#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۴
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"کونے والا باورچی خانہ تو بہت خراب ہورہا تھا.."
علی نے کمرے میں آکر اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا...
"آپ تھک گئے ہوں گے بس مُجھے ایک گھنٹہ دیں میں کھانا بناتی ہوں.."
"کہاں کہاں چلی سیدھی شرافت سے بیٹھو اِدھر میں باہر سے لے کر آرہا ہوں رات کا کھانا..."
علی نے اُسے باقائدہ اُسے بٹھا کر کہا اور بائک کی چابی اُٹھا کر نکل گیا..
"علی بات سُن میری..."
شفق خاتون جو شاید صحن میں پڑے تخت پر بیٹھی اُس ہی کے نیچے اُترنے کا انتظار کر رہی تھیں اُسے آتا دیکھ کر فوراً اُس کی طرف لپکیں...
وُہ اُن سے فی الفور کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر احترام آڑے آگیا اُس نے کُچھ کہا نہیں بس صحن کے بیچ میں پہنچ کر رُک گیا...
"اتنا بڑا ہوگیا کہ میں تُجھے ڈانٹ بھی نہیں سکتی..."
"تذلیل اور ڈانٹ میں فرق ہوتا ہے اماں..."
وُہ فوراً بولا...
"بھلا ماں کبھی اپنی اولاد کی تذلیل کرتی ہے.."
"کروائی ہے آپ نے میری بے عزتی اپنی ہی دوسری اولاد سے اور اُس کل کی آئی لڑکی سے میں آپ کی ہر بات کو نظرانداز کردیتا ہوں اماں یہ والی بھی کردیتا مگر آج دانیال نے جو مُجھے کہا ہے اُس کے بعد مُجھ سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہوگا جو اُس کا ایک پیسہ بھی لیا آپ میرے لیے دعا کیا کریں بس یہ سوچ کر کہ دانیال کے علاوہ بھی آپکا اور بیٹا ہے اور وُہ بھی آپ سے محبت کرتا ہے.."
اُس نے شفق خاتون کو خود سے لگا کر اُن کے ماتھے کا بوسہ لیا...
"میں سمجھاؤں گی اُسے وُہ تُجھ سے معافی مانگے گا پر یوں نہ کر.."
"ناممکن امّاں اِنسان غصّے میں ہی سچ بولتا ہے اور مُجھے اچھے سے پتا چل گیا ہے کہ وُہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہے اب بلکل نہیں گنجائش.."
اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا...
"یہ سب خناس تیرے دماغ بیوی بھر رہی ہے تیری پتا نہیں کیوں لے کر آ گئی میں اُسے اِس گھر میں.."
وُہ پھر پہلے والے انداز میں بولا...
"اُس نے اپنا کیا بگاڑا ہے امّاں وُہ تو کسی کو کُچھ نہیں کہتی پھر کیوں اتنی نفرت اُس سے.."
"ایسی لڑکیوں کو خوب جانتی ہوں میں کس کس طرح شوہروں کو قابو کرتی ہیں خود کا تو کوئی آگے پیچھے ہے نہیں کیا جانے اپنوں کی اہمیت.."
وُہ نخوت سے بولیں...
"اگر نور کو اپنوں کی اہمیت نہیں پتا تو ہم میں سے کسی کو بھی نہیں پتا پھر.."
علی نے فوراً کہا..
"تُو اُسّے چھوڑ دے طلاق دے کر رفع کر بیٹا وُہ ہمارے گھر میں رہنے کے لائق ..."
"آپ بول بھی کیسے سکتی ہیں ایسا دو دو بیٹیاں کی ماں ہوکر آپ مُجھے کسی کی بیٹی کے ساتھ نا انصافی کی ترغیب دے رہی ہیں یہ تو آپ نے ہمیں کبھی نہیں سکھایا تھا اماں... اتنا فضول لفظ کہا بھی کیسے آپ نے..."
وُہ اُن کی بات درشتی سے کاٹ کر کہا...
"کیونکہ وُہ ہی سارے فساد کی جڑ ہے جب سے آئی ہے سب کُچھ خراب ہو رہا ہے میرے بیٹے کو آخر کر ہی دیا اُس نے مُجھ سے دور بیٹا تو اُسے چھوڑ دے میرے لیے اپنی ماں کے لئے میں تیرے لیے اِس سے بھی اچھی لڑکی..."
"بس کردیں امّاں بس اتنی سفاک مت بنیں وُہ بھی اِنسان ہی ہے کیوں چھوڑوں میں اُسے کیوں؟ میری بیوی نیک ہے،وفادار ہے،میرے گھر والوں کو اپنا سمجھنے والی ہے اور ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑی ہے اور جہاں تک رہی بات مُجھے آپ سے دور کرنے کی تو کبھی آپ اپنے رویے پر غور کیجئے گا سب صاف دِکھنے لگے گا..."
علی نے اُن کے ہاتھوں کو جھٹک کر کہا اور چلا گیا...
"میں اپنا بیٹا کسی کو چھیننے نہیں دوں گی ہرگز نہیں.."
اُن کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے دہک رہے تھے...