی یہ دھمکی کارگر ثابت ہونی تھی اور ایسا ہو ہوا..
"اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے نہیں بولتا ایسی کوئی بات..."
علی نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی...
"آپکی کال آرہی ہے علی.."
نور نے ایک نظر موبائل پر ڈال کر کہا...
"ہاں عُمر ہوگا شاید آگیا ہوگا لینے تُم کہہ دو اُسے میں آرہا ہوں.."
علی نے موزے پہنتے ہوئے کہا...
"نہیں عُمر بھائی نہیں ہیں کوئی انجان نمبر ہے..."
"اچھا.." علی نے بے فکری سے کہا مگر پھر ایک خیال بجلی کی سے تیزی سے اُس کے ذہن میں کوندا اُس نے سرعت سے موبائل اُٹھا لیا...
نور نے اُس کی اِس حرکت کو بغور دیکھا...
"اُسی کی کال ہوگی کیسے بھول گئی میں اُسے..."
نور نے نخوت سے سوچا...
"بات کریں کون ہے..؟"
نور نے طنزیہ انداز میں کہا جس علی نے محسوس نہیں کیا...
"چھوڑو تُم دیکھو عُمر بھی آگیا.."
نیچے سے آتی ہارن کی آواز پر اُس نے کہا...
"میں چلتا ہوں جاناں اپنا خیال رکھنا اور بلاوجہ خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں ہے بلکل بھی اور نیچے ہرگز نہیں جاؤ گی تُم ٹھیک ہے.."
وُہ اُسے جلدی جلدی نصیحت کرتا ہوا بولا...
"جی ٹھیک ہے.."
وُہ بے دلی سے بولی...
"کیا ہوا منہ کیوں اُتر گیا ایک دم سے.."
علی نے رُک کر پوچھا...
"ایسا کُچھ نہیں ہے آپکو ایسے ہی لگ رہا ہے.."
نور نے فوراً مسکرا کر کہا مگر وُہ مطمئن نہ ہوا...
"میں چلتا ہوں شام کو بات ہوگی اللہ حافظ.."
علی نے اُس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا...
"خُدا حافظ.."
وُہ نارمل انداز میں بولا تو علی کُچھ لمحے اُسے یوں ہی دیکھتا ہوا چلا گیا...
"اللہ کرے جو میں سوچ رہی ہوں وُہ غلط ہو میں یہ نقصان برداشت نہیں کرسکتی خود سے پوچھ بھی نہیں سکتی ابھی ایک بھرم ہے ایک دیوار ہے اگر پوچھنے پر صاف صاف مُجھے کہہ دیا کہ "ہاں میں اُس سے اب تک محبت کرتا ہوں.." تو میں کہاں جاؤں گی.."
اُس نے تاسف سے سوچتے ہوئے سر جھٹکا اورکمرے میں بکھرے علی کے کپڑے سمیٹنے لگی...